سیاسی وراثت
وقت کے اس لمحے میں جب آپ اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں تو دو چیزیں بڑی اہم ہیں
BANGKOK:
وقت کے اس لمحے میں جب آپ اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں تو دو چیزیں بڑی اہم ہیں۔ آپ خود اور یہ اخبار۔ ایک جیتا جاگتا انسان اور دوسری ایک چیز۔ دونوں فانی ہیں اور ایک دن دونوں ختم ہوجائیں گے۔ آپ کے آس پاس بھی دونوں چیزیں ہیں۔ اگر آپ دفتر میں ہیں تو قلم، ڈائری، وزٹنگ کارڈ کے علاوہ آپ کے اسٹاف کے لوگ آپ کے قریب ہیں۔ اگر آپ گھر پر ہیں تو بستر، کرسی اور پنکھے کے علاوہ آپ کے پیارے آپ کے نزدیک ہیں۔ فانی انسان اور فانی چیزیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کون ختم ہوگا؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ ممکن ہے کالم پورا نہ پڑھا جاسکے اور فرشتہ آجائے۔ گھبرائیے نہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے اور وہ کبھی بھی آسکتی ہے۔ اگر چیز ختم ہو جائے تو دوسری لائی جاتی ہے۔ جیسے قلم، کاغذ، کیلنڈر، ٹشو پیپر۔ اگر انسان پہلے ختم ہوجائے تو پھر وہ چیز کس کی ہوگی؟ یہ کالم کا سب سے اہم سوال ہے۔ اسی کو وراثت کہتے ہیں کہ انسان تو ختم ہوگیا لیکن اس کی تخلیق کردہ یا اس کی ملکیت والی شے باقی ہے تو یہ کس کو ملے گی؟
وراثت سے عورت کو محروم رکھا جاتا ہے۔ کمزور طبقے سے طاقتور طبقہ چیزیں چھین لیتا ہے۔ دونوں باتوں میں ایک بات غلط ہے۔ عورت کو آج بھی وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ درجنوں لوگ قانونی مشورہ لیتے وقت کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بہن کی شادی کردی تو اب اسے کیا دینا۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے یا قبیلے میں عورت کو وراثت دینے کا رواج نہیں۔ دو زیادتیاں اس حوالے سے کی جاتی ہیں۔
بے جوڑ شادیاں اور قرآن سے شادی۔ بچے کی ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی یا بوڑھے سے کسی بچی کی شادی۔ خاندان میں اگر یہ صورت بھی نہ بنتی ہو تو قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔ زمینداروں اور جاگیرداروں میں اس کا مقصد اپنی جائیداد اپنے خاندان میں رکھنا ہوتا ہے۔ شہری علاقوں میں دکانوں اور کارخانوں کے علاوہ بنگلے اس انداز سے قائم کیے جاتے ہیں، کیش رقم بچتی ہی نہیں ہے۔ انتقال کے وقت جائیدادوں پر بیٹوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ یوں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کی جو بنیاد باپ نے ڈالی ہوتی ہے اسے بیٹے اپنی بہنوں کو محروم رکھ کر پوری کرتے ہیں۔
خوب صورت جملے کے بعد کالم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ''اسلام تو عورت کو وراثت کا حق دیتا ہے لیکن مسلمان نہیں دیتا۔'' کارخانوں، بنگلوں اور دیگر جائیدادوں کے علاوہ بھی انسان اپنی محنت سے کچھ بناتا ہے۔ ایجاد و تخلیق اور اپنی دانشوری سے کچھ چھوڑ جاتا ہے۔ اس صورت میں حق مارنا مشکل ہوتا ہے لیکن آنکھوں سے سرمہ چرا لینے کی صلاحیت رکھنے والے فنکار یا فنکارائیں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک پولیس افسر کے انتقال کے بعد اس کی شادی شدہ بہن نے رقم اور پنشن پر قبضہ کرلیا۔ اب بیوہ فریادی بن کر عدالتوں اور دفتروں میں دہائی دے رہی ہے۔ مسئلہ مرد و عورت کا نہیں بلکہ طاقتور اور کمزور کا ہے۔
''سیاسی وراثت'' کو کالم کا عنوان دے کر بات کچھ اور کی جا رہی ہے۔ ملکی معاملات میں گہری دلچسپی رکھنے والوں کو ممکن ہے اس سماجی بات سے الجھن ہوئی ہے۔ ہم نے طے کیا کہ وراثت ہوتی کیا ہے اور کس طرح طاقتور طبقات کمزور طبقات کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ زمین، مکان، دکان، کارخانے، بینک بیلنس، پنشن و گریجویٹی کے علاوہ تحقیقات و دانشوری اور ایجاد کو بھی ہم وراثت قرار دے سکتے ہیں۔ سلسلہ یہاں تک نہیں رک رہا۔ ایک سیاسی وراثت بھی ہوتی ہے۔ مقبولیت یعنی عوام کی چاہت اور کسی شخصیت پر اعتماد کا اظہار اور پھر حکومت سازی۔ یوں کوئی بھی ہر دلعزیز انسان دو راستوں میں سے ایک راستہ چنتا ہے۔ اسے طے کرنا ہوتا ہے کہ عوامی چاہت کی یہ ملکیت کس کو وراثت کی شکل میں سونپی جائے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کے حوالے سے ہونے والا سروے ہمارے آج کے کالم کی بنیاد ہے۔ آٹھ پارٹیوں میں انتخابی نظام اور وراثت کے حوالے سے ''پلڈاٹ'' کی رپورٹ کو چشم کشا تو نہیں کہا جاسکتا۔ اس سروے نے آنکھیں تو نہیں کھولیں کہ دیکھتی آنکھیں یہی کچھ دیکھ رہی تھیں۔ صرف یہ ہوا ہے کہ جو کچھ دیکھ رہے تھے اس پر مہر ثبت ہوگئی۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ جماعت اسلامی اپنے جمہوری نظام اور ہر مرحلے پر انتخابات کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ یہ بھی طے تھا کہ نواز شریف کی مسلم لیگ نچلے نمبروں پر ہوگی۔ تحریک انصاف نے تیسرا نمبر پایا ہے۔ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علما اسلام کا چھٹا اور ساتواں نمبر ہے۔ نیشنل پارٹی دوسرے اور اسفند یار ولی کی اے این پی چوتھے نمبر پر رہیں۔
جماعت اسلامی کو شاید پہلا نمبر اس لیے دیا گیا ہو کہ اس کے تمام قائدین کا ایک دوسرے سے کہیں سے کوئی رشتہ ہی قائم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حیدرآباد دکن کے مولانا مودودی کہاں اور مشرقی پنجاب کے میاں طفیل محمد کہاں۔ قاضی حسین احمد جیسے مرد کوہستانی اور منور حسن جیسے بندہ صحرائی اور خیبرپختونخوا کے سراج الحق کا نظریاتی رشتے کے علاوہ کوئی رشتہ کہیں سے ثابت نہیں ہو رہا۔ دنیا کا انوکھا انتخابی نظام جو ہمیں تین سو سالہ جمہوریت میں کسی سیاسی پارٹی میں دکھائی نہیں دے رہا۔
پچیس تیس ہزار لوگوں کی انتخابی فہرست ہو اور صرف ناظم انتخاب کا تقرر کردیا جائے۔ وہ تمام لوگوں کو بیلٹ پیپر بھجوا کر نتیجے کا اعلان کردے۔ نہ کوئی امیدوار اور نہ کوئی انتخابی مہم، نہ کامیابی کا جشن نہ وکٹری کا نشان۔ نہ جیت پر بھنگڑا اور نہ ہار پر دھاندلی کا الزام۔ غوث بخش بزنجو کے صاحبزادوں نے وراثت کا لیبل ہونے کے باوجود نیشنل پارٹی میں جمہوری روایات پروان چڑھا کر دوسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف اپنے کارکنان کی تربیت نہ ہونے کے باوجود الیکشن کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مقبولیت، کرشماتی شخصیت، اور خلوص کے ساتھ ساتھ تربیتی نشستیں ہوں تو عمران خان ایک اچھا سیاسی ورثہ دے سکتے ہیں پاکستانی سیاست کو۔ ولی خان اور مفتی محمود کے بیٹوں کی عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کو کم جمہوری قرار دیا گیا ہے۔ مخلص کارکنوں اور نظریاتی بنیاد ہونے کے باوجود دونوں پارٹیوں کی یہ خامی حیران کن ہے۔ ایم کیو ایم کی پوری تنظیم اپنے قائد کے گرد گھومتی ہے۔ تربیت یافتہ کارکنان منظم سیٹ اپ کے علاوہ فکری نشستوں و لٹریچر کا مطالعہ انھیں جماعت اسلامی سے قریب تر کرتا ہے۔ انتخابات کا نہ ہونا اور رابطہ کمیٹی میں نامزدگیوں نے ایم کیو ایم کو جمہوری مزاج کی پارٹی ہونے میں نچلے نمبروں پر رکھا ہے۔
شادی کے لیے اٹھارہ سالہ لڑکی کا ایم اے پاس ہونا ایک بیوقوفی کی سی شرط ہے لیکن مقبول پارٹیوں کا جمہوری ہونا ایک جائز مطالبہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس وقت المیے سے دوچار ہوگی جب بلاول کی زیر صدارت اجلاس میں اعتزاز احسن، قمرالزماں کائرہ اور رضا ربانی جیسے پڑھے لکھے مخلص اور قربانیاں دینے والے سر جھکائے بیٹھے ہوں گے۔ اس المیے کی انتہا تب ہوگی جب ہمارے سامنے دوسری تصویر آئے گی۔
حمزہ شہباز یا مریم صفدر کی سرکردگی میں چوہدری نثار، پرویز رشید اور احسن اقبال جیسے قابل، تجربے کار اور ہنرمندوں کو ہاتھ باندھے دیکھا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ یہ دور جہالت آج بھی جاری ہے۔ سماجی و سیاسی سطح پر۔ خدا کرے کہ پاکستان میں روشن دور آئے۔ ہم کہہ سکیں کہ بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے پاکستانی سیاست کا دور جہالت تھا۔ جی ہاں کبھی تھا۔اس زمانے میں قابل، پڑھے لکھے اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو پارٹی قیادت کا منصب نہیں سونپا جاتا تھا کہ جمہوری بادشاہوں کے اس دور میں رواج تھا سیاسی وراثت کا۔