مارکیٹ اکانومی کے دور میں کہاں کی ایمانداریاں
جمشید کے بچّے کی سالگرہ پر وہ سب لاہور کے ایک ریسٹورنٹ پر اکٹھے ہوئے تھے
KARACHI:
(ملک کے تمام سرکاری افسروں کے نام)
سول سروسز اکیڈیمی میں ان چھ افسروں کاگروپ مشہور تھا، ایک ہی سنڈیکیٹ میں ہونے کی وجہ سے ان کی آپس میں گہری دوستی ہوگئی تھی۔ اکیڈیمی سے نکلے ہوئے بھی انھیں چھ سال ہوگئے تھے مگر کسی نہ کسی کے ہاں ان کی get to gather ہوتی رہتی تھی۔ جنید اور باسط پولیس سروس میںتھے جو سندھ اور خیبر پختونخواہ میں تین سال گزارنے کے بعد پنجاب آگئے تھے، ملیحہ اور جمشید کا تعلق ڈی ایم جی سے تھا اور وہ دونوں کراچی میں تعینات تھے، سلمیٰ اور ببرک انکم ٹیکس اور کسٹمز سروس (موجودہ ان لینڈریونیو سروس) سے تھے۔
جمشید کے بچّے کی سالگرہ پر وہ سب لاہور کے ایک ریسٹورنٹ پر اکٹھے ہوئے تھے۔ موم بتّیاں بجھانے اور کیک کاٹنے کی تقریب سے فارغ ہوئے تو یہ گروپ الگ بیٹھ گیا اکیڈیمی کے دور کی باتیں اور یادیں ان کی گپ شپ کا موضوع بن گئیں۔ انسٹرکٹرز کا ذکر بھی چلا اورناکام معاشقوں پر تبصرے بھی ہوئے پھر کسی نے کہہ دیا ارے وہ خبر پڑھی ہے آپ نے؟ کونسی؟ ۔سب نے چونک کر پوچھا۔ بھئی کل کے اخبار میں کراچی کے ایک پولیس افسر کے حوالے سے اچھی خاصی ہیڈلائن لگی ہوئی تھی کہ"اے ایس پی منشیات فروشوں کا سرغنہ نکلا"۔ "ایسے ہی میڈیا والوں کی شرارت ہوگی، بات کا بتنگڑ بنادیتے ہیں انھوں نے تو خبروں میں سنسنی پیدا کرنی ہوتی ہے"۔
پھر اس گروپ کی بحث شروع ہوگئی اور اسطرح کے فقرے سنائی دیے "بلاوجہ خبر نہیں چھپ سکتی۔کسی کلین آفیسر کے بارے میں ایسی خبر نہیں آسکتی نہ کوئی الزام لگا سکتا ہے۔ حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ڈی ایم جی افسران ٹریننگ اکیڈیمیوں میں ہی پیسے بنانے کی اسکیمیں بنانے لگے ہیں"۔ "ینگ پولیس افسروں کا بھی یہی حال ہے تیس چالیس فیصد بھی کرپشن سے بچے رہیں تو غنیمت ہے" ۔ پھر اختلافی نوٹ سنائی دیا۔
"یا ر تم نے اگر ان کے اخلاق سدھارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور ان کی اسکیمیں بری لگتی ہیں تو گورنمنٹ سے کہو کہ ان کے حالات ٹھیک کرنے بھی اسکیمیںبنائے۔ اسطرف تو کسی کی توجہ نہیں" ۔ "دیکھو اب تو تنخوا ہیں معقول ہیں۔ جب میرے ماموں سروس میں آئے تھے تو ڈی ایم جی اور پولیس کا زیرِتربیّت افسر صرف تین ہزارروپے ماہانہ تنخوا لیتا تھا۔ اب تو تنخواکئی گنا بڑھ گئی ہے"۔ " کتنی بڑھ گئی ہے اخراجات بھی تو کئی گنا بڑھ چکے ہیں،کسی معقول ایریا میں ڈھنگ کا گھر کرائے پر لینا ہو تو لاکھ روپے سے کم نہیں ملتا۔
بچے کی پریپ کی فیس پندرہ بیس ہزار سے کم نہیں ہے، فیملی کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے ہفتے میں ایک دو بارہوٹل چلے جاؤتو بارہ پندرہ ہزار آرام سے نکل جاتے ہیں " اب ملیحہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا "دیکھیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں۔ اخراجات وسائل کے مطابق ہونے چاہئیں۔ تنخواہ کم ہو تو پورے گھر کے بجائے گھر کا ایک پورشن کرائے پر لیں۔ ہوٹلنگ کم کریں اور بچوں کو اتنے مہنگے اسکولوں میں داخل نہ کرائیں"۔
"لو جی ملیحہ تو چاہتی ہے کہ ہم چونگی امر سدّھو میں کوئی کٹیا کرائے پر لیں اور بچے کو کسی تھرڈ کلاس سے سرکاری اسکول میں داخل کرائیں۔۔ بھئی سوسائٹی کے ساتھ موو کرنا ہوتا ہے، آپکا ایک سوشل اسٹیٹس ہے اس لیے زندگی گزارنے کا معیار بھی اس کے مطابق رکھنا پڑتا ہے ۔ ایمانداریوں کے پرچار کرنے والے بتائیں کیا موجودہ تنخواہ میں ہم اپنے اسٹیٹس کے مطابق زندگی گزارسکتے ہیں ؟" جمشید کی اس بات پر جنید نے کہا۔ آپ پر کیسے لازم ہوگیا کہ وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی آپ امراء کے معیارِ زندگی سے مقابلہ کریں۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کا مقام آپکے لائف اسٹائل سے یا معیار سے نہیں کردار سے بنتا ہے"۔
جمشید اور ببرک دونوں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ "بھئی آپ کس زمانے کی بات کرتے ہیںکون پوچھتا ہے آج کردار کو؟ آج جنکے پاس پیسہ ہے انھی کا سماجی مرتبہ ہے انھی کے گھر میں خوشیاں ہیں اور انھی کی عزّت ہے"۔ ملیحہ بولی "دیکھیں جسے پیسے کی اتنی خواہش ہے وہ کوئی بزنس کرلے، امریکا یا کینیڈا کی شہریت لے کر وہاں قسمت آزمائی کرے ممکن ہے کروڑ پتی بن جائے۔ سول سروس پیسہ کمانے کا نہیں لوگوں کی خدمت کرنے کافیلڈ ہے ،آپ عزّت کماسکتے ہیںاور دعائیں لے سکتے ہیں"۔ "دعاؤں سے ہی کام چلتا تو لوگ مولویوں کو حقارت سے دیکھنے کے بجائے انھیں سب سے اعلیٰ سماجی مرتبہ دیتے، ان کے بچے بھی ایچی سن کالج اور لمَز میں پڑھ رہے ہوتے۔
آپ چاہتے ہو کہ ہمارے کولیگز کے بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں جائیں اور ہمارے بچے مقامی یونیورسٹیوں میں ہی خوار ہوتے رہیں"۔ جنید نے جواب دیتے ہوئے کہا "دیکھیںآپکا اعلیٰ سماجی مرتبہ جس عہدے کا مرہونِ منّت ہے اس عہدے کے کچھ تقاضے بھی ہیں وہ آپ پر قدغنیں بھی لگاتا ہے۔ سب سے بڑی قدغن یہ ہے کہ آپ اس عہدے کا غیرقانونی استعمال نہیں کریں گے اور ناجائز ذرایع سے پیسے نہیں بنائیں گے۔ غلط اور ناجائز طریقے سے پیسے کمانا ملکی قانون کے تحت جرم ہے۔ کیا جرم کا ارتکاب کرنے سے sense of guiltیا احساسِ جرم انسان کے ضمیر کو کچوکے نہیں لگاتا؟"۔
جمشید نے کہا" مارکیٹ اکانومی کے اس دور میں ایمانداریوں کے وعظ out of placeلگتے ہیں ، مقابلے کا دور ہے۔ آج کی زندگی سو میٹر کی ریس کا نام ہے، ملنے والے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ جو رک گیا وہ مُک گیا"۔
ملیحہ کی آواز پھر سنائی دی ''آپ یہ بتائیں کہ غیر قانونی ذرایع سے پیسے بنانے والے یعنی ایک کرپٹ افسر اور چوک پر مانگنے والے فقیر اور منگتے میں کیا فرق ہوا۔ وہ ہاتھ پھیلاتا ہے۔ مجھے روٹی کے لیے کچھ دے دو۔ وہ اپنی ٹانگ کے علاج اوربچوں کے کھانے کے نام پر مانگتا ہے۔ کرپٹ افسر اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اور کوٹھیاں اور پلازے بنانے کے لیے مانگتا ہے''۔
"مگر پیسے والوں کے بچوں کا ہی مستقبل سنورتاہے ان کی اعلیٰ گھرانوں میں شادیاں ہوتی ہیںاور اب تو لوگ کسی کے ذرایع کا کھوج لگانے کی کوشش بھی نہیں کرتے"۔ "بچوں کی بات کرتے ہو تو دیکھ لو ہمارے سامنے کی بات ہے کرپشن پر چیف سیکریٹری اور آئی جی گرفتار ہوکر جیل میں ڈالے گئے۔ ایک آئی جی کی بیگم بیچاری صدمے سے وفات پاگئیں، بچے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے"۔ ایک اور فیڈرل سیکریٹری پر بھی مقدمہ بن گیا اس کی بیگم ہماری جاننے والی ہیں ہم ان سے ملنے گئے تو کہہ رہی تھیںکہ جس روز میرے پوتے نے آکر پوچھاکہ "دادو ہمارے کلاس فیلوز ہمیں tease کرتے ہیں کہ"your baba is corrupt" "is it true?....our baba is corrupt?" تو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا ہم اپنے چھوٹے سے پوتے کے ساتھ آنکھ نہیں ملاسکتے تھے۔
آپ جانتے ہیں ٹیکس کمشنر نے بے تحاشا پیسہ بنایا، وہ لنچ کرنے فیملی کو لے کر لاہور سے دبئی جاتا تھا اور ویک اینڈ سویٹزرلینڈ جاکر گزارتا تھا۔ قدرت کیطرف سے سزا ملی ۔ دونوں بیٹے ہی abnormalہیں۔کل جس سینئر افسر کی بات کرہے تھے اس کا اکلوتا بیٹا ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا، اب اس نے توبہ کرکے زندگی تبدیل کرلی ہے تو کیا ہم بھی تبدیل ہونے کے لیے کسی ایکسیڈنٹ کا انتظار کررہے ہیں۔ دیکھیں حرام کا پیسہ جرم اورگناہ ہے اور اس کا انجام ذلّت اور بدنامی ہے گرفتاری ہے اورجیل ہے"۔
"دیکھو یہ انفرادی قصّے ہیں، ان چیزوں کا حقائق کی دنیا سے تعلق نہیں"۔ "اچھا یہ تو حقائق ہیں ناکہ ہم جس ملک میں افسریاں کررہے ہیں اس کے بانی دیانت اور کریکٹر کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ قائداعظم نے پہلی تقریر میں ہی کرپشن کو کینسر قرار دیا اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جب انھوں نے نیا ملک بنانے کا اعلان کیا تو نئے وطن سے لوگوں کے کتنے خواب اور امیدیں وابستہ تھیں۔ بھارت سے بیس افراد کا گھرانہ اپنے خوابوں کی جنّت کی جانب چلا تو ان میں سے تین منزلِ مراد تک پہنچ سکے، باقی رستے میں ہی کاٹ دیے گئے۔ پندرہ لوگ چلے تو دو زندہ پہنچ سکے۔
انھیں امید تھی کہ نئے وطن میں سرکاری افسر دیانتدار ، ہمدرد اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہونگے ۔ اگر انھیں معلوم ہو تا کہ ہماری جنّت پاکستان میں افسران حرام خور ہونگے تو وہ نئے وطن کے لیے اتنی قربانیاں کبھی نہ دیتے۔ وہ جو اس ملک پر قربان ہوگئے ۔ ان کا قرض ہمارے سروں پر ہے، ہم پوری سروس عوام کی خدمت کے لیے صرف کردیں تو بھی اس ملک پر قربان ہونے والے ایک شہید کے خون کا قرض ادا نہیں کر سکتے ۔ لاکھوں جانیں دیکر اور بہنوں اور بیٹیوں کی عزّتیں قربان کرکے حاصل کیے گئے اس ملک میں جو افسر ، سیاست دان، جج، جرنیل یا جرنلسٹ ناجائز ذرایع سے پیسہ بنائے گا وہ تاریخ کی عدالت اور شہیدوں کی روحوں کی نظروں میں قومی مجرم قرار پائے گا "۔ ملیحہ کی حمایت کرتے ہوئے جنید نے کہا۔
"بالکل ٹھیک کہاملیحہ نے پولیس کی وردی پہننے والا اگر رزقِ حلال کھا کر لوگوں کو تحفّظ دیتا ہے تو اس کی یونیفارم عزّت و آبرو کی علامت ہے اور اگر وردی پوش حرام خور ہے تو یہی وردی اس کے ایمان اور ضمیر کا کفن ہے۔ روشن ضمیر اور اُجلے کردار کے وہ پولیس افسر جو رزقِ حلال کھاکر شہریوں کو تحفّظ او رانصاف دیتے ہیں عوام ان کی راہوں میں آنکھیں بچھادیتے ہیںاور قوم کی مائیں بہنیں بیٹیاں ان کے لیے جھولیاں اٹھاکر دعائیں کرتی ہیں ان کے تبادلوں پر بازار بند ہوجاتے ہیں۔ ان کی جیبیں بیشک خالی ہوں مگر عوام ان کے دامن اپنی محبّتوں سے بھر دیتے ہیں"۔
اب کوئی اختلافی آواز نہ نکلی ۔ ملیحہ نے بلند آواز میں کہا "اﷲ کا شکر ہے کہ ہمیں اﷲ، رسولؐ اور آخرت پر ایمان کی دولت میسّر ہے۔ کائنات کے افضل ترین اور خالقِ کائنات کے سب سے فیورٹ انسان حضرت محمدؐ کا جب وصال ہوا تو آپؐ کے کل اثاثے صرف سات دینار تھے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ آخری رات شاہِؐ دوجہاں کے گھر چراغ جلانے کے لیے تیل تک نہیں تھا۔آپ نے پڑھا ہوگا کہ آپؐ نے ایک دفعہ جب اپنی قمیض ایک بیوہ کے بچوں کے لیے دی تو نماز کے لیے نہ جاسکے کیونکہ دوسرا کرتا نہیں تھا۔ اگر دولت اتنی اعلیٰ چیز ہوتی تو خالق اپنے سب سے فیورٹ نبی ؐ کو دنیا کا امیر ترین انسان بنادیتا۔ مگر وہ تو تمام جہانوں کے لیے رحمت تھے۔
رحمت اللعالمین کا فرمان ہے کہ ـجس نے حرام کا لقمہ کھایا اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی۔ یعنی اﷲرحمن ورحیم بھی اس کے لیے اپنے دورازے بند کرلیگا۔آخری فیصلے کے روز عادل منصف (ہم سب اپنے اپنے دائرہ کار میں حاکم بھی ہیں اور منصف بھی) کو اﷲ کا قرب نصیب ہوگا اور راشی جہنّم میں پھینکے جائیں گے۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے اﷲ سبحانہ تعا لیٰ اور آقائےؐ دوجہاں کے پسندیدہ گروپ میں شامل ہوکر ہمیشہ کے لیے پر مسّرت زندگی گزارنی ہے یا جہنّم کا ایندھن بننا ہے"۔ گروپ میں مکمل خاموشی تھی سب کی گردنیں جھک گئی تھیں اور سب اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