کائنات کے دل کی دھڑکن سنائی دے گئی
ثقلی امواج کی دریافت نےسائنس دانوں کوغیرمرائی اورپراسرارفلکیاتی مظاہرپرتحقیق وتجربے کرنےکا سنہرا موقع عطاکر دیا، رپورٹ
پچھلے دنوں یہ خوش خبری سننے کو ملی کہ ماہرین طبعیات نے ''ثقلی امواج'' (Gravitational waves ) دریافت کر لی ہیں۔ 1915ء میں مشہور سائنس داں' آئن سٹائن نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ کائنات میں غیر مرئی یا نہ دکھائی دینے والی کشش ثقل کی لہریں پھیلی ہوئی ہیں۔ انہی لہروںکو اس نے ''ثقلی امواج'' کا نام دیا۔
یہ پیش گوئی آئن سٹائن کے مشہور ''نظریہ اضافیت'' کا حصہ ہے۔کائنات میں ہر مردہ یا زندہ شے توانائی خارج کرتی ہے۔یہ توانائی مرئی یا غیرمرئی لہروں کی صورت ملتی ہے۔مرئی لہریں سائنسی اصطلاح میں ''برق مقناطیسی'' (Electromagnetic waves)کہلاتی ہیں۔اس قسم کی لہروں میں روشنی،ایکس رے،ریڈیائی لہریں،گاما شعاعیں وغیرہ شامل ہیں۔اولیں برق مقناطیسی لہریں 1800ء کے بعد دریافت ہوئیں۔ان سے ماہرین فلکیات وطبعیات کو بہت فائدہ پہنچا۔انھوں نے ایسے آلات ایجاد کیے جو کروڑوں اربوں میل دور خلا میں چکر کھاتے فلکیاتی اجسام سے خارج ہوتی برق مقناطیسی لہریں پکڑ کر ان کے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے لگے۔مثلاً یہ کہ فلاں ستارے یا سیارے کا قطر کتنا ہے اور عمر کتنی!
مسئلہ یہ تھا کہ کائنات کا تقریباً 95حصہ سیاہ توانائی(Dark energy) اور سیاہ مادے (Dark matter)پر مشتمل ہے۔ابھی یہ محض نظریہ ہے۔یہ دونوں کسی قسم کی برق مقناطیسی لہریں خارج نہیں کرتے۔یہی معاملہ سیاہ سوراخ(Black hole)کے ساتھ بھی درپیش تھا۔سیاہ سوراخ کائنات میں انتہائی زبردست کشش ثقل رکھنے والے خصوصی علاقے ہیں ۔انتہائی کشش ثقل رکھنے کی وجہ سے روشنی بھی ان سے ٹکرا کر انہی میں جذب ہو جاتی ہے۔
چناں چہ سیاہ سوراخ ہمیں نظر نہیں آتا۔ان کی موجودگی بھی محض نظریہ تھا۔مگر ستمبر2015ء میں ایک انقلاب آ گیا۔تب ماہرین نے دو سیاہ سوراخوں کے تصادم سے جنم لیتی ثقلی امواج کو شناخت کر لیا۔گویا یہ سچائی سامنے آ گئی کہ سیاہ سوراخ اور ثقلی امواج،دونوں وجود رکھتے ہیں۔یہ بہت بڑی دریافت ہے کیونکہ اب ثقلی امواج کی مدد سے سائنس داں کائنات کے غیر مرئی مظاہر کی چھان بین کر سکیں گے۔یوں انسان آخر کائنات کے دل کی دھڑکن سننے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
٭٭
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے خلا (Space) اور وقت (Time) ایک ہی چیز کے دورخ ہیں۔ چناںچہ نظریہ اضافیت میں کائنات کو ''خلائی وقت'' (Space Time) کا نام دیا گیا۔ یہ خلائی وقت کیا شے ہے' ماہرین مختلف انداز میں اس کی تشریح کر چکے۔ سادہ تشریح یہ ہے کہ خلائی وقت کو ایک عظیم الشان چادر سمجھیے جس میں کھربوں پدموں کہکشائیں ' ستارے' سیارے اور دیگر فلکیاتی اجسام سمائے ہوئے ہیں۔
نیوٹن کے قانون کی رو سے کش ثقل ایک قوت ہے۔ یہ قوت دو اشیاء کو ایک دوسرے کی جانب کھینچتی ہے۔ مگر نظریہ اضافیت کے دائرہ کار میں کشش ثقل کی ماہیت بدل جاتی ہے۔ جب کائنات میںکوئی ''سپر نووا'' (دیو ہیکل ستارہ جو دس ارب سورجوں کے برابر چمک رکھتا ہے) پھٹ جائے یا دو عظیم الشان سیاہ سوراخ آپس میں ٹکرائیں تو اس عمل سے مخصوص توانائی ثقلی امواج میں بدل کر خلائی وقت کی چادر میں لہروں کی صورت پھیل جاتی ہیں۔آپ کو علم ہو گا کہ خلا میں ہر شے محو حرکت ہے۔چناں چہ خلائی وقت کی چادر کے جس حصے میں یہ لہریں جنم لیں' وہاں موجود تمام فلکیاتی اجسام کی رفتار ان لہروں کے باعث بڑھ جاتی ہے۔ نظریہ اضافیت کی رو سے اسی عجوبے کا نام کشس ثقل ہے۔ گویا خلائی وقت میں مادہ (Matter) خلا کو بتاتا ہے کہ کس طرح لہریں پیدا ہوں گی ،جبکہ خلا مادے کو بتاتی ہے کہ کیونکر حرکت کرنی ہے۔
جب ثقلی امواج کی وجہ سے کوئی فلکیاتی جسم مثلاً ستارہ اپنی رفتار بڑھائے' تو وہ بھی ثقلی امواج خارج کرتا ہے۔ یہ لہریں اس سے پھوٹ کر چاروں طرف نکلتی ہیں، جیسے آپ ساکن تالات میں کوئی پتھر پھینکیں ' تو پانی کی لہریں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔ثقلی امواج کئی طریقوں سے جنم لیتی ہیں۔عام قاعدہ یہ ہے کہ مادی شے جتنی بھاری بھرکم اور عظیم ہو اور تیز رفتاری سے سفر کرے ' اس سے جنم لینے والی ثقلی امواج بھی اتنی ہی طاقت ور ہو ں گی۔چونکہ کمزور ثقل امواج زیادہ دور تک سفر نہیں کرتیں،ان کی شناخت بھی نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے' آئن سٹائن کی پیشن گوئی پوری ہونے میں ایک صدی لگ گئی۔
ہماری زمین اپنے ستارے،سورج کی کشش ثقل کے باعث حرکت کرتی اور سال میںایک مرتبہ اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ لیکن یہ حرکت بہت سست رفتار ہے' اس لیے وہ کمزور ثقلی امواج پیدا کرتی ہے۔ پھر زمین کا حجم بھی اتنا بھاری نہیں کہ وہ قابل شناخت ثقلی امواج جنم دے۔لیکن کوئی عظیم الشان ستارہ پھٹ پڑے یا دو قومی ہیکل فلکیاتی اجسام آپس میں ٹکرا جائیں' تو یہ حادثہ قابل شناخت ثقلی امواج کو جنم دیتا ہے... اور ایک ایسے ہی حادثے نے حضرت انسان کو ان امواج تک پہنچایا۔
ہوا یہ کہ امریکی شہر لیونگ سٹون میں واقع ''لیگو'' (The Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory)نامی رصد گاہ میں ماہرین طبیعیات ثقلی امواج پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ ثقلی امواج سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی تحقیقی رصد گاہ ہے۔ آخر دو سال قبل انہیں ایک سگنل ملا۔ اسی سگنل پہ طویل تحقیق سے منکشف ہوا کہ جب دو سیاہ سوراخ آپس میں ٹکرائے ' تو ان کی کثیر توانائی نے طاقتور ثقلی امواج پیدا کر دیں۔ یہ سگنل انہی ثقلی امواج کا تھا... یوں کائنات میں سیاہ سوراخ اور ثقلی امواج کی موجودگی ثابت ہو گئی۔
''لیگو'' سے منسلک طبیعیات دانوں کا کہنا ہے کہ ٹکرانے والے سیاہ سوراخوں میں سے ایک ہمارے سورج سے 36گنا جبکہ دوسرا 29 گنا زیادہ کمیت (mass) رکھتا تھا۔ جب وہ مدغم ہو ئے' تو ان کی کمیت 62گناہ زیادہ ہو گئی۔ لیکن یہ کمیت تو ''65'' گنا ہونی چاہیے تھی' بقیہ تین گنا کہاں گئی؟ دراصل وہ کمیت توانائی میں تبدیل ہو گئی یعنی ثقلی امواج کی توانائی جس کی مقدار معمولی نہیں ۔ دونوں سیاہ سوراخوں کے ٹکراؤ سے اتنی زیادہ توانائی خارج ہوئی جو ہمارا سورج ''پندرہ کھرب سال'' میں پیدا کرتا۔
ثقلی امواج کی دریافت سے روحانیت اور تصوف کو بھی تقویت پہنچی ہے۔ان دونوں شعبہ ہائے زندگی میں غیر مرئی لہریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔اب صوفی یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کا واسطہ کسی قسم کی غیرمرئی لہروں یا چیزوں سے پڑتا ہے جن کی اصل خیر ہوتی ہے یا شر بھی!
یہ دریافت اہم کیوں ؟
انسان زمانہ قدیم سے کائنات کے اسرار جاننے کی کھوج میں ہے۔ اسی تجسس کے باعث وہ کائنات کے متعلق بہت کچھ جان بھی چکا۔ اس کھوج کا اہم پہلو یہ ہے کہ بعض ماہرین مظاہر کائنات کے متعلق نظریات اپناتے ہیں، اور پھر دیگر ماہر ان نظریوں کو سچا یا چھوٹا ثابت کرنے کی خاطر تحقیق وتجربے کرتے ہیں۔ مثلاً ثقلی امواج کی موجودگی کا نظریہ آئن سٹائن نے پیش کیا تھا۔ اب ایک صدی بعد وہ درست ثابت ہوا۔
فلکیات و طبیعیات کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات 13 ارب 80 کروڑ سال پہلے وجود میں آئی۔ تب دنیا بھر کا سارا مادہ ایک نقطے میں پوشیدہ تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا، وہ نقطہ پھٹ پڑا اور اس سے مادہ نکل نکل کر چاروں طرف پھیلنے لگا۔ اس قدرتی مظہر کو ''بگ بینگ'' کہا گیا۔جدید سائنس اب تک دریافت نہیں کرسکی کہ نقطے سے نکلنے والے مادے کی نوعیت کیا تھی۔ تاہم اسی سے مادے کے بنیادی اجزا... زیر ایٹمی ذرات (Subatomic particles) نے جنم لیا۔ کائنات بھر میں نظر آنے والی ہر شے انہی زیر ایٹمی ذرات سے بنی ہے۔
ماہرین کے مطابق پچھلے تیرہ ارب اسی کروڑ سال میں کائنات اتنی زیادہ پھیل چکی کہ اس کی آخری حد ہماری زمین سے 46.50 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے، ایک نوری سال (Light-year) ہمارے چھ کھرب میل کے برابر ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا سفر کرنے والی روشنی ایک ارضی سال میں طے کرتی ہے۔ سورج کے علاوہ زمین سے نزدیک ترین ستارہ، پروکسیما سنچری ہم سے صرف 4.24 نوری سال دور ہے۔ مگر جدید ترین خلائی جہاز بھی اس تک پہنچنے میں تقریباً ''75 ہزار سال'' لگادے گا۔
کائنات کی ایک خامی یہ ہے کہ معین فاصلے کے بعد وہ مہم اور غیر شفاف ہوجاتی ہے۔ چناںچہ آگے کی اشیا دکھائی نہیں دیتیں۔ ان اشیا کی بابت جاننے کے لیے پہلے برق مقناطیسی لہروں وغیرہ سے مدد لی گئی۔ ایسے آلات ایجاد ہوئے جو ان لہروں کو شناخت کرسکیں۔ان لہروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ کسی سیاہ سوراخ سے ٹکرائیں، تو اس میں جذب ہوجاتی ہیں۔
اب ماہرین نے ثقلی امواج دریافت کرلی ہیں۔ چناں چہ یہ ممکن ہوچکا کہ ان حیرت انگیز اور فیصلہ کن فلکیاتی سرگرمیوں کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جائیں جو بگ بینگ کے وقت ظہور پذیر ہوئیں۔ وجہ یہ کہ ثقلی امواج مادے (مثلاً ہمارے جسم) سے گزر جاتی ہیں اور انہیں کوئی مادہ شے روک نہیں سکتی۔ اسی لیے وہ کائنات بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔یہ امواج بھی روشنی کی رفتار کے حساب سے کائنات میں سفر کرتی ہیں۔ یاد رہے، قدیم ترین فلکیاتی مظاہر جان کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات عظیم کیونکر پیدا ہوئی اور اس کا خالق کون ہے۔
ماہرین کو اب ایسے خصوصی آلات ایجاد کرنا ہوں گے جو ثقلی امواج میں پوشیدہ مختلف سگنل اور معلومات اخذ کرسکیں۔ یہ امواج ''سیاہ مادے'' اور ''سیاہ توانائی'' کے متعلق بھی ماہرین کو بہت کچھ بتاسکتی ہیں۔ یاد رہے، ہماری کائنات کا صرف ''4.90 فیصد'' ہمیں دکھائی دیتا ہے اور جسے ہم مادہ کہتے ہیں۔ اس کائنات کا ''68.30 فیصد'' حصہ سیاہ توانائی اور ''26.80 فیصد'' حصہ سیاہ مادے پر مشتمل ہے... اور یہ دونوں آخر الذکر حصے ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ گویا کائنات کا 95.70 فیصد انسان کی نظروں سے اوجھل ہے اور وہ اس کے متعلق بہت کم معلومات رکھتا ہے۔
ماہرین کی رو سے سیاہ مادہ کہکشاؤں کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ سیاہ توانائی کا کائنات کے پھیلاؤ میں اہم حصہ ہے۔ طبیعیات داں کہتے ہیں کہ جب بھی ان دو پُراسرار کائناتی مظاہر کی موجودگی کے متعلق ٹھوس شہادتیں ملیں، تو وہ لمحہ ثقلی امواج کی دریافت سے بھی زیادہ اہم ہوگا۔ گویا ابھی وسیع و عریض کائنات میں ایسے کئی اسرار موجود ہیں جن کا کھوج لگانے کے لیے انسانی تجسس بے چین و مضطرب ہے۔
پاکستانی سائنس داں بھی شامل رہے
ثقلی امواج کو دریافت کرنے کا منصوبہ عالمی نوعیت رکھتا تھا، اسی لیے اس سے دنیا بھر کے تقریباً ایک ہزار ماہرین طبیعات منسلک تھے۔ ان میں 37 بھارتی اور 2 پاکستانی بھی شامل تھے۔ یوں بنی نوع انسان کی مشترکہ سرگرمی سے ایک اہم سائنس دریافت ممکن ہوسکی۔ یہ سائنس کی ایک خوبی ہے کہ وہ مختلف الرائے انسانوں کو مشن کی خاطر متحد کردیتی ہے۔47 سالہ ڈاکٹر نرگس ماولوالہ اور 25 سالہ زیر تعلیم پی ایچ ڈی اسکالر، عمران خان منصوبے میں شریک دو پاکستانی تھے۔
کراچی میں جنم لینے والی ڈاکٹر نرگس جانی مانی فلکیاتی طبیعیات داں ہیں۔ دنیا کے عظیم ترین سائنسی تدریسی ادارے، ایم آئی ٹی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے دوران تعلیم ثقلی امواج شناخت کرنے کے لیے ایک لیزر انٹرفیرومیٹر ایجاد کیا تھا۔عمران خان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آپ فی الوقت اٹلی کے تعلیمی ادارے، گران ساسو سائنس انسٹیٹیوٹ کے شعبہ فلکیاتی طبیعیات سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بھی ثقلی امواج کی دریافت میں قابل قدر حصہ ڈالا۔
یہ پیش گوئی آئن سٹائن کے مشہور ''نظریہ اضافیت'' کا حصہ ہے۔کائنات میں ہر مردہ یا زندہ شے توانائی خارج کرتی ہے۔یہ توانائی مرئی یا غیرمرئی لہروں کی صورت ملتی ہے۔مرئی لہریں سائنسی اصطلاح میں ''برق مقناطیسی'' (Electromagnetic waves)کہلاتی ہیں۔اس قسم کی لہروں میں روشنی،ایکس رے،ریڈیائی لہریں،گاما شعاعیں وغیرہ شامل ہیں۔اولیں برق مقناطیسی لہریں 1800ء کے بعد دریافت ہوئیں۔ان سے ماہرین فلکیات وطبعیات کو بہت فائدہ پہنچا۔انھوں نے ایسے آلات ایجاد کیے جو کروڑوں اربوں میل دور خلا میں چکر کھاتے فلکیاتی اجسام سے خارج ہوتی برق مقناطیسی لہریں پکڑ کر ان کے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے لگے۔مثلاً یہ کہ فلاں ستارے یا سیارے کا قطر کتنا ہے اور عمر کتنی!
مسئلہ یہ تھا کہ کائنات کا تقریباً 95حصہ سیاہ توانائی(Dark energy) اور سیاہ مادے (Dark matter)پر مشتمل ہے۔ابھی یہ محض نظریہ ہے۔یہ دونوں کسی قسم کی برق مقناطیسی لہریں خارج نہیں کرتے۔یہی معاملہ سیاہ سوراخ(Black hole)کے ساتھ بھی درپیش تھا۔سیاہ سوراخ کائنات میں انتہائی زبردست کشش ثقل رکھنے والے خصوصی علاقے ہیں ۔انتہائی کشش ثقل رکھنے کی وجہ سے روشنی بھی ان سے ٹکرا کر انہی میں جذب ہو جاتی ہے۔
چناں چہ سیاہ سوراخ ہمیں نظر نہیں آتا۔ان کی موجودگی بھی محض نظریہ تھا۔مگر ستمبر2015ء میں ایک انقلاب آ گیا۔تب ماہرین نے دو سیاہ سوراخوں کے تصادم سے جنم لیتی ثقلی امواج کو شناخت کر لیا۔گویا یہ سچائی سامنے آ گئی کہ سیاہ سوراخ اور ثقلی امواج،دونوں وجود رکھتے ہیں۔یہ بہت بڑی دریافت ہے کیونکہ اب ثقلی امواج کی مدد سے سائنس داں کائنات کے غیر مرئی مظاہر کی چھان بین کر سکیں گے۔یوں انسان آخر کائنات کے دل کی دھڑکن سننے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
٭٭
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے خلا (Space) اور وقت (Time) ایک ہی چیز کے دورخ ہیں۔ چناںچہ نظریہ اضافیت میں کائنات کو ''خلائی وقت'' (Space Time) کا نام دیا گیا۔ یہ خلائی وقت کیا شے ہے' ماہرین مختلف انداز میں اس کی تشریح کر چکے۔ سادہ تشریح یہ ہے کہ خلائی وقت کو ایک عظیم الشان چادر سمجھیے جس میں کھربوں پدموں کہکشائیں ' ستارے' سیارے اور دیگر فلکیاتی اجسام سمائے ہوئے ہیں۔
نیوٹن کے قانون کی رو سے کش ثقل ایک قوت ہے۔ یہ قوت دو اشیاء کو ایک دوسرے کی جانب کھینچتی ہے۔ مگر نظریہ اضافیت کے دائرہ کار میں کشش ثقل کی ماہیت بدل جاتی ہے۔ جب کائنات میںکوئی ''سپر نووا'' (دیو ہیکل ستارہ جو دس ارب سورجوں کے برابر چمک رکھتا ہے) پھٹ جائے یا دو عظیم الشان سیاہ سوراخ آپس میں ٹکرائیں تو اس عمل سے مخصوص توانائی ثقلی امواج میں بدل کر خلائی وقت کی چادر میں لہروں کی صورت پھیل جاتی ہیں۔آپ کو علم ہو گا کہ خلا میں ہر شے محو حرکت ہے۔چناں چہ خلائی وقت کی چادر کے جس حصے میں یہ لہریں جنم لیں' وہاں موجود تمام فلکیاتی اجسام کی رفتار ان لہروں کے باعث بڑھ جاتی ہے۔ نظریہ اضافیت کی رو سے اسی عجوبے کا نام کشس ثقل ہے۔ گویا خلائی وقت میں مادہ (Matter) خلا کو بتاتا ہے کہ کس طرح لہریں پیدا ہوں گی ،جبکہ خلا مادے کو بتاتی ہے کہ کیونکر حرکت کرنی ہے۔
