یہ مفادات کی جنگ ہے

روس نے کہا ہے کہ وہ جو بھی ممکن ہو گا وہ کرے گا کہ دمشق سیز فائر معاہدے کا احترام کرے


Zamrad Naqvi February 29, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

شامی بحران فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلے سال پیش گوئی کی تھی کہ نئے سال کی ابتدا میں اس بحران کے حوالے سے اہم ترین مہینے فروری مارچ ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا کہ 22 فروری کو واشنگٹن اور ماسکو نے شام میں جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا نفاذ 27 فروری سے ہو گیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے روسی صدر پیوٹن سے ٹیلیفون پر ایک موثر جنگ بندی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کا حصول اتنا آسان نہیں۔

روس نے کہا ہے کہ وہ جو بھی ممکن ہو گا وہ کرے گا کہ دمشق سیز فائر معاہدے کا احترام کرے۔ صدر پیوٹن نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھی اپنے اتحادیوں کو ایسا ہی کرنے کو کہے گا۔ روس اور امریکا نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ کی ذیلی شاخ النصرہ پر نہیں ہو گا۔ فروری کے شروع میں میونخ میں اعلی سطح کی ڈپلومیٹک کانفرنس میں سیز فائر کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس پر عمل درآمد میں ناکامی ہوئی۔

بہر حال شامی حکومت نے امریکا اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے کہا ہے کہ وہ داعش النصرہ اور گروپوں کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔ لیکن اس کے باوجود تجزیہ کار زیادہ پر امید نظر نہیں آتے کہ یہ جنگ بندی پائیدار ثابت ہو گی کیونکہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن دونوں طرف سے اس کی خلاف ورزی ہوئی۔ موجودہ جنگ بندی امریکا روس کی بھرپور ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں 5 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

لیکن اس تمام صورت حال کو شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی دوسرے انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ یہ جنگ بندی بشار حکومت کو فائدہ پہنچا سکتی ہے کیونکہ داعش اور النصرہ کے ساتھ لڑائی میں ان کے افراد بھی نشانہ بن سکتے ہیں جو ایک بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شامی فوجوں کو روس کے ہوائی حملوں کی حمایت حاصل ہے جو گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہوئے تھے۔

روس کا دعویٰ ہے کہ یہ ہوائی حملے صرف دہشت گردوں کے خلاف ہیں جب کہ مغربی میڈیا کا الزام ہے کہ اس سے سویلین ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ یہ روسی ہوائی حملے ہی ہیں جس نے شامی باغیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس کے نتیجے میں جنگ کا پانسہ شامی فوجوں کے حق میں پلٹ گیا ہے۔ ایک وقت ایسا آ گیا تھا کہ شامی باغیوں کے پے در پے حملوں کے نتیجے میں ایسا لگتا تھا کہ بشار حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ شامی باغیوں' داعش اور النصرہ کو امریکا' یورپ' سعودی عرب اور ترکی کی حمایت حاصل تھی۔

داعش کو خاص طور پر ایک ارب ڈالر سرمایہ امریکا اور یورپ نے مہیا کیے اس کے علاوہ ان کو جنگی سازو سامان' تربیت اور ہر طرح کی مدد فراہم کی گئی۔ اس طرح داعش نے موصل شہر کے ساتھ ساتھ تیل کے کنوؤں پر بھی قبضہ کر لیا جہاں سے روزانہ کئی ملین ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ اب داعش وہ دہشت گرد تنظیم ہے جس کی دولت پانچ ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ مغربی باوثوق ذرایع کہتے ہیں کہ موصل پر قبضہ پہلے سے طے شدہ پلان تھا۔

داعش نے جب موصل پر حملہ کیا تو اس کے جنگجوؤں کی تعداد صرف 8 سو تھی جب کہ موصل میں موجود فوج کی تعداد تیس ہزار تھی لیکن کوئی اشارہ ہوا اور اتنی بڑی فوج نے آناً فاناً بغیر لڑے موصل خالی کر دیا۔ اس پسپائی کے نتیجے میں جدید ترین اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ داعش کے ہاتھ لگا جس نے اس کی فوجی قوت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔

امریکا کا منصوبہ تھا کہ اس طرح داعش کو مضبوط کر کے بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کیا جائے لیکن ان کی سوچ میں تبدیلی آ گئی کیونکہ بے پناہ مالی و اسلحی امداد نے داعش النصرہ کی طاقت میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا اور اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا کہ مذہبی شدت پسند گروہ شام پر قبضہ نہ کر لیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکا کو شامی بحران کے حل میں روس اور ایران سے مدد لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

کہا جاتا ہے شام میں طویل عرصے سے آمریت ہے' انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں لیکن پورے مشرق وسطیٰ کا یہی حال ہے۔ کہیں آمریتیں ہیں تو کہیں بادشاہتیں کیونکہ یہ سامراجی مفادات کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے جب تک سامراجی مفادات ہیں وہاں جمہوریت آ سکتی ہے نہ آئے گی۔ پاکستان ہے تو جنوبی ایشیا کا حصہ لیکن اس کو زبردستی مشرق وسطیٰ کا حصہ بنا دیا گیا ہے' یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں کردار ادا کرنے کا کہا جاتا ہے۔

امریکا اگر اسرائیل کی حفاظت کے لیے بشار حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے تو مشرق وسطیٰ کی بادشاہتیں شام میں اپنے حامی برسراقتدار لانا چاہتی ہیں۔ لیکن اس حکمت عملی سے داعش جیسی تنظیمیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ مذہب کے ہتھیار کو مشرق وسطیٰ میں مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکا ہو یا عرب بادشاہتیں ان سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ یہ بہت طاقتور ہیں۔ امید نہیں کہ عوام یہ جنگ جیت سکیں۔ شاید ان کی قسمت میں ہمیشہ کی طرح ہار ہی لکھی ہے۔ ویسے بھی تاریخ نے اکثر' مظلوم قوتوں کے بجائے ظالم قوتوں کا ہی ساتھ دیا ہے۔

اگر مظلوم قوتوں کی جیت بھی ہوئی ہے تو وہ عارضی ثابت ہوئی۔ پاکستان کے حکمران طبقات ہوں یا عرب حکمران یا امریکا سب اپنے اپنے مفادات کے تحت کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں طالبان اور دیگر تنظیموں کو ہماری اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لیے پروان چڑھایا' یہ اب ہمارے لیے مسئلہ بن گئے ہیں۔ عرب حکمران اور امریکا شام کی حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے داعش کی مدد کرتے رہے لیکن اب داعش ان کے لیے بھی مسئلہ بن گئی ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ شام کا بحران دراصل مفادات کی جنگ ہے۔

شام کے مستقبل کے حوالے سے اس سال کا آخر اہم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں