حواس باختہ بیٹسمین کیسے میچز جتوائیں گے

مجھے ہارنے کی توقع تو تھی مگر اتنی شرمناک بیٹنگ کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا.


Saleem Khaliq February 28, 2016
مجھے ہارنے کی توقع تو تھی مگر اتنی شرمناک بیٹنگ کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا. فوٹو: اے ایف پی۔

''آج کا میچ کون جیتے گا'' آفس میں میرے ساتھی شہزاد مسعود نے جب مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا کہ ''دل چاہتا ہے پاکستان جیتے مگر دماغ کہتا ہے بھارت جیتے گا، ہماری ٹیم اتنی مضبوط نظر نہیں آتی، اس بات پر شہزاد تو چلا گیا مگر نیوز روم کے دیگر لوگ گھور کر دیکھنے لگے جو بیچارے یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ ''ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے''۔

سچی بات ہے کہ مجھے ہارنے کی توقع تو تھی مگر اتنی شرمناک بیٹنگ کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا،اب پی ایس ایل کو بھول کر ناقدین پھر نشتر لے کر بورڈ کے پیچھے پڑ جائیں گے، سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ نے جو تجربات کیے وہ بھی بیک فائر ہو گئے، یو اے ای کی آسان کنڈیشنز میں ایک سنچری کو دیکھ کر شرجیل خان کو اچانک اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا، اسی طرح خرم منظور جنھوں نے کبھی ٹوئنٹی 20انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی تھی، پی ایس ایل کی کسی ٹیم نے انھیں منتخب کرنا مناسب نہ سمجھا تھا مگر ہمارے سلیکٹرز نے نہ جانے کہاں سے ان کا چھپا ہوا ٹیلنٹ دیکھ لیا۔

ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، بھارت کیخلاف بڑے بڑے پلیئرز کھیلتے ہوئے گھبراتے ہیں، ڈیبیو پر کسی کا پُراعتماد نظر آنا کیسے ممکن ہوتا؟ اس کا جواب شاید چیف سلیکٹر ہی دے سکیں، چلیں خرم اور شرجیل تو نئے پلیئرز تھے، حفیظ، شعیب ملک، عمر اکمل اور شاہد آفریدی کو کیا ہو گیا تھا؟ ایک بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے کھلاڑی حواس باختہ دکھائی دیے، وہ ذہنی طور پر اس بڑے مقابلے کیلیے تیار ہی نہ تھے، بیٹسمین سخت دباؤ کا شکار تھے، ایسے میں 11 رکنی ٹیم مینجمنٹ پر سوالیہ نشان اٹھنا بالکل درست ہے، کم ازکم100رنز ہی بنا لیتے مگر ناکارہ بیٹنگ لائن سے ایسا بھی نہ ہو سکا۔

کیا اسی لیے انھیں ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں، وہ تو بھلا ہو عامر کا جنھوں نے عمدہ بولنگ سے شائقین کے کچھ آنسو پونچھ دیے، دوسرے اینڈ سے وکٹیں نہ ملنے سے پاکستان نے میچ میں واپسی کا چانس گنوا دیا، جب سمیع نے 2 وکٹیں لیں تو کہانی ختم ہو چکی تھی، ویسے سچی بات ہے جس طرح کی بیٹنگ ہوئی اس میں فتح کا سوچنا دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے، اگر اب بھی کوئی یہ امید رکھتا ہے کہ ٹیم ورلڈ ٹوئنٹی 20میں فتح حاصل کرے گی تو اس سے بڑی خوش فہمی کوئی ہو ہی نہیں سکتی، بورڈ حکام سپر لیگ سپر لیگ کرتے رہے اور ٹیم سپر فلاپ بن گئی۔

