حالات کی نئی کروٹ
پھر ایک اور کالم ’’ٹشوپیپر‘‘ میں لکھا تھا ’’حیرت ہے آج کل اخبارات عذیر بلوچ کے انکشافات سے بھری پڑی ہیں
ISLAMABAD:
گزشتہ ماہ کے میرے ایک کالم جس کا عنوان ''ڈاکٹر عاصم حسین : تصویر کے دورخ !'' میں لکھا تھا ''لگتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم عادی ''مجرم'' ہے جسے 5ماہ سے مار مار کر اُس کے منہ سے باتیں نکلوائی جا رہی ہیںحالانکہ اتنے لمبے عرصے تک اگر کسی کو پولیس کی حراست میں رکھا جائے تو وہ اُن گناہوں کو بھی قبول کر لیتا ہے جو اُس نے نہیں کیے ہوتے۔
پھر ایک اور کالم ''ٹشوپیپر'' میں لکھا تھا ''حیرت ہے آج کل اخبارات عذیر بلوچ کے انکشافات سے بھری پڑی ہیں۔اب پیپلزپارٹی کی زبان کچھ مفاہمانہ ہوگئی ہے۔
راقم کے ان کالموں کے علاوہ بھی ایسے کالم شایع ہوتے رہے ہیں جن میں اکثر و بیشتر اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ حقیقت میں دونوں بڑی جماعتوں نے نورا کُشتی کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ اس بات کا واضع ثبوت حال ہی میں زرداری نے آرمی چیف کے حق میں بیان دے کر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کر کے دیا ہے حالانکہ ان کی پارٹی کے سینئر رہنما اس بیان کو اُن کے میڈیا سیل کی غلطی قرار دے رہے ہیں لیکن سابق صدر آصف زرداری نے براہ راست ایسی کوئی تردید نہیں کی۔ اسی لیے تو کہتے ہیں سیاستدانوں کے سارے رنگ انوکھے ہیں، وقت کے ساتھ تیور بدلتے رہتے ہیں۔بقول شاعر
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
سارے رنگ کچے، سارے تیور عارضی، شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔پاکستانی سیاست کا یہی المیہ ہے کہ سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتا اور اپنی کہی ہوئی بات پر کبھی قائم نہیں رہتا۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا فقدان ہے ۔میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ہر معاملے پر ایک صفحے پر ہیں۔
کبھی وہ وقت تھا کہ آصف زرداری میاں نوازشریف کو مشورے دیا کرتے تھے اور آج وقت یہ ہے کہ نوازشریف زرداری صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کے طور طریقے سمجھا رہے ہیں ۔جہاں تک جنرل راحیل شریف کی توسیع کا معاملہ ہے تو یہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک زیرک، دور اندیش اور نڈرسپاہی ہیں، اس لیے وہ ملکی مفاد میں سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کریں گے کہ انھیں کیا کرنا ہے کیا نہیں؟
وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہمارا ماضی گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی چار بار برسرِ اقتدار آئی ماسوائے پی پی سابقہ دور (2008سے 2013)کے کسی نے چیف آف آرمی اسٹاف کو توسیع دینا مناسب نہیں سمجھا۔ بھٹو صاحب ٹکا خان (1972 سے 1976)سے بہت خوش تھے مگر توسیع نہیں دی۔ بے نظیر بھٹو نے اسلم بیگ(1988سے 1991) کو تمغہِ جمہوریت دے دیا مگر توسیع نہیں دی۔ یہ زرداری حکومت تھی جس نے جنرل کیانی (2007 سے 2013) میں پہلی بار توسیع دی۔
ہمارے ہاں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ جب زرداری کویہ علم ہوگیا کہ ن لیگ نے ساتھ چھوڑ دیا ہے تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کا پَلّو تھام لیا۔ ابراہام لنکن نے انھی سیاستدانوں کے لیے کہا تھا کہ ''آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے اور کچھ لوگوں کو مستقل بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔'' بہر کیف ان سیاستدانوں کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی آج ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔
کرپشن کے حوالے سے اگر آپ نے کسی ملک کو پرکھنا ہوتو اس کے لیے آپ کو کسی انجینئرنگ کی ضرورت نہیں بلکہ وہاں کے سیاستدانوں و بیوروکریسی کی شاہانہ طرز زندگی دیکھ لیں، آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ وہاں کی اشرافیہ اور عوام کے درمیان فاصلہ نمایاں ہوگا۔ ذرا نظر دوڑائیں 1977 سے آج تک پاکستان میں عوام مضبوط ہوئے ہیں کہ حکمران، جو اب آپ کو خود ہی مل جائے گا۔ آپ واپڈا کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) زاہد علی اکبر جن کی عمر 91برس ہے کو ہی دیکھ لیں جنہوں نے گزشتہ دنوں اپنے خلاف دائر ریفرنس کے حوالے سے20کروڑ روپے جمع کرا دیے ہیں۔
نیب نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا، اس خبر سے یہ تاثر اپنی جگہ کہ صرف سیاست دان ہی نہیں، دوسرے شعبوں کے ذمے دار حضرات کے خلاف بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے آج ملک کے حالات نائیجیریا سے مختلف نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہاں اور یہاں کے سیاستدانوں نے صرف عوام کو لوٹا ہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری آج پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور جیالے بھوک سے مر رہے ہیں۔ میرا مقصد کسی پر الزام لگانا نہیں بلکہ زمینی حقائق بیان کرنا ہے۔ آپ حکمران جماعت کے خاندان کو دیکھ لیں، وہ بھی پاکستان کے امیر ترین افراد پر مشتمل ہیں۔
بہرکیف قارئین کو یاد ہوگا کہ 16 جون 2015 کو آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں بیان دیا تھا کہ اگر ان کی کردار کشی بند نہ کی گئی تو وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ اس بیان کے بعد ہی انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی، پھر ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوئے اور پھر عذیر بلوچ ۔ اب ان کا حالیہ بیان پھر ہوا کا رخ دیکھنے کی کوشش ہے اور پیغام بھی کہ آئیں 2018 کے عام انتخابات سے قبل معاملات طے کر لیں۔ پاور پالیٹکس میں ضمیر، اصول اور نظریہ کی بھلا کیا اہمیت! آپ خود دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہو گی اور عوام اسی طرح کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