’’ٹائمنگ‘‘ اہم ہے
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی لہر نہ صرف تیز ہوگئی ہے بلکہ اس نے فرقہ وارانہ سنگینی بھی اختیار کرلی ہے۔
اب تو کوئی پردہ رہا نہ پردے والی بات ۔ چیف جسٹس نے عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران صاف کہہ دیا کہ کل ہمیں پتہ چل گیا کہ ہماری کتنی عزت ہوتی ہے۔
کیس کے وکیل نے کہا تھا کہ ہم عدالت کی عزت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے جواب میں '' کل'' کا لفظ شامل کر کے صاف بتا دیا کہ ان کا اشارہ آرمی چیف کے اُس بیان کی طرف ہے جس میں جنرل کیانی نے کہا تھا کہ کسی فرد یا ادارے کو تنہا ملکی مفاد کے تعین کا حق نہیں۔ گویا اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ ٹکرائو کی سی کیفیت ہے تو اُسے غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب سوال یہ ہے ٹکرائو آگے بڑھے گا یا نہیں؟ آگے بڑھے گا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ ٹکرائو کی سی فضا ضرور بن گئی۔ اسی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، حتمی فیصلے کا اختیار صرف سپریم کورٹ ہی کو ہے۔ ظاہر ہے، چیف جسٹس وکیل کو غلط فہمی دور کرنے کا نہیں کہہ رہے تھے، ان کا مخاطب کوئی اور تھا۔
منظر بہت انوکھا ہے۔ فوج کی طاقت کے سامنے بھاری مینڈیٹ بھی پانی کی طرح یوں خشک ہو جاتا ہے، کہ زمین پر نمی کا کوئی نشان بھی نہیں رہتا۔ بھاری مینڈیٹ میں تین ساڑھے تین سو ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ ہوتی ہے، پھر سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں بھی۔ عدالت تو محض ڈیڑھ دو درجن جج حضرات ہوتے ہیں جن کا کوئی حلقہ انتخاب بھی نہیں ہوتا۔ صرف آئینی اختیارات اور اسکی قابل احترام آئینی حیثیت ہی عدلیہ کو طاقتور بناتی ہے ورنہ مادی اسلحہ خانے میں سے تو اُس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ موجودہ عدلیہ کے طاقتور ہونے کا تاثر بہت گہرا ہے اور یہ طاقت اس نے صرف جنرل مشرف کو چیلنج کر کے حاصل نہیں کی۔ اِس کا سرچشمہ وہ بے مثال عوامی حمایت تھی جو عدلیہ کی تحریک کو ملی۔
سپریم کورٹ نے بحالی کے بعد عدالتی فعالیت کا ایک سلسلہ شروع کیا جسے آغاز میں تو ہر طرف سے پسند کیا گیا لیکن بعد میں کچھ اختلافی آوازیں بھی ابھرنا شروع ہوئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکمران پارٹی کے شکوے بھی بڑھتے گئے اور تحریک کے دنوں میں چیف جسٹس کے معتمد خصوصی اعتزاز احسن اور عدلیہ بحالی تحریک کی اہم رہنما عاصمہ جہانگیر نے بھی ان شکوئوں کی تائید کی کہ عدالت نے کئی مواقع پر تجاوز کیا ہے یا ایسا رویہ اختیار کیا ہے جو نہیں کرنا چاہئے تھا۔
حکومت این آر او کیس سے لے کر رینٹل پاورمعاملوں تک اور بلوچستان کی بدامنی سے لے کر کراچی کے حالات تک سپریم کورٹ کی فعالیت کی زد میں ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کے حوالے سے کئی ایسے کیس سنے جن سے فوج میں اضطراب پیدا ہوا۔ سرفہرست لاپتہ افراد کا معاملہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان افراد کی گمشدگی میں خفیہ اداروں کے کارندے ملوث ہیں لیکن ظاہر ہے کہ تمام افراد صرف ان اداروں نے لاپتہ نہیں کیے۔ کچھ دوسری غیر ریاستی تنظیموں کا بھی شکار ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کا کیس بھی انسانی حقوق کے معاملے سے جڑ گیا۔
ان دونوں کیسوں کی سماعت کے دوران دیے جانے والے تمام ریمارکس کی زد میں حکومت کم اور فوجی ادارے زیاد ہ آئے۔ اکبر بگٹی کے قتل کے حوالے سے بھی جو کیس زیرسماعت ہے، اسکی زد بھی فوج پر پڑی۔ معاملے نے سنجیدہ موڑ اس وقت لیا جب اصغر خاں کیس کا فیصلہ سامنے آیا۔ حکومت فیصلے سے بہت خوش تھی کہ اس کا نقصان اپوزیشن لیڈر نوازشریف کو ہوگا لیکن اصل زد کہیں اور پڑی تھی۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کے احتساب کی گونج اتنی بڑھی کہ تجزیہ نگاروں کے مطابق فوج کے حلقوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی اور تجزیہ نگاروں کی رپورٹ ہے کہ فوج کی صفوں پر دبائو ہی کے نتیجے میں جنرل کیانی کو ایسا بیان دینا پڑا جس نے سول دور حکومت میں '' اپنی مثال آپ'' کا نقشہ کھینچ دیا۔ اس معاملے کو بلوچستان کیس اور کراچی میں حالیہ ریمارکس سے بھی جوڑا جاسکتا ہے کیونکہ اِس سے پہلے اُن کی مثال کسی پی ایل ڈی میں ملتی ہے نہ ہی آئین کی کسی سطر میں نظر آتی ہے۔
بہت سے '' مثبت'' بیانات اور تجزیے بھی آ رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اداروں میں تصادم نہیں ہوگا، اس لیے بے فکر ہو جانا چاہیے۔ اچھی بات ہے ، بے فکر ہو جانے میں کوئی ہرج نہیں لیکن معاملے کے اِس پہلو پر غور کرنے کی لازمی طور پر ضرورت ہے کہ '' تصادم'' یا '' تنائو'' کی فضا کی '' ٹائمنگ'' کیا اور کتنی اہم ہے؟
ٹائمنگ یہ ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی مہم شروع کرنے والی ہیں بلکہ ایک حساب سے شروع کرچکی ہیں اور مزید '' ٹائمنگ'' یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی لہر نہ صرف تیز ہوگئی ہے بلکہ اس نے فرقہ وارانہ سنگینی بھی اختیار کرلی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کے بیان اور چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد معاملات انتخابات کی طرف جائیں گے یا کسی اور طرف؟ اور آرمی چیف کے نقطہ نظر کی سمت بالکل واضح ہے۔ جبکہ بلوچستان اور کراچی میں سپریم کورٹ کے اقدمات یا ریمارکس بہت ہی مختلف منظر نامے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