فلم ’بچانا‘ یا پھر پیسہ بچانا

اگر فلم سے بھاگم دوڑ نکال دی جائے اور زبردستی میں ٹھونسے گئے کچھ مناظر کو حذف کردیا جائےتو شاید فلم 1 گھنٹے کی رہ جائے

فلم کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھنے والے تو شاید 2 گھنٹے بیٹھ کر تالیاں بجا آئیں لیکن فلم سمجھنے والے ناقدین یقیناً فلم کو ہر پیرائے سے مضبوط دیکھنے کی خواہش رکھیں گے۔

جو لوگ پاکستانی فلم 'بچانا' کو بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان سے متشبہ قرار دے رہے تھے، یقیناً فلم دیکھنے کے بعد ان کی یہ غلط فہمی دورہوجائے گی۔

بالآخر سعد اظہر کے قلم سے نکلی فلم ناصر خان کی ہدایات میں منظر عام پر آہی گئی۔ جیسا کہ فلم کی رلیز سے قبل ہی واضح تھا کہ فلم میں محب مرزا (پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور وقاص عرف وکی) اور صنم سعید (بھارتی مسلمان لڑکی عالیہ) کا کردار ادا کررہی ہیں، جبکہ عدیل ہاشمی فلم میں جہانگیر عرف جے کے نام سے بطور ولن جلوہ گر ہوئے ہیں۔

ہاتھ دکھاؤ؟؟؟

بھاگو.....

جی ہاں پوری فلم میں بس اسی بھاگم بھاگ کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے.

محب مرزا پاکستانی ہے، جو موریشس میں وکی نامی ٹیکسی ڈرائیورکا کردار ادا کررہے ہیں۔ موریشس کی خوبصورت وادیوں میں ٹیکسی گھماتے ہوئے وہ ایک شخص کو ائیرپورٹ تک لے جاتا ہے۔ جلدی کے سبب ائیرپورٹ پہنچنے والے شخص نے کھلے پیسے تک واپس نہیں لیے، لیکن وکی ایماندار ہونے کے سبب پیسے دینے ائیرپورٹ کے اندر تک پہنچ جاتا ہے۔ ائیرپورٹ کے اندر وہ شخص اپنی روٹھی گرل فرینڈ کو دو زانوں جھک کر منا رہا ہوتا ہے لیکن وہ اسے چھوڑ جاتی ہے۔ ائیرپورٹ پر ہی موجود صنم سعید یعنی عالیہ اس منظر کی ویڈیو بنا رہی ہوتی ہے اور جب وہ لڑکا اداس ہوجاتا ہے تو عالیہ وکی کے ساتھ ملکر اس شخص کو دلاسہ دینے کی کوشش کرتی ہے اور ایک مزاحیہ شعر سناتی ہے۔ اس منظر میں بہت جان ڈالی جاسکتی تھی، لیکن اِس فلم میں یہ پورا سین انتہائی بے جان سا محسوس ہوا۔



ائیر پورٹ پر ہی عالیہ اپنے شوہر عدیل ہاشمی یعنی جہانگیر عرف جے کی منتظر ہوتی ہے۔ عدیل ہاشمی جن کو مزاحیہ کردار ہی زیب دیتے ہیں، یہاں ولن کا کردار نبھانا یقیناً خاصا دشوار ہوا ہوگا۔ بس اِسی دوران دونوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر وکی اپنا تعارف بطور ٹیکسی ڈرائیور کرواتا ہے جس کے بعد دونوں (عالیہ اور جے) اُس کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے وکی کی ٹیکسی میں سوار ہوجاتے ہیں۔ دوران صفر وکی ٹیکسی ڈرائیور اپنی گاڑی میں عالیہ اور اس کے شوہر کو موریشس کے اچھے سے اچھے ٹور کا پیکج بتاتا ہے اور وہ دونوں اس کی ٹیکسی میں فی الحال ہوٹل ہی جانے پر اکتفا کرتے ہیں.

دراصل بھارتی لڑکی عالیہ کی جہانگیر نامی آدمی سے شادی انٹرنیٹ کے ذریعے ہوئی تھی۔ ابتداء میں تو سب ٹھیک تھا لیکن جب عالیہ اپنے شوہر سے ملنے موریشس آئی ہے تو اس پر ایک ایسا راز منکشف ہوتا ہے جس کے سبب اُس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ وہ زاز کیا ہے یہ تو آپ کو فلم دیکھ کر ہی معلوم چلے گا، لیکن اُس راز کو جاننے کے بعد عالیہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مزید رہتی، بس اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے عالیہ کو وکی ڈرائیور کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔

بس پھر کیا؟

ہاتھ دکھاؤ؟؟

بھاگو!!


