جب چڑیا مر گئی اور میں نے میچ دیکھا

جنگل کے ایک درخت پر دو چڑیاں رہتی تھیں۔ جنگل بہت گھنا تھا اس لیے کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا

muhammad.anis@expressnews.tv

جنگل کے ایک درخت پر دو چڑیاں رہتی تھیں۔ جنگل بہت گھنا تھا اس لیے کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ دونوں کا بسیرا جس درخت پر تھا وہ بھی بہت بڑا تھا ۔ دونوں چڑیا کی زندگی بڑی خوبصورت تھی ۔

نہ ہی رزق کا مسئلہ تھا اور نہ ہی کوئی تنگ کرنیوالا تھا ۔ کبھی کبھار کوئی حملہ بھی کرتا تو درخت میں آسانی سے خود کو چھپا لیتے ۔ رزق اپنے گھر سے ہی مل رہا تھا اس لیے دنیا کی کوئی پرواہ بھی نہیں تھی ۔

کبھی کبھار جی چاہتا تو گھومنے پھرنے کے لیے آگے پیچھے چلے جاتے ۔ یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری اشرافیہ کی طرح انھیں اس جنگل سے سب کچھ مل رہا تھا ۔ اور کوئی ان کی حاکمیت کو چیلنج کرنیوالا بھی نہیں تھا ۔ جب دل چاہتا کبھی لندن تو کبھی نیویارک ، کبھی ایک پاؤں ترکی میں تو کبھی ایک ہاتھ دبئی میں ۔ دونوں کو بڑا ناز تھا کہ ہمیں یہاں سے کوئی بھی ہٹانیوالا نہیں ہے ۔

ایک دن دونوں کی کسی بات پر بحث ہو گئی ۔ بحث جو مذاق سے شروع ہوئی وہ غصے میں بدل گئی ۔ تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ۔ پھر ایک دوسرے پر احسان گنوانے لگے ۔ ایک نے کہا کہ تم اس درخت پر میری وجہ سے ہو ۔ اگرمیں یہ نہیں دیکھ لیتا کہ یہاں پر رہنے والی چیل اپنی مدت مکمل کر چکی ہے ۔

اور اُس کے مرنے کے فوری بعد اگر میں یہاں آکر اپنا گھونسلا نہیں بناتا تو تم کبھی بھی نہیں آسکتے تھے ۔ دوسرے نے غصے سے کہا کہ تم تو ڈرپوک آدمی ہو ۔ برے وقت کا تو میں نے سامنا کیا ہے ۔ جب چیل زخمی ہو گئی تھی تو اُسے پانی چاہیے تھا۔ میں اُسے اتنا ڈراتا تھا کہ وہ پانی کے لیے آگے ہی نہیں بڑھ سکتی تھی اور پھر وہ مر گئی ۔ تمھیں میرا احسان ماننا چاہیے کہ میری وجہ سے برے وقت میں چیل کو پانی نہیں ملا اور یہ درخت خالی ہوا ۔ ورنہ تم زندگی میں کبھی اپنا ٹھکانہ نہیں بنا سکتے تھے ۔

نوک جھونک اب شدت اختیار کرنے لگی ۔ دونوں نے ہمیشہ سارے مسئلے خود ہی حل کیے تھے ۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی ثالث بھی نہیں تھا ۔ احسان جتانے میں جب دونوں کا پلڑا بھاری ہو گیا تو دلیل بھی ختم ہو گئی ۔ بات چیت کے لیے اب لفظ کم پڑ گئے ۔ دونوں کو ایک دوسرے کا وجود برا لگنے لگا ۔ ایک چڑیا نے یہ سوچا کہ اب ایک جگہ رہنا ممکن نہیں ہو گا ۔ لیکن کسی اور درخت پر جانا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے ۔

اُس نے سوچا کہ میرا مقابلہ بھی ایک چڑیا سے ہے ۔ کم سے کم یہ چیل جتنی خطرناک نہیں ہو گی ۔ بہتر یہ ہے کہ شاخ بدل لیتی ہوں ۔ ایک درخت پر اس چڑیا کو جو کرنا ہے وہ کرتی رہے اور دوسری پر میں اپنی زندگی کے بقیہ دن گزار لونگی ۔ دوسر ی چڑیا کو یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے اس درخت سے ہٹانے کے لیے پہلی والی چڑیا کسی خطرناک چیل کی مدد لے لے ۔ ایسے میں اپنی ننھی سے جان کو کیسے بچاؤنگی ۔

میں ایسا کرتی ہوں کہ پہلے ہی کسی طاقتور سے ہاتھ ملا لیتی ہوں ۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ پر حملہ کرے میں پہلے سے حملہ کر لیتی ہوں ۔ دونوں کے ذہن میں وہ ساری ترکیبیں اور چالیں آرہی تھیں جو کبھی انھوں نے سوچی بھی نہ تھیں ۔ حیرت کی بات یہ تھی دونوں ہی چڑیا ہیں ۔

اوردونوں اب اپنی بقا کے لیے دوسری چڑیا کا خاتمہ چاہتی تھیں ۔ اس کے لیے انھیں کسی اور طاقت ور کی ضرورت تھی ۔ دونوں نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم جس چیل کی مدد لینگے وہ کیا پھر مجھے چھوڑیں گی ؟ میں ہرگز ہرگز پاکستانی سیاست پر نہیں لکھ رہا اس لیے ابھی تک کہانی کو صرف چڑیا کی سوچ تک ہی رکھیں ۔


پہلی چڑیا نے سوچا کہ اب رات ہونے والی ہے ایسا کرتی ہوں کہ میں کسی اور اونچی شاخ پر بیٹھ جاتی ہوں ۔ تاکہ اگر دوسری والی چڑیا، کسی چیل سے بات کرنے جائے تو مجھے معلوم ہو جائے ۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی اور اڑنے کے لیے پر تول رہی تھی کہ اس کا پاؤں شاخ سے پسلنے لگا۔ دوسری چڑیا جو پہلے ہی خوف اور ڈر کی کیفیت میں تھی ۔ یہ سمجھی کہ پہلی والی چڑیا اس پر حملہ کرنا چاہتی ہے ۔

اس نے اپنے ''پر'' کو پہلی والی کے منہ پر دے مارا ۔دونوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر ایک ہی شاخ پر دو چڑیاں ایک دوسرے کی جان کی دشمن ہو گئیں ۔ ایک نے چونچ ماری تو دوسری نے پیروں کا استعمال کیا ۔ ایک نے پروں کا سہارا لیا تو دوسری نے تنکے کو سہارا بنایا ۔ دونوں شدید زخمی ہو گئی تھیں ۔ جس وقت ان کی بحث ہو رہی تھی ایک'' بلا'' وہاں سے گزر رہا تھا ۔ اس نے جب شور کی آواز سنی تو وہ وہاں رک گیا ۔

اور ان کی لڑائی کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں اوپر شاخ پر ہی تھیں ۔ وہاں ایک چیونٹی بھی تھی ۔جب چیونٹی نے بلے کو اس طرح منظر دیکھتے ہو ئے دیکھا تو پوچھا کہ بھائی کیا دیکھ رہے ہو ۔؟ بلے نے چڑیا پر سے اپنی نظر نہیں ہٹائی اور آہستہ کہنے لگا کہ چڑیا لڑتی بھی کتنے پیار سے ہیں ۔ پیروں کے نیچے آنیوالی چیونٹی سمجھی کہ بلا چڑیا سے بہت محبت کرتا ہے ۔ بلا دونوں چڑیاں کے درمیان بحث سے لڑائی، اور حملے سے لے کر زخموں کی انتہا تک کا سارا منظر چُپ چاپ دیکھتا رہا ۔ اُس نے اپنی زبان سے کچھ نہیں کہا ۔

مگر وہ اپنے دل میں سوچ چکا تھا کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اُسے اس میں کب کودنا ہے ۔دوسری طرف دونوں چڑیوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ دونوں ایک ساتھ درخت سے نیچے گرنے لگیں ۔ نیچے گرتے ہوئے دونوں نے بلا کو دیکھا اور اُس کی آنکھوں کو فوراً بھانپ لیا۔ گرتے ہوئے پہلی چڑیا نے دوسری کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ وہ بہت کچھ سمجھ چکی تھیں لیکن اب دیر ہو چکی تھی ۔

