گائوں کے مزارع اور شہری کرایہ دار

ہزار تک پہنچا تو رک گیا میں نے کہا آگے تو اس نے جواب دیا کہ اس سے آگے فیصل ہی گن سکتا ہے


Abdul Qadir Hassan February 28, 2016
[email protected]

سید محمود الحسن ندوی اپنے سعودی عرب کے ایک سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ عربی زبان کا محاورہ تازہ کرنے کے لیے میں عرب کے بدؤں سے گفتگو کرتے ایک صحرائی بدو خاندان سے باتیں کر رہا تھا کہ دوران گفتگو روپے پیسے کی گنتی کی بات چل نکلی تو میں نے اپنے بدو دوست سے پوچھا کہ تم کہاں تک گنتی کر سکتے ہو اس نے جواب دیا کہ میں ایک ہزار تک گن سکتا ہوں اور اس نے گنتی شروع کر دی۔

ہزار تک پہنچا تو رک گیا میں نے کہا آگے تو اس نے جواب دیا کہ اس سے آگے فیصل ہی گن سکتا ہے۔ اس زمانے میں دولت صرف شاہی خاندان تک محدود تھی عام عرب غریب تھا پرانے پیشوں پر گزربسر کرتا تھا اور اونٹ بکری پالتا تھا۔ آج ہم پاکستانی جو کل تک ایک تھوڑی سی رقم سے آگے نہیں بڑھتے تھے اب ہزاروں لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک پہنچ گئے ہیں۔ رشوت اور غبن وغیرہ کی جو خبر بھی سامنے آتی ہے اس میں اربوں کی رقم کا ذکر ہوتا ہے۔

میرے جیسا غریبانہ دیہی پرورش پانے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اتنی بھاری رقم کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ہر پاکستانی شاہ فیصل ہے جو ایک پرانے محاورے کے مطابق لاکھوں میں نہیں اربوں میں کھیلتا ہے۔ اتنی رقم کوئی کہاں رکھتا ہے اور کوئی پاکستانی اس قدر دولت کو کیسے برداشت کر لیتا ہے اور پھر اس کی گنتی کون کرتا ہے، کسی قیمتی جانور کی قیمت کبھی ''ست ویہاں'' (سات بیس) بتائی جاتی تھی تو ایسے قیمتی جانور کے مالک کا رعب بیٹھ جاتا تھا۔

یہ بہت بڑی قیمت تھی، ست ویہاں یعنی 140 روپے سے زیادہ قیمت والے جانور کم ہی ہوتے تھے۔ ہمارے ہاں عموماً کسی بھینس یا بیلوں کی جوڑی کی ہی اتنی قیمت ہوا کرتی تھی۔ اگر کسی کی ایسی قیمتی بھینس مر جاتی تھی تو اس کے ہاں باقاعدہ ماتم کی صف بچھ جاتی تھی۔ ایسی بھینس نہ جانے پھر کب نصیب ہو گی۔ اگرچہ اب دیہات میں بھی حالت بدل چکی ہے اور 'ست ویہاں' کا زمانہ گزر چکا ہے لیکن پھر بھی مہنگائی اور اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ گنتیاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔

دیہات میں سڑکیں بہت کم ہوتی ہیں اور ان پر چلنے والی بسیں زیادہ نہیں ہوتیں۔ گاؤں میں پگڈنڈیاں ہی عوامی راستہ ہوتی ہیں اور ان پرانی اور کٹی پھٹی پگڈنڈیوں پر کامیابی کے ساتھ اگر کوئی سواری چل سکتی ہے تو وہ موٹر سائیکل ہے جس کا حصول اور استعمال آسان ہے۔ اگرچہ اچھی بھینس یا بیلوں کی جوڑی کی قیمت موٹر سائیکل کے قریب پہنچ جاتی ہے لیکن کسی جاندار کو پالنا بذات خود ایک مشکل اور مہنگا کام ہے اور اس طرح کسی جاندار کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ چناں چہ ان دنوں دیہات کی غیر مشینی دنیا بھی موٹر سائیکل نامی مشین سے آگاہ ہو چکی ہے۔

مشین کی آمد اور رواج کے ساتھ جو تبدیلی آئی ہے وہ کسی سابقہ سیاسی بیوی کے وعدے سے زیادہ خوش کن ہے کیونکہ یہ تبدیلی عملاً موجود ہے اور گاؤں کی خاموش دنیا کو موٹر سائیکل توڑ چکا ہے جو ایک کامیاب سواری ہے، میرے گاؤں میں میاں نواز شریف جب وہ پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تھے تو مہربانی کر کے انھوں نے ایک سڑک بنانے کا حکم دیا تھا جو میرے گاؤں کی لمبائی میں پھیلی ہوئی زمینوں کے آرپار بن گئی اور وہ لوگ جو آبادی سے کٹ گئے تھے اس سڑک کے ذریعے اس بڑی سڑک تک پہنچ گئے جو انھیں آگے کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔

میاں صاحب نے یہ حکم ایسے الفاظ میں جاری کیا تھا کہ میں جب گاؤں گیا تو سڑکوں کی تعمیر کے محکمہ والے بے تابی کے ساتھ میرا انتظار کر رہے تھے۔ بالکل اسی طرح یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہاں لاہور میں گلبرگ کی جس سڑک پر میں رہتا تھا اسے میاں شہباز شریف نے جنگی بنیادوں پر تعمیر کرا دیا۔ راتوں رات یہ سڑک بن گئی بعد میں اس سڑک میں سیاست کا تڑکہ بھی لگ گیا۔ وہ یوں کہ میاں صاحب کے سیاسی حریف چوہدری صاحبان کے عزیز مونس الٰہی نے اس سڑک کے نہایت ہی موزوں مقام پر ٹیوب ویل لگا دیا۔

سیاسی دھڑے بندی کا ایک نمونہ میں نے اپنے ہاں دیکھا اور اس سے فائدہ اٹھایا کہ اس نئی سڑک پر آباد لوگ مونس سے خوش ہو گئے اور مجھ سے بھی جو یہاں کے مکان کو چھوڑ کر ایک دوسرے کرائے کے مکان میں چلا گیا۔ ع مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن جس کسی نے یہ کہا تھا کہ بے وقوف مکان بناتے ہیں اور عقلمند ان میں رہتے ہیں ٹھیک نہیں کہا تھا۔ کرائے دار کی زندگی کسی عقلمند کی زندگی نہیں ہوتی۔

بطور کرایہ دار مجھے اپنے مزارع یاد آتے ہیں اور مجھے شہری کرایہ داری گاؤں کی سزا محسوس ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ فصلوں کی بٹائی کے دنوں میں مجھے گھر والوں نے کہا کہ اب یہ بڑا ہو گیا ہے اسے بٹائی کے لیے بھیجو۔ چنانچہ میں ایک قریبی کھیت میں چلا گیا جہاں گندم کی فصل تیار تھی، بٹائی کے لیے میرے انتظار میں۔ جب میں گندم کے ڈھیر کے پاس پہنچا تو اس زمین کا بزرگ مزارع بھی وہاں موجود تھا اس نے مجھے دیکھتے ہی میری کم عمری کا فائدہ اٹھایا اور بڑی تلخی سے کہا کہ ہم سال بھر مزدوری کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور یہ ہماری آدھی کمائی لے جاتے ہیں۔ میں اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا۔ بزرگ مزارع کا یہ لہجہ مجھے عمر بھر نہیں بھولے گا۔

نہ جانے کب سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ کام مزارع کرتا ہے لیکن اس کی محنت کا نصف اس کا مالک لے جاتا ہے۔ میری جو زمین ہے اس کے حصول میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ مجھے بزرگوں سے ملی ہے جسے جدی پشتی وراثت کہتے ہیں۔ البتہ مزارع میں بدلتا رہتا ہوں بلکہ بعض کھیتوں کے مزارع تو زمین کی طرح جدی پشتی ہیں۔ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ قانون کے تحت کوئی مزارع اگر اتنے سال یا مالک کی اتنی پشتوں تک رہے تو وہ اس زمین پر موجود گھر کا مالک بن جاتا ہے۔

ایک بار زمین کے ایک ٹکڑے کے مزارع اپنی زیر کاشت زمین پر موجود مکان کے مالک بن گئے لیکن ان کے بزرگوں نے فیصلہ سنایا کہ ہم نے اس زمین کے مالکوں کا عمر بھر کھایا ہے میں یہ نمک حرامی نہیں کر سکتا۔ یہ زمین بھی ان کی ہے، یہ گھر بھی ان کا ہے اور مجھے اس گھر کی جو ملکیت مل رہی ہے میں وہ نہیں لے سکتا۔ میرے اور میرے خاندان کی رگوں میں جن کا خون ہے میں ان سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔

ہمارا دیہاتی معاشرہ اب تک پرانے انداز اور روایتوں میں چل رہا ہے اور اس سے روگردانی قابل قبول نہیں ہوتی۔ میں تو شاید اپنی زمین کا کچھ حصہ اپنے گناہوں کے عوض کسی مزارع کو دے دوں لیکن ہماری دیہی زندگی میں ایسا ممکن نہیں ہے اور یہ روایت میں اکیلا قائم نہیں کر سکتا۔ میری برادری تو مجھ سے قطع تعلق بھی کر دے گی کہ اس نے جدی پشتی زمین کا کچھ حصہ کسی کو بخش دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں