یاد رکھیے موت ہرگز علاج نہیں
خود کشی نہ صرف قانونی اورمذہبی نقطہ نظرسے جرم ہے بلکہ ایسے واقعات کا تسلسل انسانوں کے مہذب معاشرے پرسوالیہ نشان بھی ہے
KARACHI:
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس چہرے کو دیکھ کر مجھے جینے، آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا تھا، جس کی تکلیف مجھے تڑپا دیتی تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس کو زہر دے کر سسکا سسکا کر ماروں گا، مجھے کیوں بچایا گیا؟ میں اس قابل نہیں ہوں، میری زندگی اب بیکار ہے؟ میں احساس جرم سے ہر لمحہ موت کی تکلیف نہیں سہہ سکتا، اس کی معصوم پھٹی پھٹی آنکھیں مجھے سوال کرتی نظر آرہی ہیں، ہاں میں نے ہی اپنے معصوم بے گناہ بچے کو دودھ میں زہر دیا، میں اعتراف جرم کرتا ہوں، مجھے بھی جلد از جلد پھانسی پر لٹکا دیا جائے، مجھے زندہ نہیں رہنا، اسپتال کے بستر پر ادھ موا وہ شخص زارو قطار رو رہا تھا۔
پولیس اہلکار نے بیان قلمبند کیا، ڈاکٹر سے کچھ ضروری معلومات لیں اور اس کی طرف مڑا ایک حقارت بھری نظر ڈالتے ہوئے مخاطب ہوا، تم نے جو کیا اس کیلئے موت قدرے آسان ہے۔ تمہارا جرم اس قابل ہے کہ تم ساری زندگی اس جرم کو یاد کر کرکے ساری عمر گزارو، بہت جی دار ہو ناں؟ پہلے اپنے بیوی، بچے کو زہر پلایا اور پھر خود بھی پی کر موت کو گلے لگانے چلے تھے، لیکن یاد رکھو تمہارے اختیار میں نہ زندگی ہے کہ تم اپنے بیوی، بچے کو واپس لاسکو اور نہ موت کہ تم مرسکو، جب تک قانون تمہیں سزا نہیں دیتا تم اس خود ساختہ عذاب کو بھگتتے رہو گے۔
مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے تفصیلات جاننا چاہیں تو معلوم ہوا کہ گھریلو حالات سے تنگ آکر اس شخص نے پہلے اپنی بیوی بچے کو زہر دیا اور پھر خود بھی زہریلی دوا پی لی لیکن قسمت کہ بیوی بچہ تو نہ بچ سکے مگر یہ زندہ رہ گیا۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا، اب ہمارے معاشرے میں صبر اور رب پر توکل کا معاملہ ختم ہی ہوگیا ہے۔ اب تو تواتر سے ایسے واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔ ذرا سی گھریلو ناچاقی پر بچوں سمیت خود کشی عام روایت بن چکی ہے۔ پھر کاروبار میں نقصان ہوا تو بچوں کی جان لے کر خود بھی جان دیدی، کہیں سسرال کے جھگڑوں سے تنگ آ کر بچوں سمیت کسی نہر یا کنویں میں چھلانگ لگا دی۔
اُف یہ ذہنی پستی اور مایوسی کی کون سی حد ہے کہ متوقع حالات کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لیا جائے؟ کیا اتنا بھی توکل نہیں رہا کہ جس رب نے پیدا کیا ہے وہی رزاق بھی ہے، وہ ہی کارساز ہے اگر آپ مایوس ہو رہے ہیں تو آپ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ اپنی مایوسی کو موت کے معنی سے بھی نا آشنا معصوموں پر تھوپ دیں۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر کڑھنے اور سردہ آہ خارج کرنے کے علاوہ کیا کیا جائے؟ تاسف ہوتا ہے اپنی معاشی اور اخلاقی بد حالی کی تباہ کن تصویر دیکھ کر، مانا کہ زندگی میں تلخیوں اور ناکامیوں کے باعث انسان ناامید ہونے لگتا ہے اور بعض اوقات ایسے کام سر انجام دے جاتا ہے جو غیر شعوری ہوتے ہیں لیکن نا امیدی میں اس حد تک چلے جانا کہ اپنے ساتھ وہ ان معصوم بچوں کی جو خدا کی امانت ہیں، جن کی پرورش، حفاظت کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے، خود کشی ایک جرم ہے، اور آپ کو کسی دوسرے کی جان لینے کا اختیار کس نے دیا ہے؟
یقینی طور پر سخت اور دشوار حالات، بیروگاری، مہنگائی ، گھریلو ناچاقیاں اور بے مروتی جیسے عوامل ایسا ماحول قائم کردیتے ہیں کہ انسان کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ سب غموں سے پیچھا چھڑانے کیلئے شاید موت واحد اور آسان ذریعہ ہے۔ لیکن یہ بالکل بے وقوفانہ سوچ ہے، اگر آپ کے پاس شعور ہو تو خدا پر توکل کے اور خود پر یقین کے ساتھ ہر مشکل کا سامنا کیا جاسکتا ہے، انسان کو برتری اس کی عقل کی وجہ سے حاصل ہے اور یہی عقل کہتی ہے کہ جس طرح ہر سیاہ رات کے بعد سورج کی کرنیں اس دنیا کو روشن کرتی ہیں، بالکل اُسی طرح ہر پریشانی کے بعد راحت ہے لیکن ایسا صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب ان حالات کا مقابلہ بلند حوصلے اور ثابت قدمی سے کیا جائے۔
ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ہر ایک شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنے اردگرد، اپنے خاندان، احباب، دفتر میں نظر رکھے کہ کوئی خود پر مایوسی کو طاری تو نہیں کررہا؟ اگر ایسا ہے تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اُس شخص کی ذہنی کیفیت سمجھتے ہوئے اسے دلاسہ دیں، خوش گمانی اور اُمید کے سہارے اُس کو زندگی کی رعنایوں کی جانب متوجہ کیجئے، اور ساتھ ہی حکومت کو چاہئیے کہ وہ خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کے تدارک کیلئے سرکاری سطح پر ایسے سیمنار اور کانفرنسسز منعقد کرائے جن میں مناسب کاؤنسلنگ کے ذریعے مایوسی اور شدت پسندی جیسی ذہنی کیفیات کا حل پیش کیا جائے۔ اِس حوالے سے مختلف این جی اوز اور طبی ادارے بھی مشترکہ کاوشوں سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ خود کشی جیسا انتہائی قدم نہ صرف قانونی اور مذہبی نقطہ نظر سے جرم ہے بلکہ ایسے واقعات کا تسلسل انسانوں کے مہذب معاشرے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس چہرے کو دیکھ کر مجھے جینے، آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا تھا، جس کی تکلیف مجھے تڑپا دیتی تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس کو زہر دے کر سسکا سسکا کر ماروں گا، مجھے کیوں بچایا گیا؟ میں اس قابل نہیں ہوں، میری زندگی اب بیکار ہے؟ میں احساس جرم سے ہر لمحہ موت کی تکلیف نہیں سہہ سکتا، اس کی معصوم پھٹی پھٹی آنکھیں مجھے سوال کرتی نظر آرہی ہیں، ہاں میں نے ہی اپنے معصوم بے گناہ بچے کو دودھ میں زہر دیا، میں اعتراف جرم کرتا ہوں، مجھے بھی جلد از جلد پھانسی پر لٹکا دیا جائے، مجھے زندہ نہیں رہنا، اسپتال کے بستر پر ادھ موا وہ شخص زارو قطار رو رہا تھا۔
پولیس اہلکار نے بیان قلمبند کیا، ڈاکٹر سے کچھ ضروری معلومات لیں اور اس کی طرف مڑا ایک حقارت بھری نظر ڈالتے ہوئے مخاطب ہوا، تم نے جو کیا اس کیلئے موت قدرے آسان ہے۔ تمہارا جرم اس قابل ہے کہ تم ساری زندگی اس جرم کو یاد کر کرکے ساری عمر گزارو، بہت جی دار ہو ناں؟ پہلے اپنے بیوی، بچے کو زہر پلایا اور پھر خود بھی پی کر موت کو گلے لگانے چلے تھے، لیکن یاد رکھو تمہارے اختیار میں نہ زندگی ہے کہ تم اپنے بیوی، بچے کو واپس لاسکو اور نہ موت کہ تم مرسکو، جب تک قانون تمہیں سزا نہیں دیتا تم اس خود ساختہ عذاب کو بھگتتے رہو گے۔
مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے تفصیلات جاننا چاہیں تو معلوم ہوا کہ گھریلو حالات سے تنگ آکر اس شخص نے پہلے اپنی بیوی بچے کو زہر دیا اور پھر خود بھی زہریلی دوا پی لی لیکن قسمت کہ بیوی بچہ تو نہ بچ سکے مگر یہ زندہ رہ گیا۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا، اب ہمارے معاشرے میں صبر اور رب پر توکل کا معاملہ ختم ہی ہوگیا ہے۔ اب تو تواتر سے ایسے واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔ ذرا سی گھریلو ناچاقی پر بچوں سمیت خود کشی عام روایت بن چکی ہے۔ پھر کاروبار میں نقصان ہوا تو بچوں کی جان لے کر خود بھی جان دیدی، کہیں سسرال کے جھگڑوں سے تنگ آ کر بچوں سمیت کسی نہر یا کنویں میں چھلانگ لگا دی۔
اُف یہ ذہنی پستی اور مایوسی کی کون سی حد ہے کہ متوقع حالات کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لیا جائے؟ کیا اتنا بھی توکل نہیں رہا کہ جس رب نے پیدا کیا ہے وہی رزاق بھی ہے، وہ ہی کارساز ہے اگر آپ مایوس ہو رہے ہیں تو آپ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ اپنی مایوسی کو موت کے معنی سے بھی نا آشنا معصوموں پر تھوپ دیں۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر کڑھنے اور سردہ آہ خارج کرنے کے علاوہ کیا کیا جائے؟ تاسف ہوتا ہے اپنی معاشی اور اخلاقی بد حالی کی تباہ کن تصویر دیکھ کر، مانا کہ زندگی میں تلخیوں اور ناکامیوں کے باعث انسان ناامید ہونے لگتا ہے اور بعض اوقات ایسے کام سر انجام دے جاتا ہے جو غیر شعوری ہوتے ہیں لیکن نا امیدی میں اس حد تک چلے جانا کہ اپنے ساتھ وہ ان معصوم بچوں کی جو خدا کی امانت ہیں، جن کی پرورش، حفاظت کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے، خود کشی ایک جرم ہے، اور آپ کو کسی دوسرے کی جان لینے کا اختیار کس نے دیا ہے؟
یقینی طور پر سخت اور دشوار حالات، بیروگاری، مہنگائی ، گھریلو ناچاقیاں اور بے مروتی جیسے عوامل ایسا ماحول قائم کردیتے ہیں کہ انسان کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ سب غموں سے پیچھا چھڑانے کیلئے شاید موت واحد اور آسان ذریعہ ہے۔ لیکن یہ بالکل بے وقوفانہ سوچ ہے، اگر آپ کے پاس شعور ہو تو خدا پر توکل کے اور خود پر یقین کے ساتھ ہر مشکل کا سامنا کیا جاسکتا ہے، انسان کو برتری اس کی عقل کی وجہ سے حاصل ہے اور یہی عقل کہتی ہے کہ جس طرح ہر سیاہ رات کے بعد سورج کی کرنیں اس دنیا کو روشن کرتی ہیں، بالکل اُسی طرح ہر پریشانی کے بعد راحت ہے لیکن ایسا صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب ان حالات کا مقابلہ بلند حوصلے اور ثابت قدمی سے کیا جائے۔
ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ہر ایک شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنے اردگرد، اپنے خاندان، احباب، دفتر میں نظر رکھے کہ کوئی خود پر مایوسی کو طاری تو نہیں کررہا؟ اگر ایسا ہے تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اُس شخص کی ذہنی کیفیت سمجھتے ہوئے اسے دلاسہ دیں، خوش گمانی اور اُمید کے سہارے اُس کو زندگی کی رعنایوں کی جانب متوجہ کیجئے، اور ساتھ ہی حکومت کو چاہئیے کہ وہ خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کے تدارک کیلئے سرکاری سطح پر ایسے سیمنار اور کانفرنسسز منعقد کرائے جن میں مناسب کاؤنسلنگ کے ذریعے مایوسی اور شدت پسندی جیسی ذہنی کیفیات کا حل پیش کیا جائے۔ اِس حوالے سے مختلف این جی اوز اور طبی ادارے بھی مشترکہ کاوشوں سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ خود کشی جیسا انتہائی قدم نہ صرف قانونی اور مذہبی نقطہ نظر سے جرم ہے بلکہ ایسے واقعات کا تسلسل انسانوں کے مہذب معاشرے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
[poll id="988"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