نہ جانے کی باتیں کیوں
آرمی چیف کی توسیع کا مطالبہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا
سابق صدر آصف علی زرداری کے ایک بیان نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دسمبر میں متوقع ریٹائرمنٹ کی خبروں کو ایک بار پھر موضوع بنا دیا ہے اور پنجاب اسمبلی میں پی پی کے رکن اسمبلی کی پیش کردہ قرارداد نے حکمرانوں کو ایک امتحان میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں ایک واضح وضاحت کے بعد بھی یہ مسئلہ دبا نہیں بلکہ 'جانے کی باتیں جانے دو' کے عنوان سے ایک طویل نظم اخبارات کی زینت بنی اور اسلام آباد میں جنرل راحیل کی تصاویر کے ساتھ لگے پینافلیکس بھی دنیا کو نظر آئے۔
آرمی چیف کی توسیع کا مطالبہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا، جس کی شدید اور سب سے پہلے مخالفت پی پی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کی طرف سے سامنے آئی تھی، حالانکہ پی پی کے حامی سمجھے جانے والے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی توسیع بھی اس وقت کی پی پی حکومت نے دی تھی، جس کی مخالفت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہوئی تھی اور پیپلز پارٹی توسیع کی بھرپور حمایت کر رہی تھی، جس کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں کو پی پی کے دہرے معیار پر حیرت ہوئی تھی اور اب سابق صدر زرداری کے حالیہ بیان نے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سابق صدر چاہتے کیا ہیں۔
سابق صدر کو دس ماہ قبل آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ نہ لینے کے اعلان پر بھی اعتراض ہے اور وہ اس اعلان کو جاری آرمی آپریشن کے سلسلے میں بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ فوجی قیادت کی تبدیلی سے آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ پی پی اب صدر سابق کے بیان سے بھی انحراف کر رہی ہے مگر یہ معاملہ ایک بار پھر عوامی اور سیاسی سطح پر زیر بحث ہے۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاک فوج کو استعمال کر کے متنازعہ بنا دیا تھا، حالانکہ پاک فوج ہمیشہ غیر سیاسی رہی ہے، مگر جس فوجی سربراہ نے فوجی حکومت قائم کی، اس کی فوجی حلقوں کی طرف سے کھلی مخالفت کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ اپنے سربراہ کے فیصلوں کی حمایت فوج کا ڈسپلن رہا ہے۔
فوجی حکومتوں کے قیام کی ذمے داریوں سے ہمارے سیاستدان بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ منتخب حکومتوں کی کوتاہیوں کے باعث ہی فوجی مداخلت ہوئی اور ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ہی ہمیشہ فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ پی پی کے بانی اور وزیر اعظم بھٹو نے 1977ء کی تحریک میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تین شہروں میں مارشل لا لگایا تھا جو بعد میں پورے ملک میں لگ گیا تھا جس کا عوام نے ہی نہیں سیاستدانوں نے بھی زبردست خیرمقدم کیا تھا، مگر پی پی اقتدار چھن جانے پر ناراض تھی۔
2008ء کے عام انتخابات میں پی پی اقتدار میں آئی تھی اور آصف علی زرداری نے بھی صدارت حاصل کر لی تھی۔ اس وقت آرمی چیف پی پی کے حامی تھے، جنھیں بعد میں 3 سال کی توسیع ملی تھی اور پی پی نے پہلی بار اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔ ان پانچ برسوں میں ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ کر بادشاہوں کی طرح چلایا گیا اور نیچے سے اوپر تک کرپشن، من مانیوں، لاقانونیت، اقربا پروری کا جو بازار گرم ہوا وہ دنیا نے دیکھا اور عوام نے بھگتا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جتنی بھی نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں وہ اپنی حرکتوں کے باعث 1999ء تک کوئی اپنی مدت پوری نہ کر سکیں، جس پر اب وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شکوہ کیا ہے کہ عوام سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں منتخب کرتے ہیں مگر توڑ کوئی اور (یعنی فوجی جنرل) دیتا ہے۔
فوجی جنرلوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے سیاسی حکومتوں کے رہنماؤں نے اگر کبھی یہ سوچنے کی زحمت کر لی ہوتی کہ فوجی مداخلت کا موقع جنرلوں کو کون دیتا ہے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ بیرون ملک گئے آرمی چیف کو ایوان وزیر اعظم بلا کر بھی جنرل کرامت کی طرح استعفیٰ لیا جا سکتا تھا تو انھیں کیوں ہٹا کر اپنا پسندیدہ جنرل لایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں خود وزیر اعظم جلاوطن ہوئے اور ملک کو مارشل لا کے بغیر ہی طویل فوجی حکومت برداشت کرنا پڑی۔
عوام کی منتخب کہلانے والی جمہوری حکومتیں فوجی جنرلوں نے ہی نہیں بلکہ سویلین صدور نے بھی برطرف کی تھیں اور محترمہ کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو کیوں توڑنے پر مجبور ہو گئے تھے، جس کی وجوہات ضرور تھیں اور خود پی پی حکومت نے اپنے ہی صدر کو حکومت کی برطرفی کا موقع دیا تھا۔ ہر سیاسی حکومت کی برطرفی میں غلطیاں خود ان کی اپنی تھیں مگر کسی نے بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک نام نہاد جمہوری حکومتوں نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کے نام پر جو کیا، ایسا تو کبھی فوج کی حکومتوں میں بھی نہیں ہوا۔ جتنی کرپشن سیاسی حکومتوں میں ہوئی، اتنی کرپشن کسی فوجی حکومت میں نہیں سنی گئی۔
جنرل مشرف اقتدار میں آ کر جب تک سیاستدانوں سے دور رہے ان کی حکومت بدنام ہوئی نہ ان پر کرپشن کے الزامات لگے، مگر جب انھوں نے سیاسی حمایت کے لیے سیاستدانوں کو شامل اقتدار کیا تو یہ وہی سیاستدان تھے جو جنرل مشرف کو فخر سے فوجی وردی میں صدر منتخب کرایا کرتے تھے۔ وہ بھی سیاستدان تھے جنھوں نے اپنی کرپشن معاف کرانے کے لیے مشرف سے این آر او کرایا تھا۔
موجودہ وزیر اعظم نواز شریف برسوں کہتے رہے کہ انھوں نے جنرل پرویز سے معاہدہ کر کے جلاوطنی اختیار نہیں کی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں نے کبھی تو اصول بنائے ہوتے اور اصولوں پر اقتدار کبھی چھوڑا ہوتا۔ انھوں نے اپنے دور میں ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کی ہوتی تو آج ملک میں جنرل راحیل شریف کو موجودہ شہرت اور عوامی مقبولیت نہ ملتی۔
اب ملک بھر میں جنرل راحیل سے نہ جانے کی اپیلیں ہو رہی ہیں، ان کی تصاویر آویزاں کی جا رہی ہیں۔ عدالتوں سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں توسیع کی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ اس کی ذمے داری جنرل راحیل پر نہیں موجودہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ دھرنوں سے اقتدار کا حصول سیاستدانوں کا مقصد تھا۔ اپنے لوگوں کو کرپشن سے بچانے کے لیے سیاستدان ہی سرگرم ہیں۔
جنرل راحیل نے خود کو غیر سیاسی رکھ کر موجودہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ یہ واحد آرمی چیف ہیں جو حکومت، اپوزیشن اور عوام کی مکمل حمایت رکھتے ہیں اور اپنی توسیع بھی نہیں چاہتے۔ ملک میں اگر جنرل راحیل شریف کے لیے ریفرنڈم ہو تو سیاستدانوں کو اپنی مقبولیت کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں جنرل راحیل کو عزت کیوں ملی ہے اور لوگ انھیں مزید جنرل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اپنے اصولوں پر جنرل راحیل کی طرح ثابت قدم رہ کر اپنے بجائے ملک و قوم کی حقیقی خدمت پر توجہ دینا ہو گی تاکہ انھیں سیاست میں حقیقی عوامی مقبولیت حاصل ہو سکے وگرنہ جھوٹے اعلانات اور جھوٹی تشہیر مستقل راس نہیں آئے گی۔
آرمی چیف کی توسیع کا مطالبہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا، جس کی شدید اور سب سے پہلے مخالفت پی پی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کی طرف سے سامنے آئی تھی، حالانکہ پی پی کے حامی سمجھے جانے والے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی توسیع بھی اس وقت کی پی پی حکومت نے دی تھی، جس کی مخالفت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہوئی تھی اور پیپلز پارٹی توسیع کی بھرپور حمایت کر رہی تھی، جس کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں کو پی پی کے دہرے معیار پر حیرت ہوئی تھی اور اب سابق صدر زرداری کے حالیہ بیان نے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سابق صدر چاہتے کیا ہیں۔
سابق صدر کو دس ماہ قبل آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ نہ لینے کے اعلان پر بھی اعتراض ہے اور وہ اس اعلان کو جاری آرمی آپریشن کے سلسلے میں بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ فوجی قیادت کی تبدیلی سے آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ پی پی اب صدر سابق کے بیان سے بھی انحراف کر رہی ہے مگر یہ معاملہ ایک بار پھر عوامی اور سیاسی سطح پر زیر بحث ہے۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاک فوج کو استعمال کر کے متنازعہ بنا دیا تھا، حالانکہ پاک فوج ہمیشہ غیر سیاسی رہی ہے، مگر جس فوجی سربراہ نے فوجی حکومت قائم کی، اس کی فوجی حلقوں کی طرف سے کھلی مخالفت کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ اپنے سربراہ کے فیصلوں کی حمایت فوج کا ڈسپلن رہا ہے۔
فوجی حکومتوں کے قیام کی ذمے داریوں سے ہمارے سیاستدان بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ منتخب حکومتوں کی کوتاہیوں کے باعث ہی فوجی مداخلت ہوئی اور ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ہی ہمیشہ فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ پی پی کے بانی اور وزیر اعظم بھٹو نے 1977ء کی تحریک میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تین شہروں میں مارشل لا لگایا تھا جو بعد میں پورے ملک میں لگ گیا تھا جس کا عوام نے ہی نہیں سیاستدانوں نے بھی زبردست خیرمقدم کیا تھا، مگر پی پی اقتدار چھن جانے پر ناراض تھی۔
2008ء کے عام انتخابات میں پی پی اقتدار میں آئی تھی اور آصف علی زرداری نے بھی صدارت حاصل کر لی تھی۔ اس وقت آرمی چیف پی پی کے حامی تھے، جنھیں بعد میں 3 سال کی توسیع ملی تھی اور پی پی نے پہلی بار اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔ ان پانچ برسوں میں ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ کر بادشاہوں کی طرح چلایا گیا اور نیچے سے اوپر تک کرپشن، من مانیوں، لاقانونیت، اقربا پروری کا جو بازار گرم ہوا وہ دنیا نے دیکھا اور عوام نے بھگتا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جتنی بھی نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں وہ اپنی حرکتوں کے باعث 1999ء تک کوئی اپنی مدت پوری نہ کر سکیں، جس پر اب وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شکوہ کیا ہے کہ عوام سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں منتخب کرتے ہیں مگر توڑ کوئی اور (یعنی فوجی جنرل) دیتا ہے۔
فوجی جنرلوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے سیاسی حکومتوں کے رہنماؤں نے اگر کبھی یہ سوچنے کی زحمت کر لی ہوتی کہ فوجی مداخلت کا موقع جنرلوں کو کون دیتا ہے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ بیرون ملک گئے آرمی چیف کو ایوان وزیر اعظم بلا کر بھی جنرل کرامت کی طرح استعفیٰ لیا جا سکتا تھا تو انھیں کیوں ہٹا کر اپنا پسندیدہ جنرل لایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں خود وزیر اعظم جلاوطن ہوئے اور ملک کو مارشل لا کے بغیر ہی طویل فوجی حکومت برداشت کرنا پڑی۔
عوام کی منتخب کہلانے والی جمہوری حکومتیں فوجی جنرلوں نے ہی نہیں بلکہ سویلین صدور نے بھی برطرف کی تھیں اور محترمہ کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو کیوں توڑنے پر مجبور ہو گئے تھے، جس کی وجوہات ضرور تھیں اور خود پی پی حکومت نے اپنے ہی صدر کو حکومت کی برطرفی کا موقع دیا تھا۔ ہر سیاسی حکومت کی برطرفی میں غلطیاں خود ان کی اپنی تھیں مگر کسی نے بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک نام نہاد جمہوری حکومتوں نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کے نام پر جو کیا، ایسا تو کبھی فوج کی حکومتوں میں بھی نہیں ہوا۔ جتنی کرپشن سیاسی حکومتوں میں ہوئی، اتنی کرپشن کسی فوجی حکومت میں نہیں سنی گئی۔
جنرل مشرف اقتدار میں آ کر جب تک سیاستدانوں سے دور رہے ان کی حکومت بدنام ہوئی نہ ان پر کرپشن کے الزامات لگے، مگر جب انھوں نے سیاسی حمایت کے لیے سیاستدانوں کو شامل اقتدار کیا تو یہ وہی سیاستدان تھے جو جنرل مشرف کو فخر سے فوجی وردی میں صدر منتخب کرایا کرتے تھے۔ وہ بھی سیاستدان تھے جنھوں نے اپنی کرپشن معاف کرانے کے لیے مشرف سے این آر او کرایا تھا۔
موجودہ وزیر اعظم نواز شریف برسوں کہتے رہے کہ انھوں نے جنرل پرویز سے معاہدہ کر کے جلاوطنی اختیار نہیں کی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں نے کبھی تو اصول بنائے ہوتے اور اصولوں پر اقتدار کبھی چھوڑا ہوتا۔ انھوں نے اپنے دور میں ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کی ہوتی تو آج ملک میں جنرل راحیل شریف کو موجودہ شہرت اور عوامی مقبولیت نہ ملتی۔
اب ملک بھر میں جنرل راحیل سے نہ جانے کی اپیلیں ہو رہی ہیں، ان کی تصاویر آویزاں کی جا رہی ہیں۔ عدالتوں سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں توسیع کی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ اس کی ذمے داری جنرل راحیل پر نہیں موجودہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ دھرنوں سے اقتدار کا حصول سیاستدانوں کا مقصد تھا۔ اپنے لوگوں کو کرپشن سے بچانے کے لیے سیاستدان ہی سرگرم ہیں۔
جنرل راحیل نے خود کو غیر سیاسی رکھ کر موجودہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ یہ واحد آرمی چیف ہیں جو حکومت، اپوزیشن اور عوام کی مکمل حمایت رکھتے ہیں اور اپنی توسیع بھی نہیں چاہتے۔ ملک میں اگر جنرل راحیل شریف کے لیے ریفرنڈم ہو تو سیاستدانوں کو اپنی مقبولیت کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں جنرل راحیل کو عزت کیوں ملی ہے اور لوگ انھیں مزید جنرل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اپنے اصولوں پر جنرل راحیل کی طرح ثابت قدم رہ کر اپنے بجائے ملک و قوم کی حقیقی خدمت پر توجہ دینا ہو گی تاکہ انھیں سیاست میں حقیقی عوامی مقبولیت حاصل ہو سکے وگرنہ جھوٹے اعلانات اور جھوٹی تشہیر مستقل راس نہیں آئے گی۔