موریشس کے جنگلات سے لیکر باغات تک، سڑکوں سے لیکر دریا تک جہانگیر سے بچاؤ کی خاطر عالیہ اور وکی بس بھاگتے ہی نظر آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلم میں مجموعی طور فلمائے گئے 3 گانوں میں سے 2 گانے 'یاری' اور 'بچانا' صرف بیک گراؤنڈ میں سنائی دیئے ہیں اور ایک گانے 'کوئی لبدا' کو فلم میں باقاعدہ جگہ مل گئی ہے۔



فلم کے ڈائیلاگز، 'لڑکی ہندوستانی ہو یا پاکستانی، لڑکی لڑکی ہوتی ہے' اور 'میڈم میں پاکستانی ہوں، ایلین نہیں' فلم میں شاید لوگوں کو جوش دلانے کے لیے شامل کیے گئے ہیں اور شاید لوگ ان سے متاثر ہو بھی جائیں اگر انھوں نے بھارتی فلموں کو زیادہ غور سے نا دیکھا ہو تو۔

تکنیکی مسائل سے بچنے کی خاطر اہم ترین مناظر کو رات کی تاریکی میں بھی فلمایا گیا ہے۔ خصوصاً عالیہ کا دریا میں کودنا، جس کو بچانے کی کوشش میں وکی کا مشکل میں آجانا اور پھر الٹا عالیہ کا وکی کو 'بچانا'۔

اگر یہ کہا جائے کہ فلم کی شروعات میں کچھ دم خم ضرور ںظر آیا لیکن دوسرے حصے سے قبل ہی فلم صرف بھاگم دوڑ کی نظر ہوگئی۔ پوری فلم کا لب لباب ایک غلط فہمی ہے اور اس کا اندازہ آپ فلم دیکھ کر ہی کر پائیں گے۔ مزے کی بات دیکھئے کہ فلمساز نے اتنی ننھی سی کہانی کو لیکر تقریباً ہر چیز کا ہی خرچہ بچایا ہے۔ مثلاً صنم سعید نے شروعات سے لیکر اختتام سے قبل تک پیلا جوڑا پہنا ہوا تھا جسے اختتام پر بدل لیا اور کالا جوڑا پہن لیا، جبکہ محب مرزا نے صرف 1 جیکٹ تبدیل کی۔ یہ خامیاں اِس بات کا بھی تاثر دیتی ہے کہ جیسے فلم کی شوٹنگ ایک یا 2 روز میں ہی مکمل کرلی گئی ہو.


محب مرزا اور صنم سعید بطور فلم ایکٹرز

اپنی پچھلی فلم دختر کے مقابلے میں محب مرزا کی فلم بچانا میں اداکاری یقیناََ قابل تعریف ہے. اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تیز تیز جملے بولنے کا انداز لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کردے گا۔ پھر صنم سعید چونکہ پہلی بار فلم میں آئیں اور آتے ہی بھارتی ناری کا کردار اپنایا تو شاید وہ ان پر جما نہیں یا شاید ان کے ڈائیلاگز پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔
بجرنگی بھائی جان بمقابلہ بچانا

گوکہ فلم بچانا میں بھی کئی خوبصورت مناظر موجود ہیں لیکن جس طرح بجرنگی بھائی جان میں بھارتی کو بھارتی اور پاکستانی کو پاکستانی کا رنگ دیا گیا تھا، اس پر فلم 'بچانا' کسی طور پوری نہیں اترتی۔ بھارتی لڑکی کا کردار لکھنے والے نے پاکستانی سوچ کو زیادہ ذہن میں رکھا ہے.
فلم کا دورانیہ

فلم کا دورانیہ تقریباً 1 گھنٹہ اور 40 منٹ ہے. نا تو فلم میں گانے ہیں اور نا ہی کوئی بہت لمبی اسٹوری لائن۔ اگر فلم سے بھاگم دوڑ نکال دی جائے اور زبردستی میں ٹھونسے گئے کچھ مناظر کو حذف کردیا جائے تو شاید فلم 1 گھنٹے کی رہ جائے۔
فلم بچانا یا پھر پیسہ بچانا؟

یہ فیصلہ آپ بہتر کرسکتے ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری یقیناً احیاء کی جانب گامزن ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جلد بازی میں فلمیں بنائی جائیں۔ جس تیزی سے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے اسی تیزی سے عوام کی امیدیں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ فلم کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھنے والے تو شاید 2 گھنٹے بیٹھ کر تالیاں بجا آئیں لیکن فلم سمجھنے والے ناقدین یقیناً فلم کو ہر پیرائے سے مضبوط دیکھنے کی خواہش رکھیں گے
[poll id="983"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story