میانداد کے ایک چھکے کا آسیب

کوارٹر فائنل سے پاکستان کی کامیابی کے سلسلے کا آغاز ہو اور سیمی فائنل اور فائنل سے ہوتا


نعیم شاہ March 02, 2016
[email protected]

1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ تھا اور رمضان کا مہینہ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنے ابتدائی میچوں میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل شکست کھانے کے بعد پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے شرمناک مرحلے تک پہنچ چکی تھی۔ پے در پے شکست کے بعد قوم مایوس تھی۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا لہٰذا پوری قوم ان دنوں روزے رکھ کر پانچوں نمازوں کے بعد ایک ہی دعا کرتی کہ پاکستان ورلڈ کپ جیت جائے۔ اچانک قدرت مہربان ہوئی، روزے داروں کی دعاؤں نے اثر دکھایا۔

پاکستان اس روز انگلینڈ سے مقابلہ کر رہا تھا، بدقسمتی سے اس میچ میں بھی شکست فاش سے دوچار ہونے کے قریب تھا کہ آسمان پر بادل گرجنے لگے، بارش رحمت بن کر آئی اور پوری پاکستانی قوم کے کلیجوں کو ٹھنڈا کرنے لگی۔ بارش کے باعث بار بار کھیل رکنے اور شروع ہونے لگا۔ لیکن بالآخر موسلادھار بارش شروع ہو جانے کی وجہ سے اس میچ کو بے نتیجہ ہی ختم کرنا پڑا۔ دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا۔ یوں پاکستان کے حصے میں ایک قیمتی پوائنٹ آ گیا اور وہی اسے کوارٹر فائنل تک لے جانے کی وجہ بنا۔

کوارٹر فائنل سے پاکستان کی کامیابی کے سلسلے کا آغاز ہو اور سیمی فائنل اور فائنل سے ہوتا ہوا ورلڈ کپ ٹرافی ہاتھوں پر بلند کرنے تک جاری رہا۔ ان تینوں بڑے میچوں میں پاکستان کی کامیابی کے لیے خدا نے ایک ایسے کھلاڑی کا انتخاب کیا جو اس سے پہلے بھی کئی بار ملک کی عزت بڑھانے کا باعث بن چکا تھا، جس کا ماضی فتوحات اور ریکارڈز سے بھرا ہوا تھا، جو پہلے بھی پاکستان کو کئی ہارے ہوئے میچ جتوا چکا تھا۔ وہ کھلاڑی تھا 'جاوید میاندادا'۔ یہ ان ہی کی ذمے دارانہ بیٹنگ تھی جس کی بدولت پاکستان ورلڈ کپ کے وہ آخری تینوں میچ جیت سکا۔

کوارٹر، سیمی اور پھر فائنل میں بھی پاکستانی اوپنرز پہلے راؤنڈ کی طرح جلد آؤٹ ہو کر واپس لوٹ گئے۔ اگر ان نازک موقعوں پر میانداد بیٹنگ لائن کو سنبھالا نہ دیتے تو ان میچوں کا نتیجہ بھی پہلے راؤنڈ سے مختلف نہ ہوتا۔ ان تینوں میچوں میں میانداد تیسرے، چوتھے نمبر پر کھیلنے آتے اور پھر واپس نہ جاتے، ڈٹ جاتے، مزید وکٹیں نہ گرنے دیتے۔ میں نے اتنی ذمے داری سے آج تک کسی کھلاڑی کو کھیلتے نہ دیکھا۔ وہ پاکستان کی فتح کے لیے پوری جان لگا دیتے۔ مجھے یقین ہے اگر میانداد نہ ہوتے تو پاکستان وہ ورلڈ کپ کبھی نہ جیت سکتا۔ یہ میانداد ہی تھے جنھوں نے کوارٹر اور سیمی فائنل میں کریز پر موجود رہ کر دوسری جانب اس وقت کے نووارد انضمام الحق کی رہنمائی کرتے ہوئے انھیں کیریئر کی یادگار اننگز کھیلنے کا موقع فراہم کیا، جو ان دونوں میچوں کی کامیابی کی وجہ بنا۔

میانداد وہ کھلاڑی ہیں جن پر ہمیشہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کا دارومدار رہا۔ 70-ء80ء کی دہائی سے لے کر 1992ء کے ورلڈ کپ جیتنے تک پاکستانی ٹیم ان ہی کی بیٹنگ کے رحم و کرم پر رہی، اگر وہ اسکور کر جاتے تو ٹیم جیت جاتی، ورنہ شکست اس کا مقدر بنتی۔ وہ ہمیشہ ایک سچے پاکستانی ہونے کے ناتے اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک کے وقار کی خاطر کھیلتے نظر آتے۔ 1981ء میں ایک وقت آیا جب عمران خان نے جاوید میانداد کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کر دیا اور خود کپتان بننے کی شرط عائد کر دی۔ میانداد کپتانی کے حقدار ہونے کے باوجود ٹیم کو ٹوٹ پھوٹ اور نقصان سے بچانے کی خاطر اسے انا کا مسئلہ بنائے بغیر خود ان کی کپتانی میں کھیلنے کو تیار ہو گئے۔

