وفاق سے خیبر پختون خوا کے لیے خوشی کی دو خبریں

دھرنے کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ وفاق نے صوبے کو وہ فائدہ نہیں دیا

یہ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے جب خیبر پختون خوا میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا ،جس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور جس میں اکثریت خیبرپختون خوا سے تعلق رکھتی تھی۔

دھرنے میں صوبائی حکومت بھی شامل ہو گئی اور نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہ سبھی وزیر روزانہ کی بنیاد پر دھرنے کی شان بڑھاتے، اس وقت چند مدبر سیاست دانوں کا خیال تھا کہ اس دھرنے میں کارکن بھلے شریک ہوں لیکن حکومت میں شامل وزیروں اور مشیروں کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے تاکہ صوبے کے معاملات چلتے رہیں اور وفاق کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے، اس بارے میں وزیر اعلیٰ اور حکومتی شخصیات کا مؤقف مختلف رہا کہ وہ دھرنا بھی دیں گے اور حکومت بھی چلائیں گے، دوسری طرف مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیا اور حکومتی کاروبار چلانے میں ان کے وزیر مصروف رہے۔

دھرنے کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ وفاق نے صوبے کو وہ فائدہ نہیں دیا جس کا یہ حقدار تھا چنانچہ بہت سے معاملات ایسے تھے جن پر دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا، جس کی ایک بڑی مثال پاک چائنہ اکنامک کوریڈور ہے جس سے متعلق وفاق اور صوبہ خیبر پختون خوا کا مؤقف قطعی مختلف تھا۔پرویز خٹک نے جب یہ معاملہ انتہائی شد و مد کے ساتھ اٹھایا تو وفاق کو بیک فٹ پر جانا پڑا۔

صوبائی حکومت کے تحفظات کو بغیر کسی دھرنے کے وفاقی حکومت نے تسلیم بھی کیا اور پھر اپنے وزیر کو پشاور بھیجا جس نے اقتصادی راہداری سے متعلق صوبائی حکومت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جب وہ کامیاب نہ ہوئے تو خود وزیر اعظم نے سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا اور مغربی روٹ سے متعلق ان کا مؤقف تسلیم کیا جس کے بعد یہ تنازع خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔

اسلام آباد میں دھرنے اور اقتصادی راہداری سے متعلق عوامی رائے یہ ہے کہ سیاسی مسائل کو باہمی افہام و تفہیم اور سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر حل کیا جا سکتا ہے جس پر ہر دو فریق لائق ستائش قرار پاسکتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں فریقوں یعنی وفاق اور صوبے نے بالآخر ان تصفیہ طلب مسائل پر مل بیٹھ کر ان کا حل ڈھونڈ نکالا ہے اور پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے بعد بڑی خوش خبری جو خیبر پختون خوا کے عوام کو ملی ہے وہ کئی دہائیوں سے تصفیہ طلب مسائل کو باہمی رضامندی سے حل کرنا ہے۔ان امور میں بجلی کے خالص منافع کی رقم، گیس کی فراہمی اور دیگر معاملات شامل تھے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے ان اہم ترین معاملات پر بات چیت کے لیے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، صوبائی وزراء سکندر خان شیرپاؤ، عنایت اللہ، انیسہ زیب طاہر خیلی، وزیر خزانہ مظفر سید اور وزیر تعلیم محمد عاطف کے علاوہ صوبائی چیف سیکریٹری اور متعدد صوبائی سیکریٹریز شامل تھے۔وفاقی حکومت کی نمایندگی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر توانائی خواجہ آصف اور متعلقہ اداروں کے سربراہان نے کی۔


اس سلسلہ میں ایک معاہدے پر بھی وفاق اور صوبائی حکومت نے دستخط کیے ہیں جس کے مطابق وفاق بجلی کے خالص منافع کے 70 ارب روپے صوبائی حکومت کو ادا کرے گا، یہ مسئلہ ایک طویل عرصے سے حل طلب تھا، صوبائی حکومت اور واپڈا کے درمیان عدالتی جنگ بھی رہی تاہم اب واپڈا پہلے مرحلے میں 25 ارب روپے رواں مالی سال جب کہ باقی ماندہ رقم جلد ہی تین مساوی اقساط میں صوبے کو ادا کر دے گا۔

یوں وفاق کی رضامندی سے صوبے کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے جس پر بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت میں شامل جماعت اسلامی و قومی وطن پارٹی مبارکباد کی مستحق ہے۔ایک اور معاملہ جو طے پایا وہ پیہور ہائیڈل پاور اسٹیشن سے پیدا ہونے والی بجلی کی خریداری سے متعلق تھا اس پر دستخط اگلے ماہ ہوں گے اور اس کے لیے وفاق اور صوبہ دونوں فنڈز مہیا کریں گے۔

وفاقی حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے لیے صوبے کو گیس فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے جس کے لیے ایک سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس صوبے کو ملے گی۔وفاق نے چشمہ رائیٹ بینک لفٹ ایری گیشن اسکیم کے لیے دوبارہ فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے پر بھی اتفاق کر لیا ہے جس کے نتیجہ میں تین ہزار ایکڑسے زیادہ بنجر اراضی کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔عام انتخابات اور پھر حکومتوں کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب وفاق اور خیبر پختون خوا شیر و شکر دکھائی دیے، پرویز خٹک نے یہ کہہ کر تو کمال کر دیا کہ اگر سیاست دانوں کی نیت صاف ہو تو وہ کسی بھی مسئلہ کو بخوبی حل کر سکتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے اور اس سے قطع نظر کہ سیاسی نظریات جو بھی ہوں عوام کے مفادات کے لیے ایک میز پر بیٹھنے سے بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہو جاتی ہیں۔تصفیہ طلب مسائل کے حل کے بعد دوسری خوش خبری اقبال ظفر جھگڑا کو صوبے کا نیا گورنر نامزد کرنے کی صورت ملی ہے، غالب امکان ہے کہ وہ رواں ہفتے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں گے۔

موجودہ وفاقی حکومت کے قیام کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ انھیں صوبے کا گورنر بنایا جائے گا ایک مرحلے پر ان کا نام فائنل بھی کر لیا گیا تھا لیکن بعد میں قرعہ سردار مہتاب احمد خان کے نام نکلا جنہوں نے کچھ عرصہ قبل گورنری چھوڑ کر پارلیمانی سیاست کو ترجیح دی ہے، ان کے بارے میں کہاجا رہا ہے کہ وہ سینیٹر بنیں گے اور پھر چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کریں گے ایسے میں وزیر اعظم نواز شریف کی نظر اپنی پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور مشکل وقت کے معتمد ساتھی اقبال ظفر جھگڑا پر پڑی ہے۔

مارچ 2015 میں اقبال ظفر جھگڑا نے اسلام آباد سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیا اور سینیٹر بنے ۔جب گورنری نہ ملی تو انھوں نے احتجاج یا ناراضگی کا اظہار کیے بغیر اپنے قائد کا ساتھ نہیں چھوڑا اور قائد نے انھیں سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا اس کے باوجود ان کے چاہنے والوں کی خواہش تھی کہ وہ صوبے کے گورنر بنیں اس کی وجہ ان کی قبائلی امور پر گہری نظر بھی ہے، قبائل کے مسائل سے وہ بخوبی آشنا اور ان کے مسائل کے حل کے لیے دردمند دل رکھتے ہیں، ایک معتبر سیاست دان کے طور پر قبائل نے بھی بطور گورنر ان کی نامزدگی کا خیر مقدم کیا ہے، گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سردار مہتاب احمد خان نے دن رات قبائل کی ترقی اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے انھیں آگے بڑھانے کے لیے اقبال ظفر جھگڑا بہترین انتخاب قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ان کا سیاسی کیرئر بھی خاصا شاندار رہا ہے، 1988 سے انھوں نے عملی سیاست کا مسلم لیگ ن سے آغاز کیا اور تب سے اس جماعت کا مستقل حصہ رہے ہیں۔اس صوبے کی گورنری کبھی آسان نہیں رہی اور خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب آخری مراحل میں ہے، لاکھوں قبائل کی آبادکاری ،فاٹا اصلاحات اور پھر یہ فیصلہ کرنا کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے یا فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے،تواس تناظرمیں نئے گورنر کے لیے بڑے چیلنجز ہوں گے ۔
Load Next Story