کرپشن فری پاکستان
ملک میں معاشی، سیاسی، انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کے لیے خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے
ISLAMABAD:
ملک میں معاشی، سیاسی، انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کے لیے خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ بے انتہا غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی جڑ موجودہ کرپٹ سسٹم ہے جس کی وجہ سے بے انتہا معدنیات ،بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال جفاکش اور محنتی قوم کے باوجود غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے۔
آئین پاکستان میںعام شہری کو عزت کی روٹی ،تعلیم ،علاج اور رہائش دینے کی ضمانت دی گئی ہے مگر کرپٹ حکومتوں نے ان بنیادی حقوق سے شہریوں کو محروم رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان میں 12ارب روپے روزانہ کرپشن ہورہی ہے گویا 4380ارب روپے سالانہ کی کرپشن ہورہی ہے۔
کرپشن کا یہ حجم ناقابل یقین ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خود سرکاری ادارے اس کی توثیق کرتے ہیں۔ پاکستان میں توانائی کے میگا پراجیکٹ مثلاً بھاشا ڈیم 1335 ارب، داسو ڈیم 795 ارب، بُنائی ڈیم 827 ارب، کالا باغ ڈیم 1060، پتن ڈیم 636 ارب، تھا کوٹ636 ارب اس طرح توانائی کے یہ سارے پراجیکٹ 15289 ارب سے مکمل ہوتے ہیں گویا اگر ہم کرپشن پر قابو پالیں تو سوا ڈیڑھ سال میں توانائی کے ان پراجیکٹ کے لیے رقم جمع ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 7266 ارب کا ہے گویا ہم ڈیڑھ برس میں یہ بوجھ اتارسکتے ہیں۔ کرپشن اور کرپٹ نظام کو زندگی اور بقا کرپٹ سیاستدانوں اور نوکر شاہی نے دی ہے۔ کرپشن کے خلاف بنائے گئے اداروں نے بھی ہمیشہ ان کو چھتری فراہم کی ہے۔ کرپٹ نظام کی وجہ سے جان بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ ہورہی ہے ۔لوگوں کو گدھوں کا گوشت کھلایا جارہا ہے۔ پہلے ہم دودھ میں پانی ملاتے تھے اور اب پانی سے دودھ بنانے کے گھٹیا ترین موجد بن گئے ہیں۔ یہاں کالے دھن کو سفید کرنے کا کام بھی سرکاری سرپرستی میں ہوتا ہے۔
کرپشن فری پاکستان قومی تحریک کا ہدف کرپٹ نظام اورکرپٹ اشرافیہ ہے۔یہ ایک آئینی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ نیک نام اور باضمیر شخصیات اور جماعتیںاس تحریک کا حصہ بنیں ،اوریہ قومی تحریک اس وقت تک جاری رہے جب تک پاک سرزمین کرپشن اور اس کے پروردہ عوام کا خون چوسنے والوں سے پاک نہیں ہوجاتی۔
انتخابات کو دولت کا کھیل بنانے والے اربوں روپے خرچ کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیںاور پھر کھربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں پیسہ لگانے والے کرپٹ لوگوں کو ٹکٹیں بانٹتی ہیں ۔ آئین کی دفعہ 62-63 کی سیاہی الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہی ہے ۔اخلاقی کرپشن کا حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے ادارے فحاشی روکنے کے بجائے فحاشی کی تعریف کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں جو ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت کے غضب کو بھڑکانے والی بات ہے ۔
جو قوم ناموس رسالت ؐ پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتی ہے وہی قوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کو خود پامال کر رہی ہے ''جو خون اور گوشت حرام رزق پر پرورش پائے گا وہ جنت میں نہ جائے گا۔'' رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے لیے حکمرانوں کو اعلیٰ کردار کا نمونہ بننا پڑے گا۔ اگر حکومتی اہلکار اور کرتا دھرتا حج اور عمرے پر پیسے بنائیں گے تو بازار میں پکوڑے بیچنے والے سے خیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی ،بے حسی اور اللہ سے بغاوت کا یہ عالم ہے کہ زکوۃ و عشر فنڈ سے اربوں روپے خورد برد ہوتے ہیں ۔ ماضی کی حکومت کے ایک وزیر نے ٹی وی ٹاک شو میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اظہار کیاکہ ''کرپشن پر ہماری پارٹی کا بھی حق ہے ''۔ پیلی ٹیکسیاں ، روزگار اسکیم، پڑھا لکھا پنجاب ، تیل ، گیس اور معدنی ذخائر جیسے منصوبوں میں سو سو ارب روپے ڈکار لیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے قومی اثاثے مثلاً پی ٹی سی ایل اور بینکوں کوجس طرح فروخت کیا گیا ہے کہ کوئی کمہار بھی اپنے گدھے کو ایسے نہیں بیچتا۔ ان اداروں پر پہلے غیر ترقیاتی اخراجات کا بوجھ ڈال کر انھیں ناکام بنایا جاتا ہے اور بیلنس شیٹ میں اثاثوں کی قیمت کم کی جاتی ہے ۔ایوب خان سے لے کر میاں نوازشریف تک اقتدار میں آنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ سب کا احتساب ہوگا اور سر عام ہوگا۔ یہی حکمران اقتدار میں آنے کے بعد انسداد کرپشن کے لیے نت نئے ادارے بھی بناتے ہیں ۔
پولیس کے بعد اینٹی کرپشن ، ایف آئی اے ، پروڈا (PRODA) ۔ پوڈو (PODO) ، ایبڈو (EBDO) ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ، احتساب کمیشن اور نیب جیسے درجن بھر ادارے جن پر کثیر سرمایہ قوم کا خرچ ہوتاہے مگر ان اداروںکو حکمران مخالفین کو ڈرا، دھمکا اوردباکر اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ منظور نظر لوگوں کے کیس کھولنے پر حکومت تلملا اٹھی ہے ۔ نیب کے پاس 150 میگا کرپشن کیس فائلوں میں بند پڑے ہیں ۔ ہر کرپٹ چاہتا ہے کہ اس کے بجائے دوسرے کا احتساب ہو۔ آڈیٹر جنرل نے 4.2 ٹریلین روپے کے حسابات پر اعتراضات لگائے ہیں جو کئی سالوں سے غیر حل شدہ (Unsettelled) ہیں۔
قومی وسائل کی کرپشن کو قانونی طور پر دہشت گردی اور غداری قرار دیا جائے۔ جنگ اور دہشتگردی کسی بھی ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کردیتی ہے جب کہ کرپشن تو انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی کو شروع ہی نہیں ہونے دیتی ۔ قومی خزانہ لوٹے جانے کے سبب تعلیم ، صحت، خواتین اور دیگر میدانوں میں ہماری سماجی ترقی شروع ہی نہیں ہوسکی اورنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان اس وقت 70ارب ڈالر کا مقروض ہے۔
اب تو قرضہ بھی اس لیے لیا جاتا ہے کہ سابقہ قرضوں کی قسط ادا ہو سکے اس اذیت ناک صورتحال کو بدلنے کے لیے متواتر جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ عوام کو شعوری طور پراس تحریک کا حصہ بننا چاہیے کہ یہ ملک و ملت کی زندگی اور بقا کی تحریک ہے۔ ہم اس تحریک کے دوران کرپشن کے خلاف گلوبل آپریشن بھی شروع کریں گے ۔ قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ سوئٹزرلینڈ ، برطانیہ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔
اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس دولت کا مکمل سراغ لگانے اوراسے ملک میں واپس لانے کے لیے جماعت اسلامی ممتاز اور باکردارلوگوں پر مشتمل ایک قومی جرگہ بنائے گی جو بیرونی ممالک میں پوشیدہ لوٹی ہوئی دولت کا پتہ لگائے گا اور اس کی واپسی کے لیے کوششیں کریگا۔ قوم کو تحریک پاکستان کے جذبہ سے پاکستان کو بچانے کی تحریک کے لیے متحد ہونا پڑے گا کیونکہ اب پاکستان اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت ہی قومی خرابیوں کی اصل جڑ ہوتی ہے لیکن روز قیامت ہم سب کو اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا۔ اس روز دوسروں کی خرابیاں ہمارے لیے ڈھال نہ بن سکیں گی بلکہ خراب لوگوں کو نہ ٹوکنے اور نہ روکنے کا وبال ہم پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔اپنی سابقہ کوتاہیوں پر اپنے رب سے گڑ گڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔سچے دل سے وعدہ کیا جائے کہ آیندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام نہیں کریں گے۔اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہنے کے بجائے یہ معاملات ان لوگوں کے سپرد کریں جو باضمیر اور باکردار ہوں۔