رینکنگ میں مسلسل تنزلی کا کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا، مشتاق احمد کروڑوں روپے لے کر کوئی اسپنر تیار نہ کر سکے تو اب اظہر محمود کو نوازنے کیلیے لے آیا گیا،وقار یونس کی کوچنگ میں قومی ٹیم کا تیا پانچا ہو گیا مگر کسی نے سوال نہ کیا البتہ وہ 18 لاکھ روپے ماہانہ کے حساب سے نوٹ کماتے رہے، اتنی رقم اگر بورڈ غریبوں میں تقسیم کر دیتا تو کسی کا کوئی بھلا تو ہوتا، اب کوچ کو علم ہے کہ ورلڈکپ کے بعد چھٹی ہو جائے گی اس لیے زیادہ سنجیدہ بھی نظر نہیں آتے۔

ان کی کوشش ہے کہ خاموشی سے رہا سہا وقت گذار کر اپنے دوسرے ملک آسٹریلیا چلے جائیں، قومی کرکٹ گذشتہ کئی برس سے وقار یونس، مشتاق احمد اور محمد اکرم وغیرہ کے گرد گھومتی رہی مگر انھوں نے بہتری کیلیے کچھ نہ کیا، چیف سلیکٹر ہارون رشید بھی بے تکے تجربات کے سوا کچھ نہ کر سکے، شہریارخان کو صرف غیرملکی دوروں میں ہی دلچسپی ہے، نجم سیٹھی پی ایس ایل میں مگن رہے مگر اب ان کی کامیابیاں بھی دھندلا جائیں گی، اماراتی ٹیم نے بھی سری لنکا کو خوب پریشان کیا تھا ہم تو اس سے بھی بدتر نظر آئے، آفریدی کی انفرادی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔

بھارت کیخلاف میچ سے قبل چیئرمین بورڈ کھلاڑیوں سے خطاب کرنے پہنچ گئے وہ اس سلسلے کو نجی یونیورسٹی تک ہی محدود رکھیں تو مناسب ہو گا، قومی ٹیم کو کوچز کے جم غفیر کی نہیں ماہر نفسیات کے مشوروں کی ضرورت ہے، اہم میچ میں جس طرح سب پریشان نظر آئے وہ حکام کیلیے لمحہ فکریہ ہے، کھلاڑی دباؤمیں آکر حواس باختہ ہو جاتے ہیں اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا، آپ کے پاس دنیا کا بہترین بولنگ اٹیک بھی ہو لیکن اگر بیٹسمین رنز نہ بنائیں تو میچز نہیں جیتے جا سکتے، بھارت کیخلاف اگر110رنز بھی اسکور ہو جاتے تو میچ کا نتیجہ مختلف آ سکتا تھا،83 رنز بنا کر کیسے جیت سکتے ہیں؟ مستقبل میں پاکستانی ٹیم کو اگر فتوحات حاصل کرنا ہیں تو بیٹنگ میں بہتری لانا ہوگی، گرانٹ فلاور بھی اپنا بینک بیلنس بڑھانے میں ہی مگن نظر آتے ہیں۔

اب بہت ہو چکا پی سی بی جس طرح بغیر کوچنگ کورسز کے برطانوی شہری اظہر محمود کو لایا اسی طرح اگر جاوید میانداد اور محسن خان جیسے سابق کرکٹرز کو مواقع دیے جائیں تو کیا غلط ہو گا، کیا ان کا جرم یہ ہے کہ پاکستان میں ہی رہے دوسرے ملک کی شہریت حاصل نہ کی، ویوین رچرڈز ، فلاوراور ان جیسے غیر ملکیوں کو سب بڑے بڑے معاوضے دینے کو تیار نظر آتے ہیں، مگر ان سے آدھی رقم پر اپنے سابق عظیم کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے، وجہ حکام کی ذاتی پسند ناپسند ہوتی ہے،شاید اسی نے ہماری کرکٹ کو اس حال پر پہنچا دیا، خیر اب پیر کا انتظار کریں، یو اے ای کیخلاف ہماری بیٹنگ یقیناً فارم میں واپس آ ہی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