یہی وہ پہلے عظیم کرکٹر ہیں جن کا زمانہ عروج میں دین کی جانب رجحان ہوا، جنھوں نے دوران کھیل نماز پڑھنے کی ریت ڈالی، جسے بعد ازاں انضمام الحق، سعید انور، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور شاہد آفریدی نے اپنایا۔ اس سے پہلے 70-80ء کی دہائی میں پاکستانی ٹیم مغربی کلچر میں رنگی رنگین زندگی گزارنے، chill کرنے والی ٹیم تھی، جس کے کچھ کرکٹرز پلے بوائے تک مشہور تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم اور دین کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا، دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ مگر پھر وہ وقت بھی آیا جب دنیا نے میانداد کی صحبت میں 1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران نوجوان کھلاڑیوں کو ان کے ساتھ نصرت فتح علی خان کی قوالیاں سنتے، نماز پڑھتے اور روزے رکھ کر میدان میں اترتے دیکھا۔

جاوید میانداد کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ دنیائے کرکٹ کے پہلے کھلاڑی ہیں جنھوں نے فتح نصیب ہونے پر پہلی دفعہ گراؤنڈ پر 'سجدہ' کیا، جس کے بعد ان کی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے بھی ان کی تقلید کی اور یوں میڈیا و تصاویر کے ذریعے ان کا یہ انداز پھیلتا، شہرت پاتا ہوا سرحد سے باہر نکل کر دیگر ممالک ومسلمان کھلاڑیوں تک جا پہنچا، مثلاً برازیل میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ میں الجیریا کی ٹیم کے چند کھلاڑیوں نے میچ جیتنے کے بعد اسی طرح سجدہ شکر ادا کیا، اسی طرح کا 'سجدہ' یونائیٹڈ اسٹیٹس نیشنل فٹبال لیگ، کینسس چیف کے مشہور ممبر حسین عبداللہ نے بھی کیا۔

لیکن میانداد کا ایک کارنامہ ایسا ہے جس کی نہ صرف یہ کہ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ اس کے اثرات نے پورے بھارت کو ایک دہائی تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ وہ ہے ان کا 1986ء میں شارجہ میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں بھارت کے خلاف آخری گیند پر فیصلہ کن چھکا۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں اتنے زیادہ اثرات اور دور رس نتائج کا حامل چھکا اس سے پہلے کبھی لگا نہ اس کے بعد۔ جس نے نہ صرف بھارتی ٹیم بلکہ پوری بھارتی قوم کے اعصاب شل کر دیے، دس سال تک انھیں پاکستان سے شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار کیے رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد بھارتی ٹیم اکثر اپنے جیتے ہوئے میچ آخری اوورز میں پاکستان سے ہار جاتی۔ یہ اسی ایک چھکے کے اثرات تھے جس نے کئی سال تک انھیں دوبارہ سنبھلنے نہ دیا۔ اس کے پوری بھارتی عوام پر مرتب ہونے والے نفسیاتی اثرات غیر معمولی حد تک تباہ کن تھے، جس کے آسیب نے دس سال تک انھیںاس کے اثرات سے نکلنے نہ دیا۔

اس تاریخی چھکے سے پہلے اور بعد کے اعداد و شمار حیرت انگیز ہیں۔ 1986ء میں لگے اس چھکے سے قبل بھارتی ٹیم کی جیت کا تناسب پاکستان سے بہتر تھا۔ 1978ء سے 1985ء تک کے آٹھ سال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 16 ایک روزہ میچ کھیلے گئے جن میں سے بھارت نے 8 اور پاکستان نے 7 میچ جیتے جب کہ ایک بے نتیجہ رہا۔ مگر مارچ 1986ء میں میانداد کے آخری گیند پر لگائے اس چھکے کے بعد حالات ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئے۔

بھارت جسے پہلے پاکستان پر سبقت تھی، اس کے بعد اگلے دس سال تک پاکستان سے زبردست دباؤ میں کھیلتا اور شکست کھاتا رہا۔ اس چھکے کے بعد اپریل 1986ء سے مارچ 1996ء تک ان دونوں ٹیموں کے درمیان 26 میچ کھیلے گئے جن میں سے 20 میں پاکستان نے فتح حاصل کی، جب کہ صرف 5 میں بھارت کامیابی حاصل کر سکا اور ایک بے نتیجہ رہا۔

جاوید میانداد کے اس چھکے کے تباہ کن اثرات بھارتیوں کے اعصاب پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ پر لکھی گئی پیٹر اوبورن کی کتاب ''The Wounded Tiger'' میں اس شاٹ کو دنیائے کرکٹ کا مشہور ترین شاٹ قرار دیا گیا ہے، جس نے بھارتی ٹیم سمیت ان کی پوری قوم کو ایک دہائی تک آسیب زدہ کیے رکھا۔

میں جاوید میانداد کی بے مثال خدمات پر انھیں اپنی اور قوم کی جانب سے زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں