پاکستان اسٹیل اور جدہ کی فیکٹری
ان میں قابلیت اور میرٹ کے بجائے صرف سفارش اور سیاسی وابستگیوں کو مدنظر رکھا گیا۔
یہ بات سارے پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے جب اپنے ترقی پسند نظریات کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا تو سب پہلا کام پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے کئی ادارے، بینک، اسکول، ملیں، کارخانے اور فیکٹریوں سمیت کئی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ ملک کے بائیس امیر خاندانوں کی امارت کو جواز بنا کر انھوں نے پاکستان کی ترقی کا وہ سارا انفرااسٹرکچر تہہ و بالا کر ڈالا، جسے بنانے میں قوم کے کئی برس لگ چکے تھے۔
ابتدا میں تو یہ سب کچھ بہت ہی دلفریب اور انقلابی لگ رہا تھا اور روٹی، کپڑا، مکان کے سحر انگیز اور طلسماتی خوابوں کی حسین تصویر اور تعبیر لگ رہی تھی۔ وطنِ عزیز کو دولخت ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے اور حکمرانوں کی جانب سے ایک نیا پاکستان بنانے کے دلکش اور خوبصورت وعدے اور دعوے کیے جا رہے تھے۔ اس لیے کسی نے ان کی نہ کوئی مخالفت کی اور نہ کوئی مزاحمت۔ انھیں وہ کچھ کرنے دیا گیا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ قومیائے گئے اداروں میں انھوں نے اپنی مرضی سے دھڑا دھڑ بھرتیاں کیں۔ ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ افراد کو نوکریاں دی گئیں۔
ان میں قابلیت اور میرٹ کے بجائے صرف سفارش اور سیاسی وابستگیوں کو مدنظر رکھا گیا۔ کیونکہ اب یہ ساری نوکریاں سرکاری کنٹرول میں تھیں، لہٰذا کام نہ کرنے کی صورت میں نکالے جانے کا خوف لوگوں کے دلوں سے جاتا رہا۔ خلاف توقع تنخواہیں بھی بڑھ گئیں اور کام نہ کرنے پر اوور ٹائم کے نام پر اضافی بونس بھی ملنے لگا۔ رفتہ رفتہ تمام منافع بخش ادارے اندر ہی اندر سے کھوکھلے اور کنگال ہوتے چلے گئے اور ان میں سے بیشتر دیوالیہ ہونے کی حدوں کو چھونے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومی خزانے سے ہر ماہ کثیر رقم دے کر انھیں زندہ رکھا جانے لگا۔ ان میں سے ایک ہماری بھاری بھرکم اسٹیل ملز بھی ہے جو آج ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے حیات و موت کی کشمکش سے دوچار ہے۔
ہمارے یہاں بہت سے سینئر سیاستدان اور دانشور آج کل ٹی وی پر بیٹھ کر اکثر استہزائی اور تنقیدی لہجے میں یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ میاں صاحب سے جدہ میں اپنی فیکٹری تو کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے لیکن پاکستان اسٹیل ملز نہیں چلائی جاتی۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی فیکٹری یا کارخانے کو چلانا اور بات ہے اور سرکاری تحویل میں کسی ادارے کو چلانا اور۔ دنیا کا کوئی سرمایہ دار، کوئی بزنس مین اپنے ادارے کو چلانے کے لیے ضرر رساں پالیسیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وہاں نااہل اور ناکارہ لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہاں صرف اہلیت، قابلیت اور کارکردگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جو شخص مناسب اور بہتر طریقے سے کام کرے گا وہی اپنی نوکری پر رہ سکتا ہے۔ کام چور اور مفت خور وہاں پَل نہیں سکتا۔ سرکاری محکموں کی مانند کوئی مزدور یونین وہاں ان کا ناجائز تحفظ یا سرپرستی نہیں کرتی۔ ہر فرد صرف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی وہاں ملازمت کرتا ہے۔ وہاں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ صبح سویرے کوئی حاضری یہاں لگائے اور پھر نوکری کہیں اور جا کر کرے۔
وہاں کسی کو کام کیے بنا اوورٹائم نہیں ملتا نہ گھر بیٹھے تنخواہ لینے کا نظام رائج ہوتا ہے۔ وہاں چوروں اور ڈاکوؤں کو ٹھیکہ دینے کا رواج بھی نہیں ہوتا۔ وہاں سارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز آج کیوں بند پڑی ہے۔ اسے اس حال میں کس نے پہنچایا ہے۔ وہاںمن پسند افراد کو چیئرمین نامزد کرنے والے کون ہیں۔ کس نے وہاں لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔ کس نے فرنٹ مینوں کو وہاں ٹھیکے دلائے۔ کس نے مزدور یونین کو بے لگام آزادیاں دیں۔ جس تھالی میں یہ من وسلوی اترتا تھا اسی میں چھید کس نے کیے؟ اسٹیل ملز کو تباہ کرنے والے خود اس کے اپنے افسران ہیں میڈیکل کی سہولتوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے غیروں کا مفت علاج بھی فیملی کے کھاتے میں کرواتے رہے۔
پینل کے ڈاکٹروں، اسپتالوں کے علاوہ ادارے سے منسلک تمام کمپنیوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا۔ اﷲ کی دی ہوئی اس نعمت کی کسی نے قدر نہیں کی، اور نتیجتاً آج ان کی اپنی تنخواہوں کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اب بھلا کون اس اسٹیل ملز کو پھر سے فعال اور منافع بخش بنا سکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ اسٹاف اور ان کی مراعات سمیت دیگر نقصانات کا تخمینہ اربوں اور کھربوں روپوں میں ہے۔ موجودہ حکومت نے تو کھلی آفر دی تھی کہ وہ اگر اسے اپنے طور پر چلانا چاہیں تو بخوشی لے سکتے ہیں۔ مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
پی ٹی آئی کے اسد عمر جب مذاق اڑاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ میاں صاحب سے اپنی جدہ والی فیکٹری تو چل سکتی ہے لیکن اسٹیل ملز کیوں نہیں۔ تو ہمیں ان کی ذہانت اور بصیرت پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ انھیں اتنی سادہ سی بات معلوم نہیں کہ نجی ملکیت میں کسی ادارے یا فیکٹری کو چلانا اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے کسی بگڑے ہوئے سرکاری ادارے کو چلانا دو بالکل مختلف کام ہیں۔ جہاں کام چوروں اور کرپشن کرنے والوں کو نکالا بھی نہ جا سکتا ہو جس ادارے کے اخراجات اس کی آمدنی سے بہت زیادہ ہوں۔
اس کا موازنہ بھلا پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے کسی ادارے سے کیسے ممکن ہے۔ اسد عمر ایم بی اے ہیں اور بزنس کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف بھی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل کو اس حال میں پہنچانے والے کون ہیں لیکن وہ ان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتے لیکن کوئی اگر اسے نجی تحویل میں دینے کی کوشش کرے تو وہ اس کے خلاف سرگرم ہوکر میدان میں اتر آتے ہیں۔ لفاظی اور بیانوں سے محض تنقید کر کے حکمرانوں کی مصالحانہ اور مخلصانہ کوششوں کو ناکام بنانے کی سعی کرتے ہیں۔
خود ان کے پاس اسٹیل ملز کو منافع بخش انداز میں چلانے کی کوئی تجویز، فارمولا یا طریقہ کار نہیں ہے۔ لیکن مخالفت ضرور کرنی ہے۔ کیونکہ وہ اگر ایسا نہ کریں تو وہ اور ان کی پارٹی کے شب و روز کیسے گزریں۔ ملک میں کوئی بھی ترقیاتی کام ہو، میٹرو بس لانی ہو، اورنج ٹرین چلانی ہو، موٹر ویز بنانی ہوں، پی آئی اے یا کسی اور ادارے کو پرائیویٹائز کرنا ہو وہ اور ان کے ساتھی سارے کام چھوڑ کر اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ان تین سال میں پہلے کی نسبت کئی اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ بیرونی امداد یا قرضے لیے گئے ہیں تو پھر کچھ ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے آنے والوں نے بھی قرضے لیے لیکن کوئی ترقیاتی کام نہ کیا۔ اداروں کی اصلاح اور انھیں منافع بخش بنانے کی کوششیں بھی آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ملک کے اندر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا، گیس کی قلت کا سدباب کرنا، پاکستان ریلوے کو بہتر اور جدید بنانا کوئی آسان کام نہیں تھے۔
کسی جمہوری دور میں پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ بھی اسی حکومت کو جاتا ہے۔ ملک میں اب اٹھارہ سال بعد مردم شماری کے انعقاد کا امکان پیدا ہوا ہے، جب کہ اسے 2008ء میں ہو جانا چاہیے تھا۔ جن لوگوں نے اپنے دور اقتدار میں اسے بھی ٹالے رکھا وہی آج اسے اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر، اپنے خدشات اور تحفظات لے کر ایک بار پھر کالا باغ ڈیم اور اکنامک کوریڈور کی طرح اسے متنازع بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ ہماری جمہوری سیاست کا المیہ ہے کہ خود بھی کوئی کام نہ کرو اور کوئی دوسرا اگر کرنا چاہے تو اسے بھی کرنے نہ دو۔
ابتدا میں تو یہ سب کچھ بہت ہی دلفریب اور انقلابی لگ رہا تھا اور روٹی، کپڑا، مکان کے سحر انگیز اور طلسماتی خوابوں کی حسین تصویر اور تعبیر لگ رہی تھی۔ وطنِ عزیز کو دولخت ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے اور حکمرانوں کی جانب سے ایک نیا پاکستان بنانے کے دلکش اور خوبصورت وعدے اور دعوے کیے جا رہے تھے۔ اس لیے کسی نے ان کی نہ کوئی مخالفت کی اور نہ کوئی مزاحمت۔ انھیں وہ کچھ کرنے دیا گیا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ قومیائے گئے اداروں میں انھوں نے اپنی مرضی سے دھڑا دھڑ بھرتیاں کیں۔ ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ افراد کو نوکریاں دی گئیں۔
ان میں قابلیت اور میرٹ کے بجائے صرف سفارش اور سیاسی وابستگیوں کو مدنظر رکھا گیا۔ کیونکہ اب یہ ساری نوکریاں سرکاری کنٹرول میں تھیں، لہٰذا کام نہ کرنے کی صورت میں نکالے جانے کا خوف لوگوں کے دلوں سے جاتا رہا۔ خلاف توقع تنخواہیں بھی بڑھ گئیں اور کام نہ کرنے پر اوور ٹائم کے نام پر اضافی بونس بھی ملنے لگا۔ رفتہ رفتہ تمام منافع بخش ادارے اندر ہی اندر سے کھوکھلے اور کنگال ہوتے چلے گئے اور ان میں سے بیشتر دیوالیہ ہونے کی حدوں کو چھونے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومی خزانے سے ہر ماہ کثیر رقم دے کر انھیں زندہ رکھا جانے لگا۔ ان میں سے ایک ہماری بھاری بھرکم اسٹیل ملز بھی ہے جو آج ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے حیات و موت کی کشمکش سے دوچار ہے۔
ہمارے یہاں بہت سے سینئر سیاستدان اور دانشور آج کل ٹی وی پر بیٹھ کر اکثر استہزائی اور تنقیدی لہجے میں یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ میاں صاحب سے جدہ میں اپنی فیکٹری تو کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے لیکن پاکستان اسٹیل ملز نہیں چلائی جاتی۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی فیکٹری یا کارخانے کو چلانا اور بات ہے اور سرکاری تحویل میں کسی ادارے کو چلانا اور۔ دنیا کا کوئی سرمایہ دار، کوئی بزنس مین اپنے ادارے کو چلانے کے لیے ضرر رساں پالیسیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وہاں نااہل اور ناکارہ لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہاں صرف اہلیت، قابلیت اور کارکردگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جو شخص مناسب اور بہتر طریقے سے کام کرے گا وہی اپنی نوکری پر رہ سکتا ہے۔ کام چور اور مفت خور وہاں پَل نہیں سکتا۔ سرکاری محکموں کی مانند کوئی مزدور یونین وہاں ان کا ناجائز تحفظ یا سرپرستی نہیں کرتی۔ ہر فرد صرف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی وہاں ملازمت کرتا ہے۔ وہاں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ صبح سویرے کوئی حاضری یہاں لگائے اور پھر نوکری کہیں اور جا کر کرے۔
وہاں کسی کو کام کیے بنا اوورٹائم نہیں ملتا نہ گھر بیٹھے تنخواہ لینے کا نظام رائج ہوتا ہے۔ وہاں چوروں اور ڈاکوؤں کو ٹھیکہ دینے کا رواج بھی نہیں ہوتا۔ وہاں سارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز آج کیوں بند پڑی ہے۔ اسے اس حال میں کس نے پہنچایا ہے۔ وہاںمن پسند افراد کو چیئرمین نامزد کرنے والے کون ہیں۔ کس نے وہاں لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔ کس نے فرنٹ مینوں کو وہاں ٹھیکے دلائے۔ کس نے مزدور یونین کو بے لگام آزادیاں دیں۔ جس تھالی میں یہ من وسلوی اترتا تھا اسی میں چھید کس نے کیے؟ اسٹیل ملز کو تباہ کرنے والے خود اس کے اپنے افسران ہیں میڈیکل کی سہولتوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے غیروں کا مفت علاج بھی فیملی کے کھاتے میں کرواتے رہے۔
پینل کے ڈاکٹروں، اسپتالوں کے علاوہ ادارے سے منسلک تمام کمپنیوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا۔ اﷲ کی دی ہوئی اس نعمت کی کسی نے قدر نہیں کی، اور نتیجتاً آج ان کی اپنی تنخواہوں کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اب بھلا کون اس اسٹیل ملز کو پھر سے فعال اور منافع بخش بنا سکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ اسٹاف اور ان کی مراعات سمیت دیگر نقصانات کا تخمینہ اربوں اور کھربوں روپوں میں ہے۔ موجودہ حکومت نے تو کھلی آفر دی تھی کہ وہ اگر اسے اپنے طور پر چلانا چاہیں تو بخوشی لے سکتے ہیں۔ مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
پی ٹی آئی کے اسد عمر جب مذاق اڑاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ میاں صاحب سے اپنی جدہ والی فیکٹری تو چل سکتی ہے لیکن اسٹیل ملز کیوں نہیں۔ تو ہمیں ان کی ذہانت اور بصیرت پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ انھیں اتنی سادہ سی بات معلوم نہیں کہ نجی ملکیت میں کسی ادارے یا فیکٹری کو چلانا اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے کسی بگڑے ہوئے سرکاری ادارے کو چلانا دو بالکل مختلف کام ہیں۔ جہاں کام چوروں اور کرپشن کرنے والوں کو نکالا بھی نہ جا سکتا ہو جس ادارے کے اخراجات اس کی آمدنی سے بہت زیادہ ہوں۔
اس کا موازنہ بھلا پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے کسی ادارے سے کیسے ممکن ہے۔ اسد عمر ایم بی اے ہیں اور بزنس کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف بھی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل کو اس حال میں پہنچانے والے کون ہیں لیکن وہ ان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتے لیکن کوئی اگر اسے نجی تحویل میں دینے کی کوشش کرے تو وہ اس کے خلاف سرگرم ہوکر میدان میں اتر آتے ہیں۔ لفاظی اور بیانوں سے محض تنقید کر کے حکمرانوں کی مصالحانہ اور مخلصانہ کوششوں کو ناکام بنانے کی سعی کرتے ہیں۔
خود ان کے پاس اسٹیل ملز کو منافع بخش انداز میں چلانے کی کوئی تجویز، فارمولا یا طریقہ کار نہیں ہے۔ لیکن مخالفت ضرور کرنی ہے۔ کیونکہ وہ اگر ایسا نہ کریں تو وہ اور ان کی پارٹی کے شب و روز کیسے گزریں۔ ملک میں کوئی بھی ترقیاتی کام ہو، میٹرو بس لانی ہو، اورنج ٹرین چلانی ہو، موٹر ویز بنانی ہوں، پی آئی اے یا کسی اور ادارے کو پرائیویٹائز کرنا ہو وہ اور ان کے ساتھی سارے کام چھوڑ کر اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ان تین سال میں پہلے کی نسبت کئی اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ بیرونی امداد یا قرضے لیے گئے ہیں تو پھر کچھ ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے آنے والوں نے بھی قرضے لیے لیکن کوئی ترقیاتی کام نہ کیا۔ اداروں کی اصلاح اور انھیں منافع بخش بنانے کی کوششیں بھی آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ملک کے اندر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا، گیس کی قلت کا سدباب کرنا، پاکستان ریلوے کو بہتر اور جدید بنانا کوئی آسان کام نہیں تھے۔
کسی جمہوری دور میں پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ بھی اسی حکومت کو جاتا ہے۔ ملک میں اب اٹھارہ سال بعد مردم شماری کے انعقاد کا امکان پیدا ہوا ہے، جب کہ اسے 2008ء میں ہو جانا چاہیے تھا۔ جن لوگوں نے اپنے دور اقتدار میں اسے بھی ٹالے رکھا وہی آج اسے اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر، اپنے خدشات اور تحفظات لے کر ایک بار پھر کالا باغ ڈیم اور اکنامک کوریڈور کی طرح اسے متنازع بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ ہماری جمہوری سیاست کا المیہ ہے کہ خود بھی کوئی کام نہ کرو اور کوئی دوسرا اگر کرنا چاہے تو اسے بھی کرنے نہ دو۔