ایرانی پارلیمانی انتخابات میں اصلاح پسندوں کی کامیابی
ایرانی عوام اپنےملک کوترقی دینااوربیروزگاری کاخاتمہ چاہتےہیں یہی وجہ ہےکہ انھوں نےاصلاح پسندوں پراعتماد کااظہارکیا ہے
ایران کے پارلیمانی انتخابات میں صدر حسن روحانی اور ان کے اصلاح پسند اتحادیوں نے تہران کی تمام 30نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی اور قدامت پسندوں کے خلاف کلین سویپ کیا ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے تحت 290 ارکان پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان رہبری میں علماء کے انتخاب کے لیے لاکھوں افراد نے ووٹ ڈالا' مجلس رہبری کے 88 ارکان ایران کے رہبر اعلیٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں قدامت پسندوں کے رہنما، سابق اسپیکر اور آیت اللہ علی خامنہ ای کے سمدھی غلام علی بھی شکست کھا گئے۔
ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ملک میں یہ پہلے انتخابات ہیں جس میں عوام نے قدامت پسندوں کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ دارالحکومت تہران سے باہر کے علاقوں میں ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں اور بظاہر اصلاح پسندوں نے کم کامیابی حاصل کی ہے۔
ان انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں میں عوام کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ان کی اکثریت حکومتی سطح پر قدامت پسندوں کا اقتدار پسند نہیں کرتی اور وہ عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنے کے بجائے پوری دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے' یہی وجہ ہے کہ اس نے پارلیمانی انتخابات میں اصلاح پسندوں کو آگے آنے کا موقع دیا ہے۔ اگرچہ دارالحکومت کے باہر کے علاقوں میں اصلاح پسند قدامت پسندوں کو شکست نہیں دے سکے لیکن ان کو یہاں سے بھی بڑی تعداد میں ووٹ ملے ہیں اور ان کی نشستیں قدامت پسندوں کی نشستوں کی تعداد کے قریب قریب ہی ہیں۔
ان انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن روحانی 2017ء میں دوبارہ ایران کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ ایرانی عوام اپنے ملک کو ترقی دینا اور بیروز گاری کا خاتمہ چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اصلاح پسندوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ قدامت پسند تہران میں شکست کھا گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور پڑ گئے ہیں، وہ اب بھی طاقتور ہیں اور حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی قوت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب اصلاح پسندوں کی فتح سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ایران پوری دنیا کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر چلنے کا خواہاں ہے اور ممکن ہے وہ آہستہ آہستہ اپنی انتہا پسند پالیسیوں میں بھی تبدیلی لے آئے۔
ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ملک میں یہ پہلے انتخابات ہیں جس میں عوام نے قدامت پسندوں کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ دارالحکومت تہران سے باہر کے علاقوں میں ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں اور بظاہر اصلاح پسندوں نے کم کامیابی حاصل کی ہے۔
ان انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں میں عوام کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ان کی اکثریت حکومتی سطح پر قدامت پسندوں کا اقتدار پسند نہیں کرتی اور وہ عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنے کے بجائے پوری دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے' یہی وجہ ہے کہ اس نے پارلیمانی انتخابات میں اصلاح پسندوں کو آگے آنے کا موقع دیا ہے۔ اگرچہ دارالحکومت کے باہر کے علاقوں میں اصلاح پسند قدامت پسندوں کو شکست نہیں دے سکے لیکن ان کو یہاں سے بھی بڑی تعداد میں ووٹ ملے ہیں اور ان کی نشستیں قدامت پسندوں کی نشستوں کی تعداد کے قریب قریب ہی ہیں۔
ان انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن روحانی 2017ء میں دوبارہ ایران کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ ایرانی عوام اپنے ملک کو ترقی دینا اور بیروز گاری کا خاتمہ چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اصلاح پسندوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ قدامت پسند تہران میں شکست کھا گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور پڑ گئے ہیں، وہ اب بھی طاقتور ہیں اور حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی قوت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب اصلاح پسندوں کی فتح سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ایران پوری دنیا کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر چلنے کا خواہاں ہے اور ممکن ہے وہ آہستہ آہستہ اپنی انتہا پسند پالیسیوں میں بھی تبدیلی لے آئے۔