دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اپنے والد سے جان چھڑا پاتے ہیں یا نہیں
حکومت اپنے امور میں خیانت کی مرتکب ہو تو اسٹیبلشمنٹ توانا ہوتی چلی جاتی ہے
بیگم سیدہ عابدہ حسین پاکستان کی معروف سیاستدان ہیں۔آپ کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے ۔ سیاسی سفر کا آغاز جھنگ کی ضلع کونسل کی چیئرمین شپ سے کیا اور آگے چل کر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔میاں نواز شریف کے پہلے دور میں انہیں امریکا میں پاکستان کی سفیر مقرر کیا گیا جہاں آپ نے 1991ء سے 1993ء تک خدمات سر انجام دیں۔1996 ء سے 1999ء تک وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہیں۔
آپ کے والد سید عابد حسین 1946ء میں آل انڈیا دستور ساز اسمبلی کے سب سے کم عمر رکن منتخب ہوئے۔ شوہر سید فخر امام بھی معروف سیاست دان ہیں اور 1985-86میں قومی اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ صغریٰ امام بھی کارزار سیاست میں سرگرم ہیں اور صوبائی اسمبلی کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔آپ کے صاحبزادے سید عابد حسین امام اپنے والد کے آبائی حلقے خانیوال سے یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اب ضلع کی چیئرمین شب کی دوڑ میں شامل ہیں۔
گزشتہ برس ان کی خودنوشت سوانح حیات ''پاور فیلیئر '' منظر عام پرآئی جس میں انہوں نے اپنے چالیس سالہ سیاسی سفر کی روداد قلمبند کی ہے۔ کتاب میں محتاط رویہ اختیار کرنے کے باوجود کئی اہم حقائق منظر عام پر لائی ہیں جو اخبارات میں زیر بحث بھی رہے ہیں۔روزنامہ ایکسپریس نے گزشتہ دنوں بیگم سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال ان سطور میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس:آپ نے سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا اور ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم سے متعلق بہت سی یادیں آپ نے اپنی کتاب میں رقم کی ہیں۔بھٹو صاحب کی شخصیت کے بارے کچھ بتائیے؟
عابدہ حسین:بھٹو صاحب انتہائی ذہین اورمتحرک تھے۔وہ احمقوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے ۔وہ اپنے تمام فیصلے جرأت سے کرتے تھے تاہم یہ درست ہے کہ وہ بہت زیادہ مشاورت نہیں کرتے تھے۔
ایکسپریس:پاکستان طویل ادوار تک مارشل لاؤں کے تحت رہا اور جب بھی کوئی جمہوری حکومت آتی ہے تو اسے ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
عابدہ حسین:جی یہ درست ہے کہ پاکستان میں فوج کی پے درپے مداخلتیں ہوتی رہی ہیں مگر اب گزشتہ آٹھ سال سے ملک میں جمہوریت رواں دواں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک اور الیکشن میں جانے کے بعد یہ کہنے کے قابل ہو جائیں گے کہ جمہوریت اپنی جڑیں پکڑ رہی ہے۔
ایکسپریس:مارشل لاء کا سبب فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا سیاست دانوں کی کمزوری؟
عابدہ حسین:یہ دونوں باتیںباہم ملی جلی ہیں۔ کچھ سیاسی لوگ فوجیوں کو اکساتے ہیں اور فوج کے سربراہوں کی بھی اس طرح کی خواہشات ہوتی ہیں۔
ایکسپریس:کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ۔کیا یہ تأثر درست ہے؟
عابدہ حسین: میں سمجھتی ہوں یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ وزیراعظم بہت تحمل سے چلے ہیں ۔دوسری جانب جنرل راحیل شریف بھی محتاط رہے ہیں۔ بظاہر اس وقت حکومت اور فوج کے درمیان کوئی نمایاںخلفشار نہیں ہے۔
ایکسپریس:جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ پہلے ہی توسیع نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس قدر جلدی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
عابدہ حسین:دیکھیے فوج ایک ادارہ ہے اور ادارے میںلوگ آتے جاتے رہتے ہیںلیکن میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنرل صاحب نے دس ماہ پہلے کیوں توسیع نہ لینے کی بات کی۔
ایکسپریس:مسلم لیگ نواز کا ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں اختلاف ضرور ہوا ہے؟ان حالات میں نظام کو استحکام کیسے ملے سکے گا؟
عابدہ حسین:سسٹم پچھلے آٹھ سالوں سے چل رہا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک آدھ الیکشن اورہوا تو جمہورت جڑ پکڑ جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی نمائندگان میں کشمکش صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوتی بلکہ یہ دنیا کی ہر جمہوری ریاست میں کسی نہ کسی حد تک ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کو دیانت داری اور سلیقے سے چلایا جائے تو سیاست مضبوط ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی قوت میں کمی آتی ہے۔ لیکن اگر حکومت کے امور میں خیانت سے کام لیا جائے اور نااہلی کا ثبوت دیا جائے تو پھر اسٹیبلشمنٹ زیادہ توانا ہو جائے گی۔
ایکسپریس:ضیا ء الحق کے دور میں انہیںآپ کی جزوی حمایت حاصل رہی؟
عابدہ حسین:دیکھیں جی میں نے اپنے چالیس سالہ سیاسی سفر میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔جمہوری حکومتیں بھی دیکھی ہیں اور فوجی حکومتیں بھی دیکھی ہیں۔میں نے کبھی جنرل ضیاء کی حمایت نہیں کی ۔ ہا ں نواز شریف کے ساتھ میں رہی ۔ میں جمہوریت کی قائل ہوںلیکن میں یہ سمجھتی ہوں اگر میاں نواز شریف نے آرمی چیف کا انتخاب سنیارٹی کی بنیاد پر کیا ہوتا تو مشرف کی جانب سے جو مداخلت ہوئی ، وہ نہ ہوتی۔
ایکسپریس:آرمی چیف کا انتخاب وزیراعظم کی صوابدید پر موقوف نہیں کیا؟
عابدہ حسین:جی یہ درست ہے لیکن اگر سینیارٹی کا خیال رکھا گیا ہوتا تو مشرف ضرورت سے زیادہ ایمبیشئیس کبھی نہ ہوتے اور شاید مداخلت بھی نہ کرتے۔
ایکسپریس:مشرف کے دور میں اکبر بگٹی قتل ہوئے۔آپ کا ان سے تعلق رہا ۔کچھ حقائق ہمارے قارئین سے شیئر کریں گی؟
عابدہ حسین:دیکھیے میری نواب اکبر بگٹی سے اس وقت بات ہوئی جب وہ غار میں تھے۔ یہ ان کے قتل کے پندرہ بیس دن پہلے کا واقعہ تھا۔ میں نے بلخ شیر مزاری کے ذریعے ان کا سیٹٰلائٹ نمبر حاصل کیا اور فخر امام(شوہر) اور میں نے ان کے چھوٹے بھائی میر احمد نواز بگٹی کی وفا ت پر تعزیت کے لیے فون کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے سنا کہ آپ کو ٹانگوں کے پٹھوں میں مسئلہ ہے۔ آپ غار سے نکلیں اور کسی ہسپتال میں علاج کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری پنجابی فوج تو مجھے مارنے آرہی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو مجھے لگتا ہے کہ میں پھر آزاد بلوچستان کی آواز بن جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ ہماری فوج بے وقوف ہو گی مگر اتنی نہیں کہ وہ آپ کو قتل ہی کر ڈالے لیکن پندرہ دن بعد وہ غار سے نکل کر جب وہ بگٹی علاقے سے نکل کر مری علاقے سے گزر رہے تھے تو انہیں ختم کر دیا گیا۔میںنے اپنی کتاب میں یہ سارا وقوعہ تفصیل سے قلمبند کیا ہے۔