جیسے ہی دونوں زمین پر گریں بلا اُن کی طرف فوراً لپکا اور ایک پر حملہ کر کے اُسے کھا گیا ۔ دوسری چڑیا نے ہمت کر کے اڑنے کی کوشش کی لیکن اُس کے ''پر'' تو کٹ چکے تھے ۔ اب اُس میں اڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اُس نے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن پیروں کے زخم نے اُسے پھر گرا دیا ۔

اُس نے رینگنے کا سوچا لیکن تب تک بلا پہلی چڑیا کو کھا کر اُس کی طرف آچکا تھا ۔ بِلا لپکا اور ایک ہی حملہ کر کے اُسے کھا چکا ۔ ابھی وہ ڈکار لے رہا تھا کہ چیونٹی اُس کے پاس آگئی ۔ اور کہنے لگی کہ تم تو اس چڑیا کی تعریف کر رہے تھے ۔ بلے نے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں انھیں مار کر کھا نہیں جاتا تو یہ لوگ ایک دوسرے کو مار دیتے۔ مجھے ان پر رحم آگیا تھا ۔

چڑیوں کی اس لڑائی کو بہت اچھے انداز میں ایوب خان نے اپنی کتاب ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی '' میں لکھا ہے کہ سیاستدانوں نے ایک سیاسی سوانگ عرصہ دراز سے کھیلا ہوا ہے ۔ ان سیاست دانوں نے اقتدار کی رسی کو جھپٹ کر پکڑ لیا ہے ۔ ایک لمحے کے لیے اجالے میں آکر جوڑ توڑ اور نااہلی کے اندھیرے میں جا پڑا ہے ۔ چڑیوں کی یہ کہاوت درحقیقت اُس وقت زیادہ مشہور ہوئی تھی جب پیپلز پارٹی اور PNA آمنے سامنے تھے۔

اور ضیاء الحق اقتدار میں آچکے تھے ۔ پھر یہ کہاوت اُس وقت دوبارہ زندہ ہو گئی تھی جب اکتوبر 1999 میں نواز شریف صاحب کی حکومت ختم ہو ئی تھی۔ اس حالت میں چڑیاں کس حد تک نڈھال ہوتی ہیں، اس کی مثال پھر ایوب خان کی کتاب سے لیتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ''ملک میں مارشل لاء اتنی آسانی سے جاری ہو گیا جیسے کوئی بجلی کا بٹن دبا دے ''بِلے کی یہ پوری کہاوت آصف علی زرداری کو بھی اچھی طرح معلوم ہے ۔

اور نواز شریف صاحب کو یہ سب یاد ہے ۔ جب آصف علی زرداری نے ایک تقریر میں بِلے کا لفظ استعمال کیا تھا تو سب لوگ چونک گئے تھے ۔ کیونکہ جنھیں 80 کی دہائی یاد ہے انھیں چڑیوں اور بِلے کی کہاوت بھی یاد ہو گی ۔ انھوں نے اُسی کو استعمال کرتے ہوئے سب کو ایک ساتھ پیغام دیا تھا۔ وہ اشاروں میں بات کرتے ہیں جس میں خاص پیغام دوسری چڑیوں کا لیا تھا ۔ اور وہ سمجھ بھی گئے تھے ۔

کس وقت اشاروں اور محاوروں میں کون سی بات کہاں کہنی ہے وہ جانتے ہیں ۔ اب کوئی انکار کرے یا اقرار کرے ۔ وہ اب بھی اشارے دے چکے ۔ لیکن اس سے خلیج میں اضافہ ہوا ہے ۔ درخت ایک ہی ہے صرف شاخیں الگ کی گئی ہے تاکہ لڑائی نہ ہو ۔ باقی سب ادھر اُدھر کی باتیں ہیں ۔ چھوڑیں ان سب کو ، یہ بتائیں پاکستان انڈیا کا میچ کیسا لگا ۔؟ میچ کے بعد آپ تہلکہ انگیز انکشافات دیکھیں میں دوسرا میچ دیکھتا ہوں-
Load Next Story