ہم تو اس کتے سے بھی گئے گزرے ہیں

حضرت عمر فاروق ؓ کے نام سے کون واقف نہیں، خلفائے راشدین میں ان کا دوسرا نمبر ہے

Shireenhaider65@hotmail.com

ISLAMABAD:
حضرت عمر فاروق ؓ کے نام سے کون واقف نہیں، خلفائے راشدین میں ان کا دوسرا نمبر ہے، وہ ایک عظیم انسان ہی نہیں، ایک عظیم حکمران بھی تھے۔ ایک دفعہ ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور غصے سے کہنے لگا، '' امیرالمومنین! خدا کا خوف کھائیے!'' لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور اس سے کہنے لگا، '' کیا تم امیر المومنین کو کہہ رہے ہو کہ خدا کا خوف کرو؟'' حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس کو یہ بات کہنے دو، اس نے کیا اچھی بات کہی ہے۔ تم میں سے کوئی خیر و بھلائی نہیں جب کہ تم یہ بات ہم سے نہ کہو اور ہم میں کوئی بھلائی نہیں جب کہ ہم تم سے یہ بات قبول نہ کر لیں۔

مسجد آخر تک بھری ہوئی تھی، لوگ سوالیہ نظروں سے باہم تبادلۂ خیال کرنے لگے کہ امیر المومنین کو آنے میں تاخیر کیوں ہو گئی، وہ کہاں ہیں؟ چند لمحوں کے بعد حضرت عمرؓ مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر چڑھنے کے بعد لوگوں سے معذرت خواہ ہوئے ، فرمایا، '' میں اصل میں اپنے یہ کپڑے دھو رہا تھا اور میرے پاس اس کے سوا کوئی اور کپڑا نہیں تھا ''

حضرت عمرؓ کی بیوی نے ساٹھ درہموں کا گھی خریدا، جب حضرت عمرؓ کی نظر اس پر پڑی تو پوچھا یہ کیا ہے؟ بیوی نے کہا کہ یہ گھی ہے جو میں نے اپنے مال سے خریدا ہے، آپؓ کے نفقہ سے نہیں خریدا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ، '' میں یہ گھی نہیں چکھوں گا جب تک کہ میرے سارے لوگ شکم سیر نہ ہو جائیں! ''

امیر المومنین ، حضرت عمرؓ کے پاس کہیں سے بہت سے کپڑے آئے تو آپ نے لوگوں میں وہ کپڑے برابر تقسیم کر دیے۔ ہر آدمی کو ایک کپڑا ملا، آپ ؓ منبر پر کھڑے تھے، آپ کے جسم مبارک پر دو کپڑے تھے، آپ لوگوں سے مخاطب ہوئے کہ ان کی بات سنیں۔ حضرت سلمان ؓ نے کہا کہ وہ نہ ان کی بات سنیں گے اور نہ مانیں گے۔

حضرت عمرؓ نے حیرت سے سوال کیا کہ وہ ان کی بات کیوں نہیں سنیں گے اور مانیں گے ؟ انھوں نے کہا ، ''آپ نے ہم سب میں تو ایک ایک کپڑا تقسیم کیا جب کہ آپ کے اپنے تن پر اس وقت دو کپڑے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، '' اے ابو عبداللہ! جلدی نہ کرو... '' پھر آواز دی، '' اے عبداللہ بن عمر ؓ !'' ابن عمرؓ نے کہا، '' امیرالمومنین میں حاضر ہوں ، فرمائیے!'' حضرت عمرؓ نے سوال کیا، '' میں تجھے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جو کپڑا میں نے پہنا ہوا ہے، کیا یہ تیرا کپڑا ہے؟ '' انھوں نے کہا، ' ' جی ہاں ، یہ میرا کپڑا ہے! '' حضرت سلمانؓ نے یہ بات سنی تو فرمایا، '' ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی! ''

عتبہ بن فرقد کی جانب سے حضرت عمرؓ کی خدمت میں دو بڑے برتنوں میں اونٹوں پر لاد کر، آذر بائیجان سے ایک کھانا بھجوایا گیا جس کا نام '' خبیص'' تھا اور وہ کھجور اور گھی سے تیار کیا جاتا تھا، یہ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ جب یہ کھانا بارگاہ خلافت میں پہنچا تو حضرت عمرؓ نے ان برتنوں کو کھولا اور دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ یہ '' خبیص'' ہے۔

امیر المومنین ؓ نے اس کو چکھا تو بڑا شیریں اور خوش ذائقہ محسوس ہوا، حضرت عمرؓ نے قاصدوں سے سوال کیا ، کیا وہاں کے سب مسلمان یہ کھانا کھاتے ہیں؟ قاصدوں نے نفی میں جواب دیا، حضرت عمرؓ نے ان کو حکم دیا کہ یہ برتن واپس لے جاؤاور عتبہ بن فرقد کو لکھا ، '' یہ کھانا نہ تیرے باپ کی محنت و کمائی کا ہے اور نہ ہی تیری ماں کی کمائی کا ہے، تمام مسلمانوں کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو!''

جان کی اماں پاؤں تو عرض کروں مہاراج!!!


میں ہر گز توقع نہیں کر رہی کہ آج حضرت عمرؓ کے پائے کے حکمران ہوں۔ ہم تو ان کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں ، نہ ہی حکمرانوں کے اعمال ہیں کہ ان کا مقابلۂ حکمرانی کسی ایسی اعلی ہستی سے کیا جا سکے۔ آپ شادی کے تحفے میں کروڑوں کا ہار دیں تو دے سکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس دولت ہے، یہ دولت کہاں سے اور کن ذرائع سے آتی ہے، اس کا جواب آپ ہمیں تو نہیں دے سکتے مگر ایک ذات ہے کہ جس کے سامنے ایک دن جواب دہ ہونا ہے لیکن اس دن کا خوف کون کرتا ہے۔

آپ کا مقابلہ ان عمرؓ سے کہاں جو راتوں کو اپنے عوام کے سکون اور ضروریات کو جاننے کی خاطر گشت کیا کرتے تھے اور سرکاری گودام سے اناج کی بوری اپنی کمر پر لاد کر ضرورت مندوں تک پہنچاتے تھے، انھیں وہ بوجھ اس لیے بوجھ نہ لگتا تھا کہ اگر اس دنیا میں اس بوجھ سے گھبراتے تو روز قیامت اللہ کو کیا منہ دکھاتے، ان کا کہنا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو عمرؓ اس کے لیے اللہ کو جواب دہ ہے۔

نہ ہی نعوذ باللہ وہ اس کتے کے رازق تھے اور نہ ہی کتے کی زندگی یا موت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی ، مگر خوف خدا تھا جو ہر حکمران کو ہونا چاہیے جس کے کاندھوں پر اتنی مخلوق کے بارے میں فیصلے کرنے کی قوت ہو، وہ اقتدار کو مزے لوٹنے کا ذریعہ نہیں بلکہ انتہا درجے کی آزمائش سمجھتے تھے۔ صد افسوس کہ ہم اس کتے سے بھی گئے گزرے ہیں جس کے پیاسا مر جانے کی فکر میں عمرؓ مبتلا تھے۔

آج کل غوغا مچا ہے کہ نیب فلاں کے پیچھے'' خواہ مخواہ ''پڑ گئی ہے اور فلاں کو تنگ کر رہی ہے۔ اصولاً تو نیب بنی ہی اسی لیے کہ اس ملک میں جو کالے دھندے ... اوپر سے نیچے تک بیٹھے لوگ کر رہے ہیں، ان کی پکڑ ہو، مگر آپ سے پہلے بھی اور آپ نے بھی نیب کو اپناماتحت ادارہ سمجھ رکھا ہے۔ آپ کا جہاں ذرا سا تعلق یا واسطہ نکلتا ہے وہاں آپ کی انا پر چوٹ پڑتی ہے۔

احتساب کے ادارے کو ہر بدعنوان شخص پر ہاتھ ڈالنے کا پورا پورا اختیار ہونا چاہیے، آپ حکمران ہیں، آپ ہمیں جواب دہ ہیں، ایک عام آدمی، جس کی اپنی کوئی credibility بھی نہ ہو، و ہ بھی آپ کو کسی بات پر کھڑا ہو کر سوال کر سکتا ہے، کیونکہ اس نے آپ کو منتخب کیا ہے۔

اللہ تعالی کے قوانین کے مطابق، ہم حکمرانوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کی ذاتی رہائش گاہ کی حفاظت کے لیے کروڑوں روپے کیوں خرچ کیے جا رہے ہیں۔ آپ پرہماری جان و مال کی حفاظت فرض ہے یا اپنی؟ یہاں تو عام آدمی کروڑ کے فگر کو لکھ بھی نہیں سکتا۔

نیب کے پرزے کسنے کاجواز کیا بہترین تراشا ہے جناب... کہ اگر نیب لوگوں کو اس طرح تنگ کرے گی تو لوگ اس ملک میں سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دیں گے!!! چھوڑنے دیں جناب، اس ملک کے سب سے بڑے سرمایہ کار تو حکمران ہیں نا، ان کی ساری سرمایہ کاری اس ملک سے باہر ہے، ہندوستان میں، سعودی عرب میں، ترکی میں... حکمران اس ملک کو لوٹ کر باہر کے ممالک کے بینک بھرتے رہے اور اس دنیا سے اس طرح گئے کہ انھیں یا ان کی اگلی نسلوں کو بھی اس پیسے کا کوئی فائدہ نہیں۔

دنیا بہت آگے جا چکی ہے، اس لیے کہ دنیا میں ترقی پر کام ہو رہا ہے، ا س ملک میں ترقیاتی منصوبہ بھی اس وقت وہی بنتا ہے جس میںحکمرانوں کا فائدہ ہے، پیلی ٹرین ہو یا لال میٹرو بسیں... چو پڑی اور دو دو۔ بس کر دیں خدارا ! کوئی تو حد ہوتی ہے انسان کی طمع کی، کچھ تو احساس ہوتا ہے کہ جن کے ووٹوں کی طاقت سے آپ حکمران بنے بیٹھے ہیں، وہ انسان ہیں، آپ ان عظیم شخصیات کے مذہب کے ماننے والے ہیں جو اپنی رعیت کے کتوں کے لیے بھی پریشان ہوتے تھے۔

عوام کو کسی طرف سے سکون لینے دیں، محکموں کو اپنا کام کرنے دیں۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے سے تنگ عوام کو اب دواؤں کی قیمت میں اضافے کا مژدہ سنا دیا ہے آپ نے، سیدھے سبھاؤ کہہ کیوں نہیں دیتے... '' لوگو، تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں، بہتر ہے کہ بیمار پڑو اور مر جاؤ!! ''
Load Next Story