جب ثقلی امواج کی وجہ سے کوئی فلکیاتی جسم مثلاً ستارہ اپنی رفتار بڑھائے' تو وہ بھی ثقلی امواج خارج کرتا ہے۔ یہ لہریں اس سے پھوٹ کر چاروں طرف نکلتی ہیں، جیسے آپ ساکن تالات میں کوئی پتھر پھینکیں ' تو پانی کی لہریں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔ثقلی امواج کئی طریقوں سے جنم لیتی ہیں۔عام قاعدہ یہ ہے کہ مادی شے جتنی بھاری بھرکم اور عظیم ہو اور تیز رفتاری سے سفر کرے ' اس سے جنم لینے والی ثقلی امواج بھی اتنی ہی طاقت ور ہو ں گی۔چونکہ کمزور ثقل امواج زیادہ دور تک سفر نہیں کرتیں،ان کی شناخت بھی نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے' آئن سٹائن کی پیشن گوئی پوری ہونے میں ایک صدی لگ گئی۔
ہماری زمین اپنے ستارے،سورج کی کشش ثقل کے باعث حرکت کرتی اور سال میںایک مرتبہ اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ لیکن یہ حرکت بہت سست رفتار ہے' اس لیے وہ کمزور ثقلی امواج پیدا کرتی ہے۔ پھر زمین کا حجم بھی اتنا بھاری نہیں کہ وہ قابل شناخت ثقلی امواج جنم دے۔لیکن کوئی عظیم الشان ستارہ پھٹ پڑے یا دو قومی ہیکل فلکیاتی اجسام آپس میں ٹکرا جائیں' تو یہ حادثہ قابل شناخت ثقلی امواج کو جنم دیتا ہے... اور ایک ایسے ہی حادثے نے حضرت انسان کو ان امواج تک پہنچایا۔
ہوا یہ کہ امریکی شہر لیونگ سٹون میں واقع ''لیگو'' (The Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory)نامی رصد گاہ میں ماہرین طبیعیات ثقلی امواج پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ ثقلی امواج سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی تحقیقی رصد گاہ ہے۔ آخر دو سال قبل انہیں ایک سگنل ملا۔ اسی سگنل پہ طویل تحقیق سے منکشف ہوا کہ جب دو سیاہ سوراخ آپس میں ٹکرائے ' تو ان کی کثیر توانائی نے طاقتور ثقلی امواج پیدا کر دیں۔ یہ سگنل انہی ثقلی امواج کا تھا... یوں کائنات میں سیاہ سوراخ اور ثقلی امواج کی موجودگی ثابت ہو گئی۔
''لیگو'' سے منسلک طبیعیات دانوں کا کہنا ہے کہ ٹکرانے والے سیاہ سوراخوں میں سے ایک ہمارے سورج سے 36گنا جبکہ دوسرا 29 گنا زیادہ کمیت (mass) رکھتا تھا۔ جب وہ مدغم ہو ئے' تو ان کی کمیت 62گناہ زیادہ ہو گئی۔ لیکن یہ کمیت تو ''65'' گنا ہونی چاہیے تھی' بقیہ تین گنا کہاں گئی؟ دراصل وہ کمیت توانائی میں تبدیل ہو گئی یعنی ثقلی امواج کی توانائی جس کی مقدار معمولی نہیں ۔ دونوں سیاہ سوراخوں کے ٹکراؤ سے اتنی زیادہ توانائی خارج ہوئی جو ہمارا سورج ''پندرہ کھرب سال'' میں پیدا کرتا۔
ثقلی امواج کی دریافت سے روحانیت اور تصوف کو بھی تقویت پہنچی ہے۔ان دونوں شعبہ ہائے زندگی میں غیر مرئی لہریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔اب صوفی یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کا واسطہ کسی قسم کی غیرمرئی لہروں یا چیزوں سے پڑتا ہے جن کی اصل خیر ہوتی ہے یا شر بھی!
یہ دریافت اہم کیوں ؟
انسان زمانہ قدیم سے کائنات کے اسرار جاننے کی کھوج میں ہے۔ اسی تجسس کے باعث وہ کائنات کے متعلق بہت کچھ جان بھی چکا۔ اس کھوج کا اہم پہلو یہ ہے کہ بعض ماہرین مظاہر کائنات کے متعلق نظریات اپناتے ہیں، اور پھر دیگر ماہر ان نظریوں کو سچا یا چھوٹا ثابت کرنے کی خاطر تحقیق وتجربے کرتے ہیں۔ مثلاً ثقلی امواج کی موجودگی کا نظریہ آئن سٹائن نے پیش کیا تھا۔ اب ایک صدی بعد وہ درست ثابت ہوا۔
فلکیات و طبیعیات کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات 13 ارب 80 کروڑ سال پہلے وجود میں آئی۔ تب دنیا بھر کا سارا مادہ ایک نقطے میں پوشیدہ تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا، وہ نقطہ پھٹ پڑا اور اس سے مادہ نکل نکل کر چاروں طرف پھیلنے لگا۔ اس قدرتی مظہر کو ''بگ بینگ'' کہا گیا۔جدید سائنس اب تک دریافت نہیں کرسکی کہ نقطے سے نکلنے والے مادے کی نوعیت کیا تھی۔ تاہم اسی سے مادے کے بنیادی اجزا... زیر ایٹمی ذرات (Subatomic particles) نے جنم لیا۔ کائنات بھر میں نظر آنے والی ہر شے انہی زیر ایٹمی ذرات سے بنی ہے۔
ماہرین کے مطابق پچھلے تیرہ ارب اسی کروڑ سال میں کائنات اتنی زیادہ پھیل چکی کہ اس کی آخری حد ہماری زمین سے 46.50 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے، ایک نوری سال (Light-year) ہمارے چھ کھرب میل کے برابر ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا سفر کرنے والی روشنی ایک ارضی سال میں طے کرتی ہے۔ سورج کے علاوہ زمین سے نزدیک ترین ستارہ، پروکسیما سنچری ہم سے صرف 4.24 نوری سال دور ہے۔ مگر جدید ترین خلائی جہاز بھی اس تک پہنچنے میں تقریباً ''75 ہزار سال'' لگادے گا۔
کائنات کی ایک خامی یہ ہے کہ معین فاصلے کے بعد وہ مہم اور غیر شفاف ہوجاتی ہے۔ چناںچہ آگے کی اشیا دکھائی نہیں دیتیں۔ ان اشیا کی بابت جاننے کے لیے پہلے برق مقناطیسی لہروں وغیرہ سے مدد لی گئی۔ ایسے آلات ایجاد ہوئے جو ان لہروں کو شناخت کرسکیں۔ان لہروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ کسی سیاہ سوراخ سے ٹکرائیں، تو اس میں جذب ہوجاتی ہیں۔
اب ماہرین نے ثقلی امواج دریافت کرلی ہیں۔ چناں چہ یہ ممکن ہوچکا کہ ان حیرت انگیز اور فیصلہ کن فلکیاتی سرگرمیوں کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جائیں جو بگ بینگ کے وقت ظہور پذیر ہوئیں۔ وجہ یہ کہ ثقلی امواج مادے (مثلاً ہمارے جسم) سے گزر جاتی ہیں اور انہیں کوئی مادہ شے روک نہیں سکتی۔ اسی لیے وہ کائنات بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔یہ امواج بھی روشنی کی رفتار کے حساب سے کائنات میں سفر کرتی ہیں۔ یاد رہے، قدیم ترین فلکیاتی مظاہر جان کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات عظیم کیونکر پیدا ہوئی اور اس کا خالق کون ہے۔
ماہرین کو اب ایسے خصوصی آلات ایجاد کرنا ہوں گے جو ثقلی امواج میں پوشیدہ مختلف سگنل اور معلومات اخذ کرسکیں۔ یہ امواج ''سیاہ مادے'' اور ''سیاہ توانائی'' کے متعلق بھی ماہرین کو بہت کچھ بتاسکتی ہیں۔ یاد رہے، ہماری کائنات کا صرف ''4.90 فیصد'' ہمیں دکھائی دیتا ہے اور جسے ہم مادہ کہتے ہیں۔ اس کائنات کا ''68.30 فیصد'' حصہ سیاہ توانائی اور ''26.80 فیصد'' حصہ سیاہ مادے پر مشتمل ہے... اور یہ دونوں آخر الذکر حصے ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ گویا کائنات کا 95.70 فیصد انسان کی نظروں سے اوجھل ہے اور وہ اس کے متعلق بہت کم معلومات رکھتا ہے۔
ماہرین کی رو سے سیاہ مادہ کہکشاؤں کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ سیاہ توانائی کا کائنات کے پھیلاؤ میں اہم حصہ ہے۔ طبیعیات داں کہتے ہیں کہ جب بھی ان دو پُراسرار کائناتی مظاہر کی موجودگی کے متعلق ٹھوس شہادتیں ملیں، تو وہ لمحہ ثقلی امواج کی دریافت سے بھی زیادہ اہم ہوگا۔ گویا ابھی وسیع و عریض کائنات میں ایسے کئی اسرار موجود ہیں جن کا کھوج لگانے کے لیے انسانی تجسس بے چین و مضطرب ہے۔
پاکستانی سائنس داں بھی شامل رہے
ثقلی امواج کو دریافت کرنے کا منصوبہ عالمی نوعیت رکھتا تھا، اسی لیے اس سے دنیا بھر کے تقریباً ایک ہزار ماہرین طبیعات منسلک تھے۔ ان میں 37 بھارتی اور 2 پاکستانی بھی شامل تھے۔ یوں بنی نوع انسان کی مشترکہ سرگرمی سے ایک اہم سائنس دریافت ممکن ہوسکی۔ یہ سائنس کی ایک خوبی ہے کہ وہ مختلف الرائے انسانوں کو مشن کی خاطر متحد کردیتی ہے۔47 سالہ ڈاکٹر نرگس ماولوالہ اور 25 سالہ زیر تعلیم پی ایچ ڈی اسکالر، عمران خان منصوبے میں شریک دو پاکستانی تھے۔
کراچی میں جنم لینے والی ڈاکٹر نرگس جانی مانی فلکیاتی طبیعیات داں ہیں۔ دنیا کے عظیم ترین سائنسی تدریسی ادارے، ایم آئی ٹی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے دوران تعلیم ثقلی امواج شناخت کرنے کے لیے ایک لیزر انٹرفیرومیٹر ایجاد کیا تھا۔عمران خان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آپ فی الوقت اٹلی کے تعلیمی ادارے، گران ساسو سائنس انسٹیٹیوٹ کے شعبہ فلکیاتی طبیعیات سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بھی ثقلی امواج کی دریافت میں قابل قدر حصہ ڈالا۔