ایکسپریس:میاں نواز شریف کے دور میں شریعت بل پیش کیا گیا جس کی مخالفت آپ نے کی۔ یہ خطرہ کیسے مول لیا؟
عابدہ حسین:دیکھیے اس میں کوئی رسک کی بات نہیں تھی ، اپنے یقین کی بات تھی ۔ جب آئین پاکستان میں درج ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا اور نہ ہی الحمدللہ آج تک ایسا کوئی قانون بنا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ حکومتوں کو آئین کی رو سے چلنا چاہیے۔
ایکسپریس:کیا یہ تاثر درست ہے کہ آپ نے آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کی حمایت کی تھی ؟
عابدہ حسین:میں نے 58ٹو بی کی کبھی حمایت نہیں کی تھی۔اس قومی اسمبلی میں آٹھ اراکین نے مخالفت کی تھی جن میں ایک میں تھی۔ ہم ہال سے چلے گئے تھے اور ہم نے آٹھویں ترمیم پر دستخط نہیں کیے تھے۔
ایکسپریس:ضیا ء دور کے اخیر میں آئی جے آئی بنی ۔جن سیاستدانوںمیں رقوم بانٹی گئیں ان میں آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔حقیقت کیا ہے؟
عابدہ حسین:ہم اس وقت ایک آزاد گروپ تھے اور اسی حیثیت میں ہم آئی جے آئی میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے۔ آگے جا کر مجھ پر الزام لگا کہ میں نے آئی ایس آئی سے پانچ لاکھ روپے لیے ہیں۔میں اس وقت منسٹر تھی اور ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ الیکشن فنڈ ہے۔پانچ لاکھ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔الیکشن فنڈز اور چیز ہوتی ہے اور آئی ایس آئی کے ریسورسز اور چیز ہوتے ہیں۔کوئی اتنا بڑادھوکہ کرے تو ان کا قصور تو نہیں ہے جنہوں نے وہ فنڈز استعمال کیے ہوں۔
ایکسپریس:گزشتہ سال کے دوران خبریںگردش کرتی رہیں کہ شہباز شریف نے اڑھائی سو ایکٹر زرعی اراضی آپ کو بلا معاوضہ پٹے پر دی ہے ۔ کیا حقیقت ہے؟
عابدہ حسین:نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔
ایکسپریس:آپ نے امریکا میں پاکستان کے سفیر ہونے کی حیثیت سے امریکی معاشرے اور ان کے حکمرانوں کو قریب سے دیکھا۔ پاکستان کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟
عابدہ حسین:ہم جتنا امریکیوں کو اچھا سمجھتے ہیں اتنا ہی وہ ہمیں اچھا جانتے ہیں۔کسی بھی ریاست کے باشندوں کے دوسری ریاست کے بارے میں جذبات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہتے۔ امریکا ہمارے ملک میں مقبول نہیں ہے۔ امریکا نے ہمیں استعمال کیا لیکن اس نے ہماری امداد بھی بہت کی ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جو کسی سے مدد لیتا ہے اسے اچھا نہیں جانتا ۔نہ نفرادی سطح پر نہ اجتماعی سطح پر۔
ایکسپریس:پاکستان نے ستر کی دہائی میں روس کے خلاف افغان طالبان سرپرستی کی جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کیاپاکستان کو افغانستان میں مداخلت کرنی چاہیے؟
عابدہ حسین:میں سمجھتی ہوںہمیں افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل نہیں دینا چاہیے۔ جب وہاں پر روسی فوجیں آئیں تو بہت بڑی تعداد میں افغان پاکستان میں آ کر مقیم ہو گئے ۔ ان میںسے پھر تحریک طالبان پاکستان بنی۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمیںان کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے اور افغانستان کی حکومت کو بھی یہاں مقیم افغانوں کی اپنے وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ایکسپریس:یمن کے معاملے پر ایران اور سعودیہ میں تناؤ کے سلسلے میں پاکستان کے کردار پر کیا تبصرہ کریں گی؟
عابدہ حسین: پاکستان کا ثالثی کے کردار ادا کرنا درست قدم تھا ۔ میں نے اس اقدام سے پہلے متعدد بار ذرائع ابلاغ میں تجویز دی تھی کہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے بعد چین فرانس، جرمنی اور امریکا بھی ان کوششوں کا حصہ بنے جس کے باعث باعث وہ تناؤ اسی جگہ پر رُک گیا اور بات مزید آگے نہیں بڑھی۔ میری رائے یہ ہے کہ ہمیں ایک خصوصی ایلچی مقرر کرنا چاہیے جو قطر اور تہران کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کا عمل شروع کرے۔ ہمیں اس اقدام کو آگے بڑھانا چاہئے۔
ایکسپریس: ماضی میں پاکستان کے سعودی عرب کی جانب جھکاؤ کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
عابدہ حسین:پاکستان کا جھکاؤ سعودیہ کی جانب رہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی رائے عامہ میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے کسی بھی محفل میں سعودی عرب کے بارے میں کوئی بھی منفی بات کرنا ممکن نہیں تھا جبکہ آج عوام الناس میں یہ بات عام ہے کہ ہمارے ہاں پھیلنے والی دہشت گری کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔وہ دہشت گردوں سے جان چھڑانے کے لیے ان کو یہاں دھکیلتے رہے ہیں۔ ایسے مدارس کو فنڈز بھی وہ دیتے ہیں جہاں سے دہشت گرد نکلتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایران سے پابندیاں اٹھنے کے بعد وہ معاشی طور پر بہت مضبوط ہو گیا ہے۔ ہمیں موجودہ حالات میں ایک مؤثر تجارتی شراکت دار کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس وافر توانائی ہے جبکہ ہمارے ہاں توانائی کی کمی ہے۔ہمارے پاس ایسی صنعتی اشیاء اور زرعی آلات ہیں جن کی ایران میں مارکیٹ ہے ۔اس کے علاوہ ہماری بجلی کا سازومان ہیں،ہماری فارماسیوٹیکلز ہیں ،زرعی مصنوعات ہیں جب کی ایران میں خاصی مانگ ہے ۔ ایران کے ساتھ ہماری تجارت بڑھنے سے دوطرفہ تجارت کا توازن زیادہ منفی نہیں ہو گا۔
ایکسپریس:پاکستان نے پہلے ایران سے گیس پائپ لائن کا معائدہ کیا اور اب قطر سے گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہوا۔کیا اس سے ایران سے ہمارے تعلقات متاثر تو نہیں ہوں گے؟
عابدہ حسین:دیکھیں قطر سے جو گیس ہم نے لیا ہے وہ ہے ایل این جی جبکہ ایران سے ہم نے پائپ لائن کا معائدہ کیا ہے جو وہ اپنی سرحد تک لے آئے ہیں صرف ہمیں اس پر کام کرنا ہے۔یہ توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے مختصر ترین روٹ ہے۔ یہ پائپ لائن اٹھارہ ماہ میں بن جاتی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ وہ بن جائے گی۔
ایکسپریس:ان پیش رفتوں کے بعد ملک توانائی کے بحران سے نکل آئے گا؟
عابدہ حسین:جی حکومت کوشش تو پوری کر رہی ہے۔ توانائی کے کئی نئے پروجیکٹس شروع کیے گئے ہیں اور ایل این جی کے آنے سے یقینا ریلیف ملے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ آئندہ الیکشن تک لوڈشیڈنگ آٹھ گھنٹے سے کم ہو کر چارگھنٹے تک آجائے گی۔
ایکسپریس:پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تعمیر کے معائدے کے بعد گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت ایک بار پھر زیر بحث آ ئی ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبے بنانے سے بھارت کو کشمیر پر مستقل اجارہ داری کا جواز نہیںمل جائے گا؟
عابدہ حسین:اقتصادی راہداری کے معاملے پرہمیں بھارت کے اس حوالے سے قطعی طور پر نہیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنی سوچ پرکاربند رہنا چاہیے۔ گلگت بلستان کو ہم نے جو سٹیٹس دیا ہے میں سمجھتی ہوں ہم نے وہ درست ہے اوریہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی ایک اچھی کاوش تھی ۔ اب اس سٹیٹس کو برقرار رکھنا پاکستان کی موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایکسپریس:کیا ایسا کرنے سے کشمیری مایوس نہیں ہو جائیں گے؟
عابدہ حسین:نہیں وادی کے کشمیریوں کو تو کسی قسم کو تشویش کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ گلگت بلتستان سے فاصلے پر ہے۔ اس سے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ جموں درمیان میں آ جاتا ہے ۔
ایکسپریس:مسئلہ کشمیر کے حوالے کس فارمولے کو بہتر سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین:میں یہ سمجھتی ہوں انیس سو اڑتالیس کی جو قراردادیں ہیں وہ ہی درست فارمولا ہے کہ وہاں پر استصواب رائے ہو اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اس کا فیصلہ ہو۔
ایکسپریس:آزادکشمیر میں انتخابات قریب ہیں ۔ابھی چند دن کوٹلی میں پیپلز پارٹی کے جیالے کے قتل کے بعد آزادحکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے۔ آزادکشمیر میں تاریخ میں پہلی بات وفاق کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا۔اس ساری صورت حال پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
عابدہ حسین:جی ہاں !روایتی طور پر ہماری وفاقی حکومت آزادکشمیر پر بہت زیادہ اثر رکھتی ہے اور یہ بھی روایت چلی آ رہی ہے کہ جس پارٹی کی حکومت اسلام آباد میںہوتی ہے، اسی کی حکومت آزادکشمیر میں بھی ہوتی ہے۔کوٹلی میں ہونے والی تلخی الیکشن ہی کا پیش خیمہ ہے۔نون لیگ والے الیکشن کا معرکہ مارنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے پیپلز پارٹی کو بھگانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھیں آگے چل کر الیکشن میں کیا ہوتا ہے۔
ایکسپریس:ماضی میںآپ کے آبائی حلقے میں شیعہ سنی اختلافات بہت زوروں پر رہے ہیں ۔اب حالات بہتر ہیں؟
عابدہ حسین:دیکھیں جی یہ شیعہ سنی مسئلہ کو اس وقت فارمل شکل دی گئی جب 1986ء میںمولوی حق نواز کی قیادت میں انجمن سپاہ صحابہ بنی ۔پھر وہ سپاہ صحابہ بن گئی اور اب اس کا نام اہلسنت والجماعت ہے اور یہ کالعدم تنظیم ہے۔لشکر جھنگوی بھی اسی کی کوکھ سے نکلا ۔ میں سمجھتی ہوں کہ جھنگ میں مسلک کی جڑیں اب کافی کمزور ہوگئی ہیں۔ ملک کے باقی حصوں میں اب شاید جھنگ سے زیادہ پھیل گئی ہوں۔لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ مولوی صاحبان اپنی طاقت کی خاطریہ مسئلہ کھڑا کرتے ہیں ۔ اس جھگڑے کے باعث نہ کوئی شیعہ سنی ہوا ہے اور نہ کو ئی سنی شیعہ ہوا ہے۔ اس وقت جھنگ میں تو الحمداللہ کافی ٹھنڈک ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ کالعدم جماعتوں کو الیکشن میں نہیں آنا چاہیے۔
ایکسپریس:سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں ہے لیکن وہاں کی پسماندگی میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔کیا یہ پیپلز پارٹی کا ناکامی نہیں ہے؟
عابدہ حسین:پیپلز پارٹی سندھ میں کوئی خاص بہتری نہیں لا سکی۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ پی پی سندھ کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہے۔
ایکسپریس:سپی پی موجودہ قیادت کی موجودگی میں اسے دوبارہ عروج مل سکے گا؟
عابدہ حسین:دیکھیے مستقبل کے بارے میں تو اللہ بہتر جانے لیکن پی پی کے جو کارکن ہیں وہ موجودہ قیادت سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایکسپریس:بلاول بھٹو کو ان کے ناقدین سیاسی طور پر ناتجربہ کار قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کر سکیں گے؟
عابدہ حسین:دیکھیے میں بلاول کی خیر خواہ ہوں اور میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ایک بات میں کہوں گی کہ انہیں بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔بالکل اس طرح کی محنت جسے ہم پتا مارنا کہتے ہیں۔ آیا ان میں یہ اہلیت ہے کہ نہیں ،یہ تو وقت ثابت کرے گا۔ بلاول نوجوان ہیں اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سیاست سے دلچسپی بھی خوب ہے۔ بولتے بھی ٹھیک ٹھاک ہیں ۔ انہوں نے ادھر ہائیکورٹ بار میں بڑی عمدہ اور مدلل تقریر کی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ آگے چل کر عملی طور پر کیا کر پائیں گے اور کیا وہ اپنے والد سے جان چھڑا سکیں گے کہ نہیں (مسکراتے ہوئے) بڑی بات تو یہی ہے۔
ایکسپریس:سندھ میں جاری رینجرز کے آپریشن کے بعد سے وفاق اور صوبائی حکومت باہم مقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں؟
عابدہ حسین:سندھ میں رونما ہونے والے یہ واقعات غیر متوقع نہیں ہیں ۔کراچی میں رینجرز کے آپریشن نے بہت زیادہ فرق ڈالا ہے ۔ میں دسمبر کے مہینے میں ایک ہفتہ کراچی گئی تھی۔میں نے دیکھا کہ کراچی پرسکون ہے ۔ لوگ رینجرز کے حق میں ہیں بلکہ اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ جب رینجرز نہیں ہوں گے تو کیا بنے گا۔ ظاہر ہے جب رینجرز متحرک ہوں گے تو حکومت اس بات کو منفی تو محسوس کرے گی۔
ایکسپریس:کچھ دن قبل اچانک عزیر بلوچ کو منظر عام پر لایا گیا۔اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
عابدہ حسین:میں عزیز بلوچ کو نہیں جانتی ۔میں نے تو کبھی انہیں دیکھا ہے اور نہ ان واقعات سے قبل ان کانام سنا ہے۔ اب وہ کیا انکشافات کرتے ہیں اور اس کا کیا اثر ہو گا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہمارے ملک میں لاکھوں مدارس ہیں ۔ انہیں قومی دھارے میں کیسے لایا جا سکتا ہے؟
عابدہ حسین:ابھی کچھ دن ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ان کی مدارس کے سربراہان سے مفاہمت ہوئی ہے کہ وہ کریکیولم کے مطابق تعلیم دیں گے اور اپنے فنڈز کے ذرائع بھی ظاہر کریں گے اور مین سٹریم میں حکومت سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو۔
ایکسپریس:کیا فوجی عدالتیں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹے کے لیے مؤثر حل ثابت ہو سکیں گی؟کیا پھانسیاں صرف مذہبی بنیادوں پر قتل کی پاداش میں دی جانی چاہیں یا پھر کسی بھی ناحق قتل پر؟پیچیدگی نہیں یہ؟
عابدہ حسین:دیکھیے پیچیدگی تو ہے لیکن ایک بات توہم سب کو ماننی ہو گی کہ جب سے چند دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں تو دہسشت گردی کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں۔
ایکسپریس:آپ نے اپنے طویل سیاسی سفر میں کسی لوگ دیکھے۔کسے بہتر صلاحیتوں کا حامل لیڈر سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین:میں سمجھتی ہوں کہ بھٹو سے بہتر لیڈر میں نے نہیں دیکھا ۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست بھی بڑی طویل تھی ۔ بھٹو کے بعد میں سنمجھتی ہوں کہ میاں نواز شریف کا ریکارڈ بہتر رہا ہے۔ بی بی بے نظیر کی پہلی حکومت آئی تو ان کی عمر 35سال تھی۔ دوسری حکومت آئی تو ان کی عمر 38 سال تھی ۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ اس لیے وہ حکومت کو صحیح طور پر سنبھال نہ سکیں۔ جب وہ حکومت کے لیے تیار تھیں تو انہیں دنیا سے روپوش کر دیا گیا۔ میں سجھتی ہوں لیڈرز میں پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد میاں نواز شریف بہتر ہیں۔
ایکسپریس:آج کل امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے لیے دوڑ جاری ہے؟پاکستان کو حق میںکون سا امیدوار بہتر ثابت ہو سکتا ہے؟
عابدہ حسین:الیکشن جس خطے میں ہوں ،ہمیشہ ایک دلچسپ عمل ہوتا ہے اور امریکا میں تو بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو مسلسل الیکشن میں رہتا ہے۔ ایک سال ان کے مقامی الیکشن ہوتے ہیں ۔ پھر ان کے ریاستی نمائندگان کے الیکشن ہوتے ہیں اورپھر ان کاآدھا کانگریس منتخب ہوتا ہے۔
اس کے بعد گورنر منتخب ہوتے ہیں اور پھر آج کل صدارتی انتخاب ہو رہا ہے۔ امریکا کے حالیہ الیکشن کی بات کریں تو روایتی طور پر سمجھا جاتا تھا کہ رپبلکن پارٹی پاکستان کے لیے فیورایبل ہوتی ہے لیکن اب وہاں رپبلکن امیدواروں میں سب سے آگے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نے کہا ہے کہ کسی مسلمان کو امریکا میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔یہ تو بہت ہی منفی سوچ ہے۔
اس لیے ہمیں زیادہ سوٹ کرے گا اگریہ انتخابی عمل ڈیموکریٹک پارٹی جیت جائے ۔ہیلری کلنٹن ہمارے لیے بہترین ہو گی اس لیے کہ ہیلری کلنٹن یہاں چار مرتبہ آ چکی ہیں، وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو جانتی ہیں۔ اس سے قبل وہ سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکی ہیں اور ان کا ورلڈ ویو بڑا مثبت ہے۔برنی سینڈرز جو کہ اس وقت ان کے مقابلے میں چل رہے ہیں ہیلری کے متبادل امیدوار کے طور پر وہ پاکستان کو کم جانتے ہیں۔
ان کا زیادہ ڈومسٹک آؤٹ لک ہے ۔ خارجہ امور پر ان کا فوکس ابھی تک نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ کے بارے میں ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ برنی سینڈرز ہمارے لیے ہیلری کی نسبت کم مفید ہو گا بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت بہتر ہو گا۔
ایکسپریس:آپ کا سیاسی مستقبل؟
عابدہ حسین:دیکھئیے میں نے سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔ میری عمر اب ستر سال ہوچکی ہے ۔ چالیس سال میں نے سیاست کی ہے جو کہ بہت ہے۔ میری بیٹی چیئرمین ضلع کونسل ، ایم پی ا ے بھی اور سینیٹر بھی رہ چکی ہے اور اب آنے والے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ میرا بیٹا اپنے والد کے ضلع خانیوال سے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین یونین کونسل منتخب ہوا اور اب ضلع کی چیئر مینی کا امیدوار ہے۔ اب میری زندگی کا وہ سٹیج ہے جہاںمجھے اپنے بچوں اورآپ جیسے قوم کے بچوں کو پروموٹ کرنا ہے ۔ میں نے بغیر کسی پچھتاوے کے چالیس سال سیاست کی ہے اور اس عرصے میں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سمجھا ہے۔
ایکسپریس:''پاور فیلیئر '' کے بعد کوئی اور کتاب لکھنے کا ارادہ ہے؟
عابدہ حسین:مجھے ابھی آکسفورڈ پریس نے بی بی بے نظیر کی سوانح لکھنے کو کہا ہے۔ وہ میں لکھوں گی۔اس کے علاوہ بھی ایک اور کتاب بھی میرے اندر پک رہی وہ بھی میں لکھوں گی۔
ایکسپریس:زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ؟
عابدہ حسین:میں اپنے والد کی علالت اور وفات نہیںبھول پائی۔ میری عمر 23 سال تھی اور میری شادی کو ابھی چند ماہ ہوئے تھے جب مجھے پتہ چلا کہ میرے والد کو کینسر ہے اور کینسر ان کے پنٹریاس میں تھا جو لا علاج تھا۔ پھر دو سال وہ علیل رہے اور دنیا سے روپوش ہو گئے ۔اس وقت میری عمر 25سال جبکہ ان کی عمر55سال تھی ۔ وہ بڑے شفیق باپ تھے اورمیں ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔ جھنگ میں ان کو لوگ کہا کرتے تھے کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے اس لیے آپ دوسری شادی کر لیں۔ تو جواب میں کہتے تھے'' میں کوئی نبیﷺ تو وڈا ہاں؟'' مطلب یہ کہ نبیﷺ کی بھی تو دختران ہی تھیں ۔ ان کی شخصیت بڑی قدآور تھی ۔ میں ان کا دنیا سے جانے کا حادثہ نہیں بھلا سکی ہوں ۔
ایکسپریس:کسی آئیڈیل شخصیت سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین :میری زندگی میں آئیڈیل شخصیت تو میرے والد تھے اور ان کے بعد میں سوچوں تو میرے والد کے ایک دوست تھے وہ مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ۔ ان کا نام سردار عبدالرشیدتھا ۔ وہ میری بڑی پسندیدہ شخصیت تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند ناپسند
مجھے گھوڑوں کا شوق ہے اورمیں گھوڑے پالتی بھی ہوں ۔ اس کے علاوہ پولو،ٹینٹ پیگنگ مجھے اچھی لگتی ہے ۔ پہلے گھڑ سواری بھی کرتی تھی لیکن بچوں کی پیدائش کے بعد چھوڑ دی۔ کرکٹ میں عامر سہیل پسند ہے(اپنی یاداشت پر زور دیتے ہوئے)۔میری سب سے پسندیدہ کتاب جو میں چار مرتبہ پڑھی ہے وہ ہے ''جین ایئر'' اور اب حال ہی میںایک افغان نژاد امریکی مصنف خالد حسینی نے ایک کتاب لکھی ہے ''کائٹ فلائیر'' وہ مجھے بہت پسند ہے۔ مجھے موسیقی بالخصوص قوالی کا بہت شوق ہے۔ نصرت جتنا بڑا قوال تو پھر کوئی آیا نہیں لیکن ابو محمد اور فرید ایازمیرے پسندیدہ قوال ہیں۔مجھے فلم سے بہت زیادہ دلچسپی ہے ۔ ڈراما اگر بہت پائے کا ہو تو پھر پسند ہے ۔ مجھے ہر قسم کی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ انگلش میں ''گون وِِد دا وِِنڈ'' مجھے پسند تھی۔ ایک فلم تھی ''آؤٹ آف افریقہ'' وہ بھی بہت پسند تھی۔ پنجابی کی فلم'' ہیر رانجھا'' مجھے بہت پسند تھی ۔اس کے گانے بہت اچھے تھے۔
۔۔۔
٭میری عمر ستر برس ہوچکی ، سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا ہے ٭بھٹو فیصلے جرأت سے کرتے تھے تاہم وہ بہت زیادہ مشاورت نہیں کرتے تھے٭بگٹی صاحب نے کہا '' تمہاری پنجابی فوج تو مجھے مارنے آرہی ہے۔
اگر ایسا ہو گیا تو لگتا ہے میں پھر آزاد بلوچستان کی آواز بن جائوں گا''٭ہیلری کلنٹن ہمارے لیے بہترین ہوںگی اس لیے کہ ہیلری کلنٹن یہاں چار مرتبہ آ چکی ہیں، وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو جانتی ہیں٭کراچی میں لوگ رینجرز کے حق میں ہیں بلکہ اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ جب رینجرز نہیں ہوں گے تو کیا بنے گا۔
٭جب سے چند دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں ،دہشت گردی کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں ٭پیپلز پارٹی سندھ کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہے ٭مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے ٭کالعدم جماعتوں کو الیکشن میں نہیں آنا چاہیے
آپ کے والد سید عابد حسین 1946ء میں آل انڈیا دستور ساز اسمبلی کے سب سے کم عمر رکن منتخب ہوئے۔ شوہر سید فخر امام بھی معروف سیاست دان ہیں اور 1985-86میں قومی اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ صغریٰ امام بھی کارزار سیاست میں سرگرم ہیں اور صوبائی اسمبلی کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔آپ کے صاحبزادے سید عابد حسین امام اپنے والد کے آبائی حلقے خانیوال سے یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اب ضلع کی چیئرمین شب کی دوڑ میں شامل ہیں۔
گزشتہ برس ان کی خودنوشت سوانح حیات ''پاور فیلیئر '' منظر عام پرآئی جس میں انہوں نے اپنے چالیس سالہ سیاسی سفر کی روداد قلمبند کی ہے۔ کتاب میں محتاط رویہ اختیار کرنے کے باوجود کئی اہم حقائق منظر عام پر لائی ہیں جو اخبارات میں زیر بحث بھی رہے ہیں۔روزنامہ ایکسپریس نے گزشتہ دنوں بیگم سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال ان سطور میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس:آپ نے سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا اور ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم سے متعلق بہت سی یادیں آپ نے اپنی کتاب میں رقم کی ہیں۔بھٹو صاحب کی شخصیت کے بارے کچھ بتائیے؟
عابدہ حسین:بھٹو صاحب انتہائی ذہین اورمتحرک تھے۔وہ احمقوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے ۔وہ اپنے تمام فیصلے جرأت سے کرتے تھے تاہم یہ درست ہے کہ وہ بہت زیادہ مشاورت نہیں کرتے تھے۔
ایکسپریس:پاکستان طویل ادوار تک مارشل لاؤں کے تحت رہا اور جب بھی کوئی جمہوری حکومت آتی ہے تو اسے ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
عابدہ حسین:جی یہ درست ہے کہ پاکستان میں فوج کی پے درپے مداخلتیں ہوتی رہی ہیں مگر اب گزشتہ آٹھ سال سے ملک میں جمہوریت رواں دواں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک اور الیکشن میں جانے کے بعد یہ کہنے کے قابل ہو جائیں گے کہ جمہوریت اپنی جڑیں پکڑ رہی ہے۔
ایکسپریس:مارشل لاء کا سبب فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا سیاست دانوں کی کمزوری؟
عابدہ حسین:یہ دونوں باتیںباہم ملی جلی ہیں۔ کچھ سیاسی لوگ فوجیوں کو اکساتے ہیں اور فوج کے سربراہوں کی بھی اس طرح کی خواہشات ہوتی ہیں۔
ایکسپریس:کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ۔کیا یہ تأثر درست ہے؟
عابدہ حسین: میں سمجھتی ہوں یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ وزیراعظم بہت تحمل سے چلے ہیں ۔دوسری جانب جنرل راحیل شریف بھی محتاط رہے ہیں۔ بظاہر اس وقت حکومت اور فوج کے درمیان کوئی نمایاںخلفشار نہیں ہے۔
ایکسپریس:جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ پہلے ہی توسیع نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس قدر جلدی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
عابدہ حسین:دیکھیے فوج ایک ادارہ ہے اور ادارے میںلوگ آتے جاتے رہتے ہیںلیکن میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنرل صاحب نے دس ماہ پہلے کیوں توسیع نہ لینے کی بات کی۔
ایکسپریس:مسلم لیگ نواز کا ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں اختلاف ضرور ہوا ہے؟ان حالات میں نظام کو استحکام کیسے ملے سکے گا؟
عابدہ حسین:سسٹم پچھلے آٹھ سالوں سے چل رہا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک آدھ الیکشن اورہوا تو جمہورت جڑ پکڑ جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی نمائندگان میں کشمکش صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوتی بلکہ یہ دنیا کی ہر جمہوری ریاست میں کسی نہ کسی حد تک ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کو دیانت داری اور سلیقے سے چلایا جائے تو سیاست مضبوط ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی قوت میں کمی آتی ہے۔ لیکن اگر حکومت کے امور میں خیانت سے کام لیا جائے اور نااہلی کا ثبوت دیا جائے تو پھر اسٹیبلشمنٹ زیادہ توانا ہو جائے گی۔
ایکسپریس:ضیا ء الحق کے دور میں انہیںآپ کی جزوی حمایت حاصل رہی؟
عابدہ حسین:دیکھیں جی میں نے اپنے چالیس سالہ سیاسی سفر میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔جمہوری حکومتیں بھی دیکھی ہیں اور فوجی حکومتیں بھی دیکھی ہیں۔میں نے کبھی جنرل ضیاء کی حمایت نہیں کی ۔ ہا ں نواز شریف کے ساتھ میں رہی ۔ میں جمہوریت کی قائل ہوںلیکن میں یہ سمجھتی ہوں اگر میاں نواز شریف نے آرمی چیف کا انتخاب سنیارٹی کی بنیاد پر کیا ہوتا تو مشرف کی جانب سے جو مداخلت ہوئی ، وہ نہ ہوتی۔
ایکسپریس:آرمی چیف کا انتخاب وزیراعظم کی صوابدید پر موقوف نہیں کیا؟
عابدہ حسین:جی یہ درست ہے لیکن اگر سینیارٹی کا خیال رکھا گیا ہوتا تو مشرف ضرورت سے زیادہ ایمبیشئیس کبھی نہ ہوتے اور شاید مداخلت بھی نہ کرتے۔
ایکسپریس:مشرف کے دور میں اکبر بگٹی قتل ہوئے۔آپ کا ان سے تعلق رہا ۔کچھ حقائق ہمارے قارئین سے شیئر کریں گی؟
عابدہ حسین:دیکھیے میری نواب اکبر بگٹی سے اس وقت بات ہوئی جب وہ غار میں تھے۔ یہ ان کے قتل کے پندرہ بیس دن پہلے کا واقعہ تھا۔ میں نے بلخ شیر مزاری کے ذریعے ان کا سیٹٰلائٹ نمبر حاصل کیا اور فخر امام(شوہر) اور میں نے ان کے چھوٹے بھائی میر احمد نواز بگٹی کی وفا ت پر تعزیت کے لیے فون کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے سنا کہ آپ کو ٹانگوں کے پٹھوں میں مسئلہ ہے۔ آپ غار سے نکلیں اور کسی ہسپتال میں علاج کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری پنجابی فوج تو مجھے مارنے آرہی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو مجھے لگتا ہے کہ میں پھر آزاد بلوچستان کی آواز بن جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ ہماری فوج بے وقوف ہو گی مگر اتنی نہیں کہ وہ آپ کو قتل ہی کر ڈالے لیکن پندرہ دن بعد وہ غار سے نکل کر جب وہ بگٹی علاقے سے نکل کر مری علاقے سے گزر رہے تھے تو انہیں ختم کر دیا گیا۔میںنے اپنی کتاب میں یہ سارا وقوعہ تفصیل سے قلمبند کیا ہے۔
ایکسپریس:میاں نواز شریف کے دور میں شریعت بل پیش کیا گیا جس کی مخالفت آپ نے کی۔ یہ خطرہ کیسے مول لیا؟
عابدہ حسین:دیکھیے اس میں کوئی رسک کی بات نہیں تھی ، اپنے یقین کی بات تھی ۔ جب آئین پاکستان میں درج ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا اور نہ ہی الحمدللہ آج تک ایسا کوئی قانون بنا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ حکومتوں کو آئین کی رو سے چلنا چاہیے۔
ایکسپریس:کیا یہ تاثر درست ہے کہ آپ نے آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کی حمایت کی تھی ؟
عابدہ حسین:میں نے 58ٹو بی کی کبھی حمایت نہیں کی تھی۔اس قومی اسمبلی میں آٹھ اراکین نے مخالفت کی تھی جن میں ایک میں تھی۔ ہم ہال سے چلے گئے تھے اور ہم نے آٹھویں ترمیم پر دستخط نہیں کیے تھے۔
ایکسپریس:ضیا ء دور کے اخیر میں آئی جے آئی بنی ۔جن سیاستدانوںمیں رقوم بانٹی گئیں ان میں آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔حقیقت کیا ہے؟
عابدہ حسین:ہم اس وقت ایک آزاد گروپ تھے اور اسی حیثیت میں ہم آئی جے آئی میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے۔ آگے جا کر مجھ پر الزام لگا کہ میں نے آئی ایس آئی سے پانچ لاکھ روپے لیے ہیں۔میں اس وقت منسٹر تھی اور ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ الیکشن فنڈ ہے۔پانچ لاکھ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔الیکشن فنڈز اور چیز ہوتی ہے اور آئی ایس آئی کے ریسورسز اور چیز ہوتے ہیں۔کوئی اتنا بڑادھوکہ کرے تو ان کا قصور تو نہیں ہے جنہوں نے وہ فنڈز استعمال کیے ہوں۔
ایکسپریس:گزشتہ سال کے دوران خبریںگردش کرتی رہیں کہ شہباز شریف نے اڑھائی سو ایکٹر زرعی اراضی آپ کو بلا معاوضہ پٹے پر دی ہے ۔ کیا حقیقت ہے؟
عابدہ حسین:نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔
ایکسپریس:آپ نے امریکا میں پاکستان کے سفیر ہونے کی حیثیت سے امریکی معاشرے اور ان کے حکمرانوں کو قریب سے دیکھا۔ پاکستان کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟
عابدہ حسین:ہم جتنا امریکیوں کو اچھا سمجھتے ہیں اتنا ہی وہ ہمیں اچھا جانتے ہیں۔کسی بھی ریاست کے باشندوں کے دوسری ریاست کے بارے میں جذبات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہتے۔ امریکا ہمارے ملک میں مقبول نہیں ہے۔ امریکا نے ہمیں استعمال کیا لیکن اس نے ہماری امداد بھی بہت کی ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جو کسی سے مدد لیتا ہے اسے اچھا نہیں جانتا ۔نہ نفرادی سطح پر نہ اجتماعی سطح پر۔
ایکسپریس:پاکستان نے ستر کی دہائی میں روس کے خلاف افغان طالبان سرپرستی کی جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کیاپاکستان کو افغانستان میں مداخلت کرنی چاہیے؟
عابدہ حسین:میں سمجھتی ہوںہمیں افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل نہیں دینا چاہیے۔ جب وہاں پر روسی فوجیں آئیں تو بہت بڑی تعداد میں افغان پاکستان میں آ کر مقیم ہو گئے ۔ ان میںسے پھر تحریک طالبان پاکستان بنی۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمیںان کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے اور افغانستان کی حکومت کو بھی یہاں مقیم افغانوں کی اپنے وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ایکسپریس:یمن کے معاملے پر ایران اور سعودیہ میں تناؤ کے سلسلے میں پاکستان کے کردار پر کیا تبصرہ کریں گی؟
عابدہ حسین: پاکستان کا ثالثی کے کردار ادا کرنا درست قدم تھا ۔ میں نے اس اقدام سے پہلے متعدد بار ذرائع ابلاغ میں تجویز دی تھی کہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے بعد چین فرانس، جرمنی اور امریکا بھی ان کوششوں کا حصہ بنے جس کے باعث باعث وہ تناؤ اسی جگہ پر رُک گیا اور بات مزید آگے نہیں بڑھی۔ میری رائے یہ ہے کہ ہمیں ایک خصوصی ایلچی مقرر کرنا چاہیے جو قطر اور تہران کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کا عمل شروع کرے۔ ہمیں اس اقدام کو آگے بڑھانا چاہئے۔
ایکسپریس: ماضی میں پاکستان کے سعودی عرب کی جانب جھکاؤ کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
عابدہ حسین:پاکستان کا جھکاؤ سعودیہ کی جانب رہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی رائے عامہ میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے کسی بھی محفل میں سعودی عرب کے بارے میں کوئی بھی منفی بات کرنا ممکن نہیں تھا جبکہ آج عوام الناس میں یہ بات عام ہے کہ ہمارے ہاں پھیلنے والی دہشت گری کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔وہ دہشت گردوں سے جان چھڑانے کے لیے ان کو یہاں دھکیلتے رہے ہیں۔ ایسے مدارس کو فنڈز بھی وہ دیتے ہیں جہاں سے دہشت گرد نکلتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایران سے پابندیاں اٹھنے کے بعد وہ معاشی طور پر بہت مضبوط ہو گیا ہے۔ ہمیں موجودہ حالات میں ایک مؤثر تجارتی شراکت دار کی ضرورت ہے۔ ایران کے پاس وافر توانائی ہے جبکہ ہمارے ہاں توانائی کی کمی ہے۔ہمارے پاس ایسی صنعتی اشیاء اور زرعی آلات ہیں جن کی ایران میں مارکیٹ ہے ۔اس کے علاوہ ہماری بجلی کا سازومان ہیں،ہماری فارماسیوٹیکلز ہیں ،زرعی مصنوعات ہیں جب کی ایران میں خاصی مانگ ہے ۔ ایران کے ساتھ ہماری تجارت بڑھنے سے دوطرفہ تجارت کا توازن زیادہ منفی نہیں ہو گا۔
ایکسپریس:پاکستان نے پہلے ایران سے گیس پائپ لائن کا معائدہ کیا اور اب قطر سے گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہوا۔کیا اس سے ایران سے ہمارے تعلقات متاثر تو نہیں ہوں گے؟
عابدہ حسین:دیکھیں قطر سے جو گیس ہم نے لیا ہے وہ ہے ایل این جی جبکہ ایران سے ہم نے پائپ لائن کا معائدہ کیا ہے جو وہ اپنی سرحد تک لے آئے ہیں صرف ہمیں اس پر کام کرنا ہے۔یہ توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے مختصر ترین روٹ ہے۔ یہ پائپ لائن اٹھارہ ماہ میں بن جاتی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ وہ بن جائے گی۔
ایکسپریس:ان پیش رفتوں کے بعد ملک توانائی کے بحران سے نکل آئے گا؟
عابدہ حسین:جی حکومت کوشش تو پوری کر رہی ہے۔ توانائی کے کئی نئے پروجیکٹس شروع کیے گئے ہیں اور ایل این جی کے آنے سے یقینا ریلیف ملے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ آئندہ الیکشن تک لوڈشیڈنگ آٹھ گھنٹے سے کم ہو کر چارگھنٹے تک آجائے گی۔
ایکسپریس:پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تعمیر کے معائدے کے بعد گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت ایک بار پھر زیر بحث آ ئی ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبے بنانے سے بھارت کو کشمیر پر مستقل اجارہ داری کا جواز نہیںمل جائے گا؟
عابدہ حسین:اقتصادی راہداری کے معاملے پرہمیں بھارت کے اس حوالے سے قطعی طور پر نہیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنی سوچ پرکاربند رہنا چاہیے۔ گلگت بلستان کو ہم نے جو سٹیٹس دیا ہے میں سمجھتی ہوں ہم نے وہ درست ہے اوریہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی ایک اچھی کاوش تھی ۔ اب اس سٹیٹس کو برقرار رکھنا پاکستان کی موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایکسپریس:کیا ایسا کرنے سے کشمیری مایوس نہیں ہو جائیں گے؟
عابدہ حسین:نہیں وادی کے کشمیریوں کو تو کسی قسم کو تشویش کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ گلگت بلتستان سے فاصلے پر ہے۔ اس سے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ جموں درمیان میں آ جاتا ہے ۔
ایکسپریس:مسئلہ کشمیر کے حوالے کس فارمولے کو بہتر سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین:میں یہ سمجھتی ہوں انیس سو اڑتالیس کی جو قراردادیں ہیں وہ ہی درست فارمولا ہے کہ وہاں پر استصواب رائے ہو اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اس کا فیصلہ ہو۔
ایکسپریس:آزادکشمیر میں انتخابات قریب ہیں ۔ابھی چند دن کوٹلی میں پیپلز پارٹی کے جیالے کے قتل کے بعد آزادحکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے۔ آزادکشمیر میں تاریخ میں پہلی بات وفاق کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا۔اس ساری صورت حال پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
عابدہ حسین:جی ہاں !روایتی طور پر ہماری وفاقی حکومت آزادکشمیر پر بہت زیادہ اثر رکھتی ہے اور یہ بھی روایت چلی آ رہی ہے کہ جس پارٹی کی حکومت اسلام آباد میںہوتی ہے، اسی کی حکومت آزادکشمیر میں بھی ہوتی ہے۔کوٹلی میں ہونے والی تلخی الیکشن ہی کا پیش خیمہ ہے۔نون لیگ والے الیکشن کا معرکہ مارنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے پیپلز پارٹی کو بھگانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھیں آگے چل کر الیکشن میں کیا ہوتا ہے۔
ایکسپریس:ماضی میںآپ کے آبائی حلقے میں شیعہ سنی اختلافات بہت زوروں پر رہے ہیں ۔اب حالات بہتر ہیں؟
عابدہ حسین:دیکھیں جی یہ شیعہ سنی مسئلہ کو اس وقت فارمل شکل دی گئی جب 1986ء میںمولوی حق نواز کی قیادت میں انجمن سپاہ صحابہ بنی ۔پھر وہ سپاہ صحابہ بن گئی اور اب اس کا نام اہلسنت والجماعت ہے اور یہ کالعدم تنظیم ہے۔لشکر جھنگوی بھی اسی کی کوکھ سے نکلا ۔ میں سمجھتی ہوں کہ جھنگ میں مسلک کی جڑیں اب کافی کمزور ہوگئی ہیں۔ ملک کے باقی حصوں میں اب شاید جھنگ سے زیادہ پھیل گئی ہوں۔لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ مولوی صاحبان اپنی طاقت کی خاطریہ مسئلہ کھڑا کرتے ہیں ۔ اس جھگڑے کے باعث نہ کوئی شیعہ سنی ہوا ہے اور نہ کو ئی سنی شیعہ ہوا ہے۔ اس وقت جھنگ میں تو الحمداللہ کافی ٹھنڈک ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ کالعدم جماعتوں کو الیکشن میں نہیں آنا چاہیے۔
ایکسپریس:سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں ہے لیکن وہاں کی پسماندگی میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔کیا یہ پیپلز پارٹی کا ناکامی نہیں ہے؟
عابدہ حسین:پیپلز پارٹی سندھ میں کوئی خاص بہتری نہیں لا سکی۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ پی پی سندھ کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہے۔
ایکسپریس:سپی پی موجودہ قیادت کی موجودگی میں اسے دوبارہ عروج مل سکے گا؟
عابدہ حسین:دیکھیے مستقبل کے بارے میں تو اللہ بہتر جانے لیکن پی پی کے جو کارکن ہیں وہ موجودہ قیادت سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایکسپریس:بلاول بھٹو کو ان کے ناقدین سیاسی طور پر ناتجربہ کار قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کر سکیں گے؟
عابدہ حسین:دیکھیے میں بلاول کی خیر خواہ ہوں اور میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ایک بات میں کہوں گی کہ انہیں بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔بالکل اس طرح کی محنت جسے ہم پتا مارنا کہتے ہیں۔ آیا ان میں یہ اہلیت ہے کہ نہیں ،یہ تو وقت ثابت کرے گا۔ بلاول نوجوان ہیں اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سیاست سے دلچسپی بھی خوب ہے۔ بولتے بھی ٹھیک ٹھاک ہیں ۔ انہوں نے ادھر ہائیکورٹ بار میں بڑی عمدہ اور مدلل تقریر کی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ آگے چل کر عملی طور پر کیا کر پائیں گے اور کیا وہ اپنے والد سے جان چھڑا سکیں گے کہ نہیں (مسکراتے ہوئے) بڑی بات تو یہی ہے۔
ایکسپریس:سندھ میں جاری رینجرز کے آپریشن کے بعد سے وفاق اور صوبائی حکومت باہم مقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں؟
عابدہ حسین:سندھ میں رونما ہونے والے یہ واقعات غیر متوقع نہیں ہیں ۔کراچی میں رینجرز کے آپریشن نے بہت زیادہ فرق ڈالا ہے ۔ میں دسمبر کے مہینے میں ایک ہفتہ کراچی گئی تھی۔میں نے دیکھا کہ کراچی پرسکون ہے ۔ لوگ رینجرز کے حق میں ہیں بلکہ اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ جب رینجرز نہیں ہوں گے تو کیا بنے گا۔ ظاہر ہے جب رینجرز متحرک ہوں گے تو حکومت اس بات کو منفی تو محسوس کرے گی۔
ایکسپریس:کچھ دن قبل اچانک عزیر بلوچ کو منظر عام پر لایا گیا۔اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
عابدہ حسین:میں عزیز بلوچ کو نہیں جانتی ۔میں نے تو کبھی انہیں دیکھا ہے اور نہ ان واقعات سے قبل ان کانام سنا ہے۔ اب وہ کیا انکشافات کرتے ہیں اور اس کا کیا اثر ہو گا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہمارے ملک میں لاکھوں مدارس ہیں ۔ انہیں قومی دھارے میں کیسے لایا جا سکتا ہے؟
عابدہ حسین:ابھی کچھ دن ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ان کی مدارس کے سربراہان سے مفاہمت ہوئی ہے کہ وہ کریکیولم کے مطابق تعلیم دیں گے اور اپنے فنڈز کے ذرائع بھی ظاہر کریں گے اور مین سٹریم میں حکومت سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو۔
ایکسپریس:کیا فوجی عدالتیں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹے کے لیے مؤثر حل ثابت ہو سکیں گی؟کیا پھانسیاں صرف مذہبی بنیادوں پر قتل کی پاداش میں دی جانی چاہیں یا پھر کسی بھی ناحق قتل پر؟پیچیدگی نہیں یہ؟
عابدہ حسین:دیکھیے پیچیدگی تو ہے لیکن ایک بات توہم سب کو ماننی ہو گی کہ جب سے چند دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں تو دہسشت گردی کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں۔
ایکسپریس:آپ نے اپنے طویل سیاسی سفر میں کسی لوگ دیکھے۔کسے بہتر صلاحیتوں کا حامل لیڈر سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین:میں سمجھتی ہوں کہ بھٹو سے بہتر لیڈر میں نے نہیں دیکھا ۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست بھی بڑی طویل تھی ۔ بھٹو کے بعد میں سنمجھتی ہوں کہ میاں نواز شریف کا ریکارڈ بہتر رہا ہے۔ بی بی بے نظیر کی پہلی حکومت آئی تو ان کی عمر 35سال تھی۔ دوسری حکومت آئی تو ان کی عمر 38 سال تھی ۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ اس لیے وہ حکومت کو صحیح طور پر سنبھال نہ سکیں۔ جب وہ حکومت کے لیے تیار تھیں تو انہیں دنیا سے روپوش کر دیا گیا۔ میں سجھتی ہوں لیڈرز میں پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد میاں نواز شریف بہتر ہیں۔
ایکسپریس:آج کل امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے لیے دوڑ جاری ہے؟پاکستان کو حق میںکون سا امیدوار بہتر ثابت ہو سکتا ہے؟
عابدہ حسین:الیکشن جس خطے میں ہوں ،ہمیشہ ایک دلچسپ عمل ہوتا ہے اور امریکا میں تو بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو مسلسل الیکشن میں رہتا ہے۔ ایک سال ان کے مقامی الیکشن ہوتے ہیں ۔ پھر ان کے ریاستی نمائندگان کے الیکشن ہوتے ہیں اورپھر ان کاآدھا کانگریس منتخب ہوتا ہے۔
اس کے بعد گورنر منتخب ہوتے ہیں اور پھر آج کل صدارتی انتخاب ہو رہا ہے۔ امریکا کے حالیہ الیکشن کی بات کریں تو روایتی طور پر سمجھا جاتا تھا کہ رپبلکن پارٹی پاکستان کے لیے فیورایبل ہوتی ہے لیکن اب وہاں رپبلکن امیدواروں میں سب سے آگے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نے کہا ہے کہ کسی مسلمان کو امریکا میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔یہ تو بہت ہی منفی سوچ ہے۔
اس لیے ہمیں زیادہ سوٹ کرے گا اگریہ انتخابی عمل ڈیموکریٹک پارٹی جیت جائے ۔ہیلری کلنٹن ہمارے لیے بہترین ہو گی اس لیے کہ ہیلری کلنٹن یہاں چار مرتبہ آ چکی ہیں، وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو جانتی ہیں۔ اس سے قبل وہ سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکی ہیں اور ان کا ورلڈ ویو بڑا مثبت ہے۔برنی سینڈرز جو کہ اس وقت ان کے مقابلے میں چل رہے ہیں ہیلری کے متبادل امیدوار کے طور پر وہ پاکستان کو کم جانتے ہیں۔
ان کا زیادہ ڈومسٹک آؤٹ لک ہے ۔ خارجہ امور پر ان کا فوکس ابھی تک نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ کے بارے میں ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ برنی سینڈرز ہمارے لیے ہیلری کی نسبت کم مفید ہو گا بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت بہتر ہو گا۔
ایکسپریس:آپ کا سیاسی مستقبل؟
عابدہ حسین:دیکھئیے میں نے سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔ میری عمر اب ستر سال ہوچکی ہے ۔ چالیس سال میں نے سیاست کی ہے جو کہ بہت ہے۔ میری بیٹی چیئرمین ضلع کونسل ، ایم پی ا ے بھی اور سینیٹر بھی رہ چکی ہے اور اب آنے والے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ میرا بیٹا اپنے والد کے ضلع خانیوال سے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین یونین کونسل منتخب ہوا اور اب ضلع کی چیئر مینی کا امیدوار ہے۔ اب میری زندگی کا وہ سٹیج ہے جہاںمجھے اپنے بچوں اورآپ جیسے قوم کے بچوں کو پروموٹ کرنا ہے ۔ میں نے بغیر کسی پچھتاوے کے چالیس سال سیاست کی ہے اور اس عرصے میں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سمجھا ہے۔
ایکسپریس:''پاور فیلیئر '' کے بعد کوئی اور کتاب لکھنے کا ارادہ ہے؟
عابدہ حسین:مجھے ابھی آکسفورڈ پریس نے بی بی بے نظیر کی سوانح لکھنے کو کہا ہے۔ وہ میں لکھوں گی۔اس کے علاوہ بھی ایک اور کتاب بھی میرے اندر پک رہی وہ بھی میں لکھوں گی۔
ایکسپریس:زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ؟
عابدہ حسین:میں اپنے والد کی علالت اور وفات نہیںبھول پائی۔ میری عمر 23 سال تھی اور میری شادی کو ابھی چند ماہ ہوئے تھے جب مجھے پتہ چلا کہ میرے والد کو کینسر ہے اور کینسر ان کے پنٹریاس میں تھا جو لا علاج تھا۔ پھر دو سال وہ علیل رہے اور دنیا سے روپوش ہو گئے ۔اس وقت میری عمر 25سال جبکہ ان کی عمر55سال تھی ۔ وہ بڑے شفیق باپ تھے اورمیں ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔ جھنگ میں ان کو لوگ کہا کرتے تھے کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے اس لیے آپ دوسری شادی کر لیں۔ تو جواب میں کہتے تھے'' میں کوئی نبیﷺ تو وڈا ہاں؟'' مطلب یہ کہ نبیﷺ کی بھی تو دختران ہی تھیں ۔ ان کی شخصیت بڑی قدآور تھی ۔ میں ان کا دنیا سے جانے کا حادثہ نہیں بھلا سکی ہوں ۔
ایکسپریس:کسی آئیڈیل شخصیت سمجھتی ہیں؟
عابدہ حسین :میری زندگی میں آئیڈیل شخصیت تو میرے والد تھے اور ان کے بعد میں سوچوں تو میرے والد کے ایک دوست تھے وہ مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ۔ ان کا نام سردار عبدالرشیدتھا ۔ وہ میری بڑی پسندیدہ شخصیت تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند ناپسند
مجھے گھوڑوں کا شوق ہے اورمیں گھوڑے پالتی بھی ہوں ۔ اس کے علاوہ پولو،ٹینٹ پیگنگ مجھے اچھی لگتی ہے ۔ پہلے گھڑ سواری بھی کرتی تھی لیکن بچوں کی پیدائش کے بعد چھوڑ دی۔ کرکٹ میں عامر سہیل پسند ہے(اپنی یاداشت پر زور دیتے ہوئے)۔میری سب سے پسندیدہ کتاب جو میں چار مرتبہ پڑھی ہے وہ ہے ''جین ایئر'' اور اب حال ہی میںایک افغان نژاد امریکی مصنف خالد حسینی نے ایک کتاب لکھی ہے ''کائٹ فلائیر'' وہ مجھے بہت پسند ہے۔ مجھے موسیقی بالخصوص قوالی کا بہت شوق ہے۔ نصرت جتنا بڑا قوال تو پھر کوئی آیا نہیں لیکن ابو محمد اور فرید ایازمیرے پسندیدہ قوال ہیں۔مجھے فلم سے بہت زیادہ دلچسپی ہے ۔ ڈراما اگر بہت پائے کا ہو تو پھر پسند ہے ۔ مجھے ہر قسم کی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ انگلش میں ''گون وِِد دا وِِنڈ'' مجھے پسند تھی۔ ایک فلم تھی ''آؤٹ آف افریقہ'' وہ بھی بہت پسند تھی۔ پنجابی کی فلم'' ہیر رانجھا'' مجھے بہت پسند تھی ۔اس کے گانے بہت اچھے تھے۔
۔۔۔
٭میری عمر ستر برس ہوچکی ، سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا ہے ٭بھٹو فیصلے جرأت سے کرتے تھے تاہم وہ بہت زیادہ مشاورت نہیں کرتے تھے٭بگٹی صاحب نے کہا '' تمہاری پنجابی فوج تو مجھے مارنے آرہی ہے۔
اگر ایسا ہو گیا تو لگتا ہے میں پھر آزاد بلوچستان کی آواز بن جائوں گا''٭ہیلری کلنٹن ہمارے لیے بہترین ہوںگی اس لیے کہ ہیلری کلنٹن یہاں چار مرتبہ آ چکی ہیں، وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو جانتی ہیں٭کراچی میں لوگ رینجرز کے حق میں ہیں بلکہ اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ جب رینجرز نہیں ہوں گے تو کیا بنے گا۔
٭جب سے چند دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں ،دہشت گردی کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں ٭پیپلز پارٹی سندھ کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہے ٭مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے ٭کالعدم جماعتوں کو الیکشن میں نہیں آنا چاہیے