سیم و تھور و دیگر مسائل

زراعت کا تو پاکستان میں زراعت وہ شعبہ ہے جس میں ہمارے ملک کے 60 سے 70 فیصد لوگ وابستہ ہیں



دنیا بھرکی حقیقی جمہوری حکومتیں اس امرکی پوری طرح سے ذمے دار ہوتی ہیں کہ وہ اپنی ریاست کے ہر ایک باسی کو روزگار،خوراک، پوشاک، تعلیم، علاج ومعالجے ورہائش کی تمام تر سہولیات فراہم کریں۔خیال رہے کہ میں اس جمہوریت کی بات کررہا ہوں ، جس جمہوریت میں عوام کے حقیقی نمایندے اپنی قابلیت کے باعث منتخب ہوتے ہیں، ناکہ اپنی دولت کے بل بوتے پر۔ یہی وہ منتخب حقیقی نمایندے ہوتے ہیں جوکہ عوامی طاقت سے اقتدار میں آکر عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں اور اپنے اقتدارکی مدت ختم ہونے کے بعد پھر سے عوام میں جاتے ہیں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلی مدت کے لیے منتخب ہونے کے طالب ہوتے ہیں۔

میں ذکر کر رہا ہوں حقیقی جمہوریت کا نا کہ اس سرمایہ داری نظام کا جس میں اہل ثروت حضرات اپنی دولت کے بل بوتے پر ایوانوں میں آتے ہیں اور ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کے لوگوں کو پینے کا پانی تک نہیں دے پاتے، دیگر سہولیات کا تو ذکر ہی کیا۔ اس بات کو ہم یوں بھی کرسکتے ہیں کہ یہ اہل ثروت حکمران تو عوام کے حقیقی مسائل ہی سے بے خبر ہوتے ہیں۔ سو اسی قسم کے حکمران گزشتہ طویل عرصے سے ہمارے ملک میں اقتدار پر قابض ہیں ان حکمرانوں نے یوں توعوامی مفاد کے ہر شعبے کو نظرانداز کیا ہے ۔

ہم ذکرکریں گے زراعت کا تو پاکستان میں زراعت وہ شعبہ ہے جس میں ہمارے ملک کے 60 سے 70 فیصد لوگ وابستہ ہیں جب کہ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ ہماری معیشت کا سب سے زیادہ انحصار بھی زراعت پر ہے مگر اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں زراعت کے شعبے سے وابستہ چھوٹے کسان لاتعداد مسائل کا شکار ہیں۔ چھوٹے کسان سے مراد چار چھ یا آٹھ سے دس ایکڑ زرعی اراضی کے مالکان ہیں، یہ کسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔

ایک وہ کسان جن کا زراعت کے شعبے میں تمام تر انحصار بارش پر ہوتا ہے مطلب یہ کہ اگر بارش ہوگئی تو یہ کسان بھی اپنی زرعی اراضی پر فصل کاشت کرلیں گے اور اگر کسی سال بارش نہ ہوئی تو یہ کسان اپنی فصل کاشت کرنے سے مکمل قاصر ہوتے ہیں اور پھر یہ کسان کن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں یہ اندازہ لگانا اہل فہم کے نزدیک مشکل نہیں ہے جب کہ دوسری قسم کے وہ کسان ہوتے ہیں جن کی زرعی اراضی تک نہری پانی کی رسائی ممکن ہوتی ہے مگر یہ دونوں قسم کے کسان جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

ان سے پوری رقم لے کر ان کو جعلی کھاد، ناقص بیج، نقلی کیڑے مار ادویات کی سپلائی کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم ترین مسئلہ سیم و تھور کا بھی ہے۔ تفصیل اس مسئلے کی یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ زرعی اراضی کے زیریں حصے میں جو پانی ہے اگر تو وہ پانی زرعی اراضی کی ضرورت کے مطابق ہے تو ٹھیک، بصورت دیگر اگر وہ پانی مطلوبہ حد سے بلند ہوجائے تو پھر زرعی اراضی کے اندر جو نمکیات ہوتے ہیں جوکہ زراعت کے لیے لازمی جزو ہے وہ نمکیات جسے سوڈیم کلورائیڈ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

