شمال مغرب کے آزاد راستے
رستے انھیں گھروں کے صحن میں بنتے ہیں جن کی دیواریں گر چکی ہوتی ہیں
قیام پاکستان کے بعد پہلی بار پاکستان کے پالیسی سازوں کو احساس ہوا ہے کہ شمال مغرب کے سرحدی معاملات بھی سنجیدہ غور و فکر کے طالب ہیں' اب پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہ باتیں میں یا آپ نہیں کر رہے بلکہ اعلیٰ سطح پر ہو رہی ہیں' میرے جیسے تو بہت پہلے سے کہتے آ رہے ہیں کہ کوئی بھی ریاست اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائے بغیر پرُامن نہیں رہ سکتی' اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے ملک میں آنا جانا بند کر دیا جائے بلکہ سرحدوں کو محفوظ بنانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آنے جانے کے لیے کچھ ضابطے' قوانین اور طریقہ کار ہو جس پر عمل درآمد ہو اور اس کسوٹی پرپورا اترنے والوں کو ہی سرحدیں عبور کرنے کی اجازت ہو۔
پاکستان میں تو صورت حال یہ ہے کہ بنگالی' بہاری بھی باآسانی آ کر یہاں کے شہری بن جاتے ہیں اور افغانستان سے آنے والے بھی بلکہ یہاں تو افریقی باشندے گھومتے پھرتے ہیں اور انھیں کوئی روک کر یہ بھی نہیں پوچھتا کہ جناب اپنا پاسپورٹ' ویزا یا کوئی اور کاغذ دکھا دیں البتہ را کے ایجنٹ گرفتار ہوتے رہتے ہیں' خمینی انقلاب کے بعد ایرانی بھی با آسانی یہاں آتے رہے' یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کسی نے اس پر غور کیا؟ لمبی چوڑی نظریاتی بحث میں الجھنے کے بجائے میں صرف ایک بات کہتا ہوں' اگر ہمارے حکمران' ریاستی مشینری' سیاسی و مذہبی جماعتیں پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے تو یہ ملک اس شعر کی عملی تصویر نہ بنتا
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستہ بنا لیے
رستے انھیں گھروں کے صحن میں بنتے ہیں جن کی دیواریں گر چکی ہوتی ہیں اور صاحب مکان میں اتنی ہمت یا استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ دیواریں تعمیر کر سکے یا رستے بنانے والوں کو روک سکے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں نے مشرقی سرحد تو بند کر دی لیکن شمال مغربی سرحد کو مادر پدر آزاد کیوں چھوڑا گیا؟ اب بھی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے محض باتیں ہو رہی ہیں' عملی اقدام کیوں نہیں ہو رہے' کیا ہم اے پی ایس پشاور اور چارسدہ یونیورسٹی جیسے کسی تیسرے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں۔
چارسدہ یونیورسٹی سانحہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس واردات سے کئی دن پہلے چار دہشتگردوں نے دو دو کے گروپوں میں طورخم کی سرحد باقاعدہ سرحدی مقام سے عبور کی تھی جن کی نہ تو کوئی پڑتال کی گئی اور نہ ہی کہیں پر رکاوٹ ڈالی گئی۔ اگر یہاں پہ کوئی باقاعدہ نظام ہوتا تو کم از کم دو دہشت گردوں کو ضرور گرفتار کیا جا سکتا تھا اور حملے کو بہ آسانی ناکام بنایا جا سکتا تھا۔ ان چار دہشت گردوں میں سے دو کو نادرا کے بائیو میٹرک نظام کے ذریعے شناخت کر لیا گیا جن میں سے ایک کا تعلق سوات سے جب کہ دوسرے کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا۔
خبروں کے مطابق ان دونوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے تھے۔ اگر ان کو روکا جاتا تو پوچھا جا سکتا تھا کہ آخر ایک سواتی اور ایک وزیرستانی افغانستان سے کیوں آ رہے ہیں اور وہ وہاں کب اور کیوں گئے تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس سرحدی کراسنگ کو مضبوط اور محفوظ نہیں بنا سکے اور نہ ہی سرحد کی مینجمنٹ کو بہتر بنایا جا سکا ہے۔
طورخم اور خیبر کے قبائلی علاقے میں افغانستان سے آنے والوں کے لیے دو باقاعدہ گزر گاہیں ہیں جب کہ اس کے علاوہ سرحد عبور کرنے کی ایک گزر گاہ بلوچستان کے علاقے چمن میں ہے۔ طورخم کی سرحد کا منظر افراتفری کا نمونہ ہے جہاں دونوں اطراف سے ہزاروں افراد سرحد عبور کرتے ہیں جب کہ افغانستان سے آنے اور وہاں جانے والے افراد کی پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں ہے حالانکہ سرکاری اداروں کے اہلکار وہاں متعین ہیں، انھیں آنے جانے والوں کی سخت نگرانی کی ہدایت ہے لیکن شاید انھیں ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ ہر روز کتنی تعداد میں لوگ آتے اور جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ روزانہ دس سے پندرہ ہزار افراد سرحد عبور کرتے ہیں جب کہ ایک دوسرے ذریعے کا تخمینہ ہے کہ سرحد عبور کرنے والوں کی تعداد 25 ہزار سے 28 ہزار کے درمیان ہو گی جن میں سے صرف چند سو کے پاس باقاعدہ ویزا اور پاسپورٹ ہوتا ہے جب کہ بغیر ویزہ پاسپورٹ کے آنے جانے والوں کی روزانہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ وہ خاصہ داروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض کالعدم تنظیموں کے اہلکار بھی ان کے ہمراہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سرحد پر تعینات کیے جانے والے ریاستی اداروں کے افسران ایک دوسرے پر غیر ذمے داری کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے ایک ہفتہ بعد یہ اعلان سننے میں آیا تھا کہ طورخم بارڈر پر پانچ نئے رجسٹریشن پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں تا کہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے تمام افراد کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جا سکے۔ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس عملے کو یہ پتہ نہیں کہ انھوں نے اپنی معلومات کہاں پہنچانی ہیں اور نہ ہی انھیں ان معلومات کو اکٹھا کرنے کے مقصد کا علم ہے۔
یہ ہے پاک افغان سرحد کا احوال' افغانستان کی حکومت نے تو اپنے گھر کو چیچنوں' عربوں' ازبکوں اور تاجکوں کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے بلکہ اب تو افغان کا مطلب ہی ازبک اور تاجک ہوتا ہے لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں کو تو کچھ سوچنا چاہیے' اپنے گھر کی حفاظت کرنا' اسے صاف ستھرا رکھنا' گھر میں نظم و ضبط قائم کرنا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ مہذب ہونے کے ساتھ بہادری و جرات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ ہمیں عربوں سے کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنے گھر سے محبت کرنے کا فن ہی سیکھ لینا چاہیے۔
سعودی عرب کو تو چھوڑیں' کویت' قطر اور متحدہ عرب امارات میں برس ہا برس سے قیام پذیر پاکستانی آج بھی خارجی ہیں اور ہم ہیں کہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا بھی ہمارے گھر میں گھس آئے' ہم اسے پہلے مہمان اور پھر بھائی بنا لیتے ہیں' اس کے بعد ہم انھیں اپنے گھر سے باہر نکال سکتے ہیں اور نہ دہشت گردی کرنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ المیہ ہمارا نہیں افغانوں کا بھی ہے' افغانستان کا آج جو حال ہے' یہ بھی مہمانوں اور پھر بھائی بننے والوں کے کارناموں کا زہریلا پھل ہے۔
ورنہ افغان تو ہماری طرح ہی سادہ دل ہیں اگر سادہ دل نہ ہوتے تو اپنی جنت کو کیوں برباد کراتے۔ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانا افغانوں اور پاکستانیوں دونوں کے لیے ضروری ہے' بے شک ہم بھائی ہوں گے لیکن ہمیں اپنے اپنے گھروں میں آنے والوں کا پتہ تو ہونا چاہیے' اگر ہم نے اس راز نما حقیقت کو پا لیا تو افغانستان میں بھی امن قائم ہو گا اور پاکستان بھی خوش رہے گا۔
پاکستان میں تو صورت حال یہ ہے کہ بنگالی' بہاری بھی باآسانی آ کر یہاں کے شہری بن جاتے ہیں اور افغانستان سے آنے والے بھی بلکہ یہاں تو افریقی باشندے گھومتے پھرتے ہیں اور انھیں کوئی روک کر یہ بھی نہیں پوچھتا کہ جناب اپنا پاسپورٹ' ویزا یا کوئی اور کاغذ دکھا دیں البتہ را کے ایجنٹ گرفتار ہوتے رہتے ہیں' خمینی انقلاب کے بعد ایرانی بھی با آسانی یہاں آتے رہے' یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کسی نے اس پر غور کیا؟ لمبی چوڑی نظریاتی بحث میں الجھنے کے بجائے میں صرف ایک بات کہتا ہوں' اگر ہمارے حکمران' ریاستی مشینری' سیاسی و مذہبی جماعتیں پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے تو یہ ملک اس شعر کی عملی تصویر نہ بنتا
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستہ بنا لیے
رستے انھیں گھروں کے صحن میں بنتے ہیں جن کی دیواریں گر چکی ہوتی ہیں اور صاحب مکان میں اتنی ہمت یا استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ دیواریں تعمیر کر سکے یا رستے بنانے والوں کو روک سکے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں نے مشرقی سرحد تو بند کر دی لیکن شمال مغربی سرحد کو مادر پدر آزاد کیوں چھوڑا گیا؟ اب بھی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے محض باتیں ہو رہی ہیں' عملی اقدام کیوں نہیں ہو رہے' کیا ہم اے پی ایس پشاور اور چارسدہ یونیورسٹی جیسے کسی تیسرے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں۔
چارسدہ یونیورسٹی سانحہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس واردات سے کئی دن پہلے چار دہشتگردوں نے دو دو کے گروپوں میں طورخم کی سرحد باقاعدہ سرحدی مقام سے عبور کی تھی جن کی نہ تو کوئی پڑتال کی گئی اور نہ ہی کہیں پر رکاوٹ ڈالی گئی۔ اگر یہاں پہ کوئی باقاعدہ نظام ہوتا تو کم از کم دو دہشت گردوں کو ضرور گرفتار کیا جا سکتا تھا اور حملے کو بہ آسانی ناکام بنایا جا سکتا تھا۔ ان چار دہشت گردوں میں سے دو کو نادرا کے بائیو میٹرک نظام کے ذریعے شناخت کر لیا گیا جن میں سے ایک کا تعلق سوات سے جب کہ دوسرے کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا۔
خبروں کے مطابق ان دونوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے تھے۔ اگر ان کو روکا جاتا تو پوچھا جا سکتا تھا کہ آخر ایک سواتی اور ایک وزیرستانی افغانستان سے کیوں آ رہے ہیں اور وہ وہاں کب اور کیوں گئے تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس سرحدی کراسنگ کو مضبوط اور محفوظ نہیں بنا سکے اور نہ ہی سرحد کی مینجمنٹ کو بہتر بنایا جا سکا ہے۔
طورخم اور خیبر کے قبائلی علاقے میں افغانستان سے آنے والوں کے لیے دو باقاعدہ گزر گاہیں ہیں جب کہ اس کے علاوہ سرحد عبور کرنے کی ایک گزر گاہ بلوچستان کے علاقے چمن میں ہے۔ طورخم کی سرحد کا منظر افراتفری کا نمونہ ہے جہاں دونوں اطراف سے ہزاروں افراد سرحد عبور کرتے ہیں جب کہ افغانستان سے آنے اور وہاں جانے والے افراد کی پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں ہے حالانکہ سرکاری اداروں کے اہلکار وہاں متعین ہیں، انھیں آنے جانے والوں کی سخت نگرانی کی ہدایت ہے لیکن شاید انھیں ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ ہر روز کتنی تعداد میں لوگ آتے اور جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ روزانہ دس سے پندرہ ہزار افراد سرحد عبور کرتے ہیں جب کہ ایک دوسرے ذریعے کا تخمینہ ہے کہ سرحد عبور کرنے والوں کی تعداد 25 ہزار سے 28 ہزار کے درمیان ہو گی جن میں سے صرف چند سو کے پاس باقاعدہ ویزا اور پاسپورٹ ہوتا ہے جب کہ بغیر ویزہ پاسپورٹ کے آنے جانے والوں کی روزانہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ وہ خاصہ داروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض کالعدم تنظیموں کے اہلکار بھی ان کے ہمراہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سرحد پر تعینات کیے جانے والے ریاستی اداروں کے افسران ایک دوسرے پر غیر ذمے داری کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے ایک ہفتہ بعد یہ اعلان سننے میں آیا تھا کہ طورخم بارڈر پر پانچ نئے رجسٹریشن پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں تا کہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے تمام افراد کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جا سکے۔ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس عملے کو یہ پتہ نہیں کہ انھوں نے اپنی معلومات کہاں پہنچانی ہیں اور نہ ہی انھیں ان معلومات کو اکٹھا کرنے کے مقصد کا علم ہے۔
یہ ہے پاک افغان سرحد کا احوال' افغانستان کی حکومت نے تو اپنے گھر کو چیچنوں' عربوں' ازبکوں اور تاجکوں کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے بلکہ اب تو افغان کا مطلب ہی ازبک اور تاجک ہوتا ہے لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں کو تو کچھ سوچنا چاہیے' اپنے گھر کی حفاظت کرنا' اسے صاف ستھرا رکھنا' گھر میں نظم و ضبط قائم کرنا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ مہذب ہونے کے ساتھ بہادری و جرات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ ہمیں عربوں سے کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنے گھر سے محبت کرنے کا فن ہی سیکھ لینا چاہیے۔
سعودی عرب کو تو چھوڑیں' کویت' قطر اور متحدہ عرب امارات میں برس ہا برس سے قیام پذیر پاکستانی آج بھی خارجی ہیں اور ہم ہیں کہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا بھی ہمارے گھر میں گھس آئے' ہم اسے پہلے مہمان اور پھر بھائی بنا لیتے ہیں' اس کے بعد ہم انھیں اپنے گھر سے باہر نکال سکتے ہیں اور نہ دہشت گردی کرنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ المیہ ہمارا نہیں افغانوں کا بھی ہے' افغانستان کا آج جو حال ہے' یہ بھی مہمانوں اور پھر بھائی بننے والوں کے کارناموں کا زہریلا پھل ہے۔
ورنہ افغان تو ہماری طرح ہی سادہ دل ہیں اگر سادہ دل نہ ہوتے تو اپنی جنت کو کیوں برباد کراتے۔ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانا افغانوں اور پاکستانیوں دونوں کے لیے ضروری ہے' بے شک ہم بھائی ہوں گے لیکن ہمیں اپنے اپنے گھروں میں آنے والوں کا پتہ تو ہونا چاہیے' اگر ہم نے اس راز نما حقیقت کو پا لیا تو افغانستان میں بھی امن قائم ہو گا اور پاکستان بھی خوش رہے گا۔