ادبی میلہ اور اخوت کا سفر

کوئی چاہے تو ایک اینٹ خرید کر اپنا حصہ ڈالے اور اینٹ پر اپنا نام لکھوائے اور کوئی قربانی کر کے ایک ہزار اینٹیں خرید لے

h.sethi@hotmail.com

2016ء فروری کا مہینہ اور اس کے تیسرے ہفتے کے تین دن ہفتہ، اتوار اور سوموار دل و دماغ کی بھرپور ضیافت کے دن تھے۔ پہلے دو دن لاہور ادبی میلے کی رونقیں جب کہ تیسرے دن اخوت اور بھائی چارے کے اسلامی اصولوں پر قائم ادارے کی تقریب جس میں اہل لاہور نے شریک ہو کر اپنی زندہ دلی اور فراخ قلبی کا ثبوت دیا۔ لاہور ادبی میلے میں بیرون ملک سے شامل ہونے والے شائقین اور مندوبین بھی تھے جب کہ ''اخوت'' کی تقریب میں کئی بیرون شہروں سے مدعو ہونے والے مخیر حضرات تھے۔

لاہور ادبی میلے کا انعقاد تین روز کے لیے الحمرا آرٹ کونسل میں ہونا تھا لیکن سیکیورٹی خدشات کے باعث اس کا دورانیہ دو دن کرنے کے علاوہ پروگرام بھی نزدیکی ہوٹل کے لان میں شفٹ کر دیا گیا۔ دونوں دن علم و ادب کے دیوانوں کا نئی جگہ پر بھی ہجوم رہا۔ سینیٹر شیری رحمان نے اپنے خطاب میں ٹھیک کہا کہ عدم برداشت کے رجحان کا اگر پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کر کے اس شیطانی اور غیراسلامی بربریت کو دفن نہ کیا گیا تو اجتماعی ناکامی اور تباہی ہمارا مقدر ہو گی۔ سابق سفیر دینہ صدیقی اور سلمان حیدر ان کے ہم نوا تھے۔

میر تقی میرؔ کی زندگی اور شاعری پر گفتگو کرنے والوں میں زہرہ نگاہ، خورشید رضوی اور سی ایم نعیم تھے جب کہ امجد اسلام امجد ماڈریٹر تھے۔ اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر نے بھی اظہار خیال کیا۔ مقررین کا یہ کہنا درست تھا کہ میر تقی میرؔ 18 ویں، اسد اللہ غالبؔ 19 ویں اور اقبالؔ 20 ویں صدی کے ممتاز شاعر تھے۔

زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ میر کو خوشامد پسندی سے نفرت تھی۔ انھوں نے وقت کے ظالم اور بدفطرت حاکموں کے خلاف بھی کھل کر لکھا۔ کئی موضوعات مثلاً عجائب گھروں کے تحفظ، فوٹوگرافی کی طاقت اور فن افسانہ نگاری پر بھی ملکی و غیرملکی مندوبین نے کھل کر اظہار خیال کیا۔ ایک بھرپور پلے ''لولیٹر'' پیش کیا گیا۔ معروف پبلشرز اور بک سیلرز نے کتابوں کے اسٹال لگا رکھے تھے جہاں خوب خریداری ہوتی رہی لیکن جگہ کی تنگی اور میلے میں ایک دن کی کٹوتی کی وجہ سے حاضرین کی وہ تعداد نہ تھی جو الحمرا میں ہو سکتی تھی۔

شہر کی دوسری اہم تقریب این جی او ''اخوت'' کی تھی جو گورنر ہاؤس کے لان میں ملک محمد رفیق رجوانہ کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔ اس کے تعارف کے لیے یہ شعر موزوں رہے گا:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اخوت کی ابتدا پندرہ سال قبل 2001ء میں ایک بیوہ خاتون کو مبلغ دس ہزار روپے بلاسود قرض دے کر ہوئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے میڈیکل میں گریجویشن کی۔ ڈاکٹری میں دل نہ لگا تو سول سروس کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔ ترقی ہوئی تو ڈپٹی کمشنری کے بعد پنجاب رورل سپورٹ پروگرام سے منسلک تھے کہ ایک گاؤں میں جانا ہوا، وہاں کچھ لوگوں سے ملنا ہوا جو چھوٹے قرضوں سے کاروبار شروع کر چکے تھے۔ ایک غریب عورت ملی جو چھوٹے قرض سے کاروبار کر رہی تھی۔

امجد ثاقب کے ساتھی ڈاکٹر کامران شمس نے اس سے پوچھا قرض لے کر کاروبار کرنے سے اس کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔ وہ عورت بے ساختگی سے بولی ''میرے بچے پہلے آدھی روٹی کھاتے تھے، اب پوری روٹی کھانے لگے ہیں۔'' یہی وہ فقرہ اور وقت تھا جب ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے چند دوستوں نے عزم کیا کہ وہ غربت سے جنگ کر کے لوگوں کو باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بنائینگے۔ یوں اخوت کا قیام عمل میں آ گیا۔


ذکر ہوا تھا اخوت کے پہلے قرضہ کا جو ایک بیوہ کو دیا گیا وہ خاتون خاوند کی وفات کے بعد مشکلات کا شکار تھی۔ اس پر یتیم بچوں کی ذمے داری تھی لیکن وہ خیرات پر گزارا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دس ہزار روپے ملنے پر اس نے دو سلائی مشینیں خریدیں اور اسکول کے بچوں کی یونیفارم سینے لگی۔ چھ ماہ کی محنت سے اس نے گھر کا خرچ نکالا اور ایک بچی کی شادی کی اور قرض حسنہ بھی واپس کر دیا۔

یہ قرضہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ اخوت دراصل ایک عظیم اسلامی روایت کی پیروی کا نام ہے جس کی بنیاد چودہ سو سال قبل رسول اللہؐ نے اس وقت رکھی جب مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنا پڑا اور اہل مدینہ نے اس موقع پر مہاجرین کو ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے تعاون کی پیشکش کی تھی اور ان سے کہا کہ اس گھر میں جو کچھ ہے آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ اسی مثال کو پیش نظر رکھ کر موجودہ حالات میں اخوت کے فلسفہ کے تحت قرض حسنہ کی بنیاد رکھی گئی۔

گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب جو بظاہر اخوت ڈنر کے نام سے موسوم ہوئی دراصل قرض حسنہ سے روزگار حاصل کرنے کے عمل سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے تعلیم کے میدان میں لوگوں سے تعاون حاصل کرنے کی تحریک تھی۔ جہاں تک بلاسود روزگار کمانے کے لیے ضرورت مندوں کو قرض دینے کا تعلق ہے لوگوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے اخوت نے گزشتہ پندرہ برس میں اکیس ارب روپیہ تقسیم کیا ہے جس سے ملک کے تین سو شہروں میں گیارہ لاکھ پچیس ہزار گھرانے فیض یاب ہوئے ہیں جب کہ قرضوں کی واپسی کی شرح 99.8 فیصد ہے ۔

جس کی مثال دنیا کے کسی بینک میں بھی نہیں ملے گی۔ 5 جنوری 2016ء کے دن بادشاہی مسجد لاہور میں قرضوں کی تقسیم کی تقریب بے مثال تھی۔ اخوت کلاتھ بینک میں کم استعمال شدہ اور فالتو کپڑے عطیہ کیے جاتے اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ قرضوں کی حد فی گھرانہ دس ہزار ورپے سے پچاس ہزار روپیہ تک ہے جو شخصی یا سماجی ضمانت کے اصولوں پر دیے جاتے ہیں۔

اخوت نے عطیات، صدقات اور خیرات کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم مستحق، ایماندار، محنتی مگر بے روزگار افراد اور گھرانوں کو قرض کی شکل میں دیں تو غربت ہی کم نہیں ہوئی، ضرورت مندوں کے لیے باوقار روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور بہت سے مقروض اپنی کاروباری کمائی سے ڈونر بن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اخوت کا اگلا قدم مستحق افراد کے لیے تعلیمی سہولت مہیا کر کے ناخواندگی اور جہالت کے عفریت کو شکست دینا ہے۔

لاہور میں قائم کیا گیا اخوت کالج گیارہویں اور بارہویں کلاسز میں داخل ہونے والے مستحق اور قابل و ذہین بچوں کو گزشتہ سال 2015ء سے زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ ضلع قصور میں درسگاہ کے لیے زمین خریدی جا چکی ہے اور عمارت کی تعمیر جلد شروع ہو جائے گی۔ اخوت فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ سائنس و ٹیکنالوجی آپریشنل ہو چکا ہے۔ فیصل آباد ہی میں ملک کے چاروں صوبوں اور گلگت، بلوچستان، فاٹا کے طلبا کے لیے یونیورسٹی کا قیام زیر تجویز ہے جس کا بجٹ گیارہ کروڑ روپے کے لگ بھگ ہو گا۔

گورنر ہاؤس کے ڈنر میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے حاضرین کو بتایا کہ ملک اور بیرون ملک کے ڈونر حضرات کے توسط سے امید کی شمع روشن کرنے کے لیے دس لاکھ تعمیری اینٹوں کا تصور قائم کر کے مخیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے حصے کی اینٹیں خرید کر یونیورسٹی تعمیر اور قائم کرنے میں ساتھ دیں۔ یہ ان ڈونرز کی طرف سے صدقہ جاریہ ہو گا۔ ایک اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپیہ مقرر کی گئی ہے۔

کوئی چاہے تو ایک اینٹ خرید کر اپنا حصہ ڈالے اور اینٹ پر اپنا نام لکھوائے اور کوئی قربانی کر کے ایک ہزار اینٹیں خرید لے وہ اسے ثواب، نیکی، خدمت، تعاون، خیرات، عطیہ، صدقہ جو چاہے سمجھے لیکن اخوت کا پندرہ سالہ ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کرے کیونکہ

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
Load Next Story