یہ نمکیات زرعی اراضی کے اوپری حصے پر آجاتے ہیں جسے سفید پاؤڈر کی شکل میں اور بڑے واضح انداز میں دیکھا جاسکتا ہے اور یہ سیم و تھور کا مسئلہ زیادہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں زرعی اراضی کے پاس دریا یا کینال یعنی وہ بڑی نہر جوکہ حصول آب کے لیے دریا سے نکالی جاتی ہے کیونکہ پاس سے گزرنے والے دریا یا کینال سے رسنے والا پانی قریبی زرعی اراضی کے زیریں حصے میں پانی کی سطح بلند کردیتا ہے جس کے باعث وہ اراضی سیم و تھور کا شکار ہوجاتی ہے۔

اب اگر سیم و تھور کے تدارک کی بات کی جائے تو سیم و تھور کے تدارک کے لیے کئی ایک طریقے اپنائے جاسکتے ہیں یا اپنائے جاتے ہیں اول جو طریقہ ہے وہ سیم و تھور زدہ اراضی پر جپسم کا استعمال یہ پاؤڈر جوکہ جپسم نامی پتھر سے تیار کیا جاتا ہے اسی واسطے اس پاؤڈر کو جپسم کا نام دیا گیا ہے اس جپسم پاؤڈر کو استعمال کرنے سے قبل سیم و تھور پر ہل چلایا جاتا ہے اور پھر اس اراضی میں جپسم پاؤڈر ڈالا جاتا ہے جس کے اثرات سے سیم و تھور زدہ اراضی چھ ماہ بعد ایک برس کے لیے قابل کاشت ہوجاتی ہے۔

اس طریقہ کار میں اخراجات بہت آتے ہیں جب کہ یہ اراضی فقط ایک برس کے لیے قابل کاشت ہوتی ہے اور ایک برس کے بعد یہ اراضی پھر سیم و تھور کا شکار ہوجاتی ہے۔ دوئم جو طریقہ سیم و تھور کے تدارک کے لیے اپنایا جاسکتا ہے یا اپنایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سیم و تھور زدہ اراضی کے ساتھ ایک نالہ نکالا جاتا ہے یا نکالا جاسکتا ہے اس نالے کو سیم نالے کا نام دیا جاتا ہے۔ فائدہ اس سیم نالے کا یہ ہوتا ہے کہ کسان اپنی اراضی میں وہ پانی جوکہ ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے وہ پانی اس سیم نالے میں چھوڑ دیتا ہے اور سیم نالہ یہ پانی قریبی کینال یا دریا کے سپرد کردیتا ہے جب کہ دونوں طریقہ ہائے کار میں فرق یہ ہوتا ہے کہ سیم و تھور زدہ اراضی میں جپسم کا استعمال کسان کو خود کرنا ہوتا ہے جب کہ سیم نالہ کی کھدائی کی ذمے دار ریاست ہوتی ہے۔

سیم و تھور کے تدارک کے لیے ایک اورطریقہ بھی اپنایا جاسکتا ہے جوکہ ہے تو مہنگا ترین مگر ہے دیرپا اورطریقہ یہ ہے کہ حصول آب کے لیے جو کینال دریا سے نکالی جائے، اس کینال کے زیریں حصے و پشتوں پر اسٹون پچنگ کی جائے۔ مطلب یہ کہ کینال کے پشتوں و زیریں حصے پر پتھر لگا دیے جاتے ہیں۔ فائدہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کینال سے پانی کا رساؤ نہیں ہوتا اور اس کینال کے اردگرد کی اراضی سیم وتھور کا شکار نہیں ہوتی۔

اسٹون پچنگ کا یہ طریقہ چشمہ رائٹ بینک کینال پر آزمایا گیا ہے اور بے حد کامیاب ہے جب کہ چشمہ رائٹ بینک کینال جوکہ پنجاب کے زرخیز ضلع میانوالی سے 50 کلومیٹر کی دوری یعنی چشمہ کے مقام سے نکالی گئی ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان، تونسہ شریف وڈیرہ غازی خان کی زرعی اراضی کو خوب سیراب کر رہی ہے ۔ تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حکومت بھلے کسی کی بھی سیاسی جماعت ہو مگر وہ یہ اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے نہ صرف دیگر شعبوں میں بلکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ چھوٹے کسانوں کی ہر ممکن مدد کرے۔

ان چھوٹے کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے تاکہ ہمارے ملک کے کسان بھی کاشتکاری کے جدید طریقے اپنا کر زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرسکیں جب کہ اس امر کا بھی پورا خیال رکھا جائے کہ کسانوں کو بیج، کھاد و کیڑے مار ادویات خالص مل سکیں تاکہ کسانوں کی کاشت کی ہوئی فصلیں صحت مند ہوں تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا پورا صلہ مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں