’بھائی ٹینشن بہت ہے‘
صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ کسی کو بھی روک کردو گھڑی باتیں کریں وہ اگلے ہی لمحے یہی کہے گا کہ ’بھائی ٹینشن بہت ہے‘
میرے پاس اگر 50 مریض آتے ہیں تو ان میں سے 40 کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ انہیں ایسی گولی لکھ کر دوں جسے کھا کر وہ پرسکون رہیں، ان میں جو چڑچڑا پن رہتا ہے وہ ختم ہوجائے اور بات بات پر غصہ بھی نہ آئے۔ اس کے ساتھ وہ یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ وہ نیند کے لئے فلاں فلاں گولیاں بھی لیتے رہے ہیں، لیکن اب وہ بھی بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ گولیاں کس ڈاکٹر نے لکھ کر دی تو یہ سن کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ میڈیکل اسٹور پر گئے اور کہا کہ نیند کی کوئی گولی دے دیں، اس اسٹور والے نے ایک پتا نکال کر دے دیا اور انہوں نے سونے سے پہلے روزانہ کی بنیاد پر اس کا استعمال شروع کردیا۔ پہلے جہاں آدھی گولی سے نیند لیتے تھے اب 24 گھنٹوں میں دو گولیاں کھا کر بھی طبیعت بے سکون رہتی ہے۔
وہ مرکزی اسپتال میں شعبہ سائیکالوجی کے مرکزی عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ شام میں ایک نجی کلینک میں بھی خدمات دیتا تھا۔ اس کا یہ کلینک شہر کے پوش علاقے میں واقع ایک کوٹھی میں قائم تھا جہاں شام ڈھلتے ہی رش شروع ہوجایا کرتا ہے۔ قطار میں ایسے لوگ بھی کھڑے ہوتے جو بڑی بڑی گاڑیاں میں آتے جن میں سے بعض پر تو سرکاری نمبر پلیٹ بھی واضح طور پر نظر آرہی ہوتی۔ صرف ایسے ہی افراد نہیں بلکہ قطار میں تو تمام ہی طبقے کے افراد شامل ہیں، چاہے رکشے والا ہو، چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں ہر طرح کی آسودگی سے بھرپور زندگی گزارنے والا سیاست دان یا صنعت کار ہو جس کی تجارت ملکوں ملکوں پھیل کر اس کے اثاثہ جات میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
اکثریت سکون آور ادویات کے اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ اب انہیں خود بھی سمجھ نہیں آتا کہ سکون کی تلاش میں انہوں نے کس طرح کا زہر اپنے خون میں اتار لیا ہے۔ آپ گھر سے باہر نکلیں اور گلی یا سڑک پر کچھ دیر کھڑے ہو کر لوگوں کے رویوں پر غور کریں، ہر دوسرا شخص آپ کو بوکھلایا ہوا دکھائی دے گا۔ بے سکونی اور جلد بازی اس کے چہرے پر نمایاں ہوگی، ہارن کا مسلسل اور غیر ضروری استعمال ان کی ذہنی کیفیت کو بیان کررہا ہوگا، کسی کو بھی روک کر دو گھڑی باتیں کریں وہ اگلے ہی لمحے یہی کہے گا کہ ''بھائی ٹینشن بہت ہے''۔
گھر میں داخل ہوتے ہی فشارِ خون اپنی بلندیوں کو چھو رہا ہوگا اور یوں گھر کے سبھی افراد ایک ان دیکھے دباؤ میں آجائیں گے، دفاتر کا ماحول آپ کے سامنے ہے، ہر دس منٹ بعد چائے آرہی ہے تاکہ کام کا دباؤ سستی پیدا نہ کرے۔ وہ فائل جو ایک گھنٹے میں مکمل ہوسکتی ہے وہ کئی کئی دن ہر اہلکار کی میز پر پڑی رہتی ہے، کسی کا دل ہی کام کرنے کو نہیں کرتا اور ہر گھنٹہ گزرنے کے بعد ان فائلز کے ڈھیر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کوئی فریادی نذر نیاز کرتا ہوا مطلوبہ وزیر تک جا بھی پہنچے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ بھائی پہلے ہی ٹینشن بہت ہے، تم مزید ٹینشن لیکر آگئے ہو، کوئی مظلوم تھانے جا پہنچے اور نذر نیاز کے بعد درخواست تھانیدار صاحب کے ہاں جمع بھی کروا دے اور ہر دوسرے تیسرے دن فالو اپ کے لئے چکر لگائے تو تھانیدار بھی زچ ہوکر یہی کہتا ہے ''اوئے پہلے بڑی ٹینشن اے تو روز منہ چک کے آجاندا ایں''۔
ہم سب نے ماحول سے اتنی ٹینشن کشید کرکے ہر طرح کے دباؤ سے نکلنے کا ایک آسان سا حل خود تشخیصی سے ہی نکال لیا ہے اور وہ ہے ایسی ادویات اور منشیات کا زیادہ استعمال، جو کچھ گھنٹے سکون تو طاری کردیتی ہے لیکن ایسی ادویات اور منشیات کا استعمال کرنے والے اُن کے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اُن کے اجزاء ہمارے خون میں شامل ہوکر ہمارے قدرتی نظام مدافعت کو اسطرح تباہ کردیتے ہیں کہ ہم مزید بے سکونی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اندر بہت سے خوف پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو ہمارے ارادوں اور فیصلوں کو کمزور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری اپنی طاقت، قابلیت اور صلاحیت کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ ذہنی بیماریوں کی نوعیت اور علاج جسمانی بیماریوں کی نوعیت و علاج سے مختلف ہے۔ ایسی ادویات مخصوص حالات کے تحت ایک ماہر نفسیات یا ذہنی بیماریوں کا معالج ہی اپنے مریض کا بھرپور معائنہ کے بعد عارضی طور پر تجویز کرسکتا ہے۔
بڑے تو بڑے، بچوں کو بھی ہم نے ان کا عادی بنادیا ہے۔ والدین کی جانب سے ہر معالج سے التجا کی جارہی ہوتی ہے کہ بخار اور کھانسی کی وجہ سے بچہ ساری رات کھانستا رہتا ہے کوئی سیرپ ہی لکھ دیں تاکہ خود بھی سکون سے سو سکے اور ہمیں بھی سونے دے اور ڈاکٹر کو بھی علم ہوتا ہے کہ میں نہیں لکھوں گا تو یہ اگلی بار میرے پاس نہیں آئے گا۔
تمام ادویات بیماریوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہوتی ہیں اور آج اسپتال میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، معالج کے جہازی سائز رائٹنگ پیڈ کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں ملے گا۔ وہ ہر طرح کا ''اسلحہ'' استعمال کر رہا ہے کہ کوئی ایک تو مرض پر ''ٹھاہ'' کرکے لگ ہی جائے گا اور اس کے ساتھ ان میں سکون آور ''کارتوس'' بھی ڈال دیتا ہے۔
حقیقت میں یہ ایک ایسا جرم ہے جسے آج تک جرم سمجھا ہی نہیں گیا، ادارے موجود ہیں، قوانین موجود ہیں مگر سب اپنی اپنی ٹینشن میں اندھے، لنگڑے اور گونگے بنے اپنی ملازمت کا دورانیہ گزارنے کو ہی مقصد حیات بنائے بیٹھے ہیں۔ ان سب عوامل نے مل کر ایک ایسا ٹینشن زدہ معاشرہ تخلیق کردیا ہے کہ ماضی میں جس عمر کے بچوں کو ٹینشن لفظ کے بارے میں بھی علم نہیں ہوا کرتا تھا، بدقسمتی سے آج وہ خود اُس ٹینشن کا شکار ہوگئے ہیں۔
[poll id="986"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وہ مرکزی اسپتال میں شعبہ سائیکالوجی کے مرکزی عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ شام میں ایک نجی کلینک میں بھی خدمات دیتا تھا۔ اس کا یہ کلینک شہر کے پوش علاقے میں واقع ایک کوٹھی میں قائم تھا جہاں شام ڈھلتے ہی رش شروع ہوجایا کرتا ہے۔ قطار میں ایسے لوگ بھی کھڑے ہوتے جو بڑی بڑی گاڑیاں میں آتے جن میں سے بعض پر تو سرکاری نمبر پلیٹ بھی واضح طور پر نظر آرہی ہوتی۔ صرف ایسے ہی افراد نہیں بلکہ قطار میں تو تمام ہی طبقے کے افراد شامل ہیں، چاہے رکشے والا ہو، چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں ہر طرح کی آسودگی سے بھرپور زندگی گزارنے والا سیاست دان یا صنعت کار ہو جس کی تجارت ملکوں ملکوں پھیل کر اس کے اثاثہ جات میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
اکثریت سکون آور ادویات کے اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ اب انہیں خود بھی سمجھ نہیں آتا کہ سکون کی تلاش میں انہوں نے کس طرح کا زہر اپنے خون میں اتار لیا ہے۔ آپ گھر سے باہر نکلیں اور گلی یا سڑک پر کچھ دیر کھڑے ہو کر لوگوں کے رویوں پر غور کریں، ہر دوسرا شخص آپ کو بوکھلایا ہوا دکھائی دے گا۔ بے سکونی اور جلد بازی اس کے چہرے پر نمایاں ہوگی، ہارن کا مسلسل اور غیر ضروری استعمال ان کی ذہنی کیفیت کو بیان کررہا ہوگا، کسی کو بھی روک کر دو گھڑی باتیں کریں وہ اگلے ہی لمحے یہی کہے گا کہ ''بھائی ٹینشن بہت ہے''۔
گھر میں داخل ہوتے ہی فشارِ خون اپنی بلندیوں کو چھو رہا ہوگا اور یوں گھر کے سبھی افراد ایک ان دیکھے دباؤ میں آجائیں گے، دفاتر کا ماحول آپ کے سامنے ہے، ہر دس منٹ بعد چائے آرہی ہے تاکہ کام کا دباؤ سستی پیدا نہ کرے۔ وہ فائل جو ایک گھنٹے میں مکمل ہوسکتی ہے وہ کئی کئی دن ہر اہلکار کی میز پر پڑی رہتی ہے، کسی کا دل ہی کام کرنے کو نہیں کرتا اور ہر گھنٹہ گزرنے کے بعد ان فائلز کے ڈھیر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کوئی فریادی نذر نیاز کرتا ہوا مطلوبہ وزیر تک جا بھی پہنچے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ بھائی پہلے ہی ٹینشن بہت ہے، تم مزید ٹینشن لیکر آگئے ہو، کوئی مظلوم تھانے جا پہنچے اور نذر نیاز کے بعد درخواست تھانیدار صاحب کے ہاں جمع بھی کروا دے اور ہر دوسرے تیسرے دن فالو اپ کے لئے چکر لگائے تو تھانیدار بھی زچ ہوکر یہی کہتا ہے ''اوئے پہلے بڑی ٹینشن اے تو روز منہ چک کے آجاندا ایں''۔
ہم سب نے ماحول سے اتنی ٹینشن کشید کرکے ہر طرح کے دباؤ سے نکلنے کا ایک آسان سا حل خود تشخیصی سے ہی نکال لیا ہے اور وہ ہے ایسی ادویات اور منشیات کا زیادہ استعمال، جو کچھ گھنٹے سکون تو طاری کردیتی ہے لیکن ایسی ادویات اور منشیات کا استعمال کرنے والے اُن کے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اُن کے اجزاء ہمارے خون میں شامل ہوکر ہمارے قدرتی نظام مدافعت کو اسطرح تباہ کردیتے ہیں کہ ہم مزید بے سکونی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اندر بہت سے خوف پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو ہمارے ارادوں اور فیصلوں کو کمزور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری اپنی طاقت، قابلیت اور صلاحیت کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ ذہنی بیماریوں کی نوعیت اور علاج جسمانی بیماریوں کی نوعیت و علاج سے مختلف ہے۔ ایسی ادویات مخصوص حالات کے تحت ایک ماہر نفسیات یا ذہنی بیماریوں کا معالج ہی اپنے مریض کا بھرپور معائنہ کے بعد عارضی طور پر تجویز کرسکتا ہے۔
بڑے تو بڑے، بچوں کو بھی ہم نے ان کا عادی بنادیا ہے۔ والدین کی جانب سے ہر معالج سے التجا کی جارہی ہوتی ہے کہ بخار اور کھانسی کی وجہ سے بچہ ساری رات کھانستا رہتا ہے کوئی سیرپ ہی لکھ دیں تاکہ خود بھی سکون سے سو سکے اور ہمیں بھی سونے دے اور ڈاکٹر کو بھی علم ہوتا ہے کہ میں نہیں لکھوں گا تو یہ اگلی بار میرے پاس نہیں آئے گا۔
تمام ادویات بیماریوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہوتی ہیں اور آج اسپتال میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، معالج کے جہازی سائز رائٹنگ پیڈ کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں ملے گا۔ وہ ہر طرح کا ''اسلحہ'' استعمال کر رہا ہے کہ کوئی ایک تو مرض پر ''ٹھاہ'' کرکے لگ ہی جائے گا اور اس کے ساتھ ان میں سکون آور ''کارتوس'' بھی ڈال دیتا ہے۔
حقیقت میں یہ ایک ایسا جرم ہے جسے آج تک جرم سمجھا ہی نہیں گیا، ادارے موجود ہیں، قوانین موجود ہیں مگر سب اپنی اپنی ٹینشن میں اندھے، لنگڑے اور گونگے بنے اپنی ملازمت کا دورانیہ گزارنے کو ہی مقصد حیات بنائے بیٹھے ہیں۔ ان سب عوامل نے مل کر ایک ایسا ٹینشن زدہ معاشرہ تخلیق کردیا ہے کہ ماضی میں جس عمر کے بچوں کو ٹینشن لفظ کے بارے میں بھی علم نہیں ہوا کرتا تھا، بدقسمتی سے آج وہ خود اُس ٹینشن کا شکار ہوگئے ہیں۔
[poll id="986"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