امریکا پاکستان اور بھارت کے لیے دفاعی پالیسی میں توازن کو مد نظر رکھے سرتاج عزیز
بھارت کی جانب سے مذاکرات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں، مشیر خارجہ
PALLEKELE:
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حفاظت کے لیے پاکستان غیر معمولی اقدامات کا یورپ بھی معترف ہے جب کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے لیے دفاعی پالیسی میں توازن کو مد نظر رکھے۔
واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حفاظت کے لیے پاکستان غیر معمولی اقدامات کا یورپ بھی معترف ہے جب کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے لیے دفاعی پالیسی میں توازن کو مد نظر رکھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کی بحالی کے کوششیں جاری ہیں اور ہم بھارت کی جانب سے مذاکرات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیاجارہا تھا اس لیے جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شمالی وزیرستان سے شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں90 سے 95 فیصد علاقے کو شرپسندوں سے پاک کردیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گرد حملے بھی بہت حد تک کم ہوگئے ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس نے نہ صرف پوری قوم کو ایک کردیا بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردی کے خلاف ایک ہو گئیں جب کہ اے پی ایس سانحے کے بعد 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان شروع کیا گیا جس کا اگلا مرحلہ مدارس اصلاحات کا ہے اوراس کے تحت غیر رجسٹرڈ مدارس بند کیےجارہے ہیں یا ان کی رجسٹریشن کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں بھی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جس سےسرمایہ کار واپس آرہے ہیں جب کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر پاکستان کے تمام شہروں میں کارروائیاں کی جاری ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان سے تعلقات میں بہتری مشکل مرحلہ تھا لہٰذا حکومت نے اس تاثر کو ختم کیا کہ پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اقوام متحدہ افغان امن مذاکرات کے لیے کام کررہے ہیں اور اگلے 10 سے 15دن میں افغان طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات بھی متوقع ہیں۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حفاظت کے لیے پاکستان غیر معمولی اقدامات کا یورپ بھی معترف ہے جب کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے لیے دفاعی پالیسی میں توازن کو مد نظر رکھے۔
واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حفاظت کے لیے پاکستان غیر معمولی اقدامات کا یورپ بھی معترف ہے جب کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے لیے دفاعی پالیسی میں توازن کو مد نظر رکھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کی بحالی کے کوششیں جاری ہیں اور ہم بھارت کی جانب سے مذاکرات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیاجارہا تھا اس لیے جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شمالی وزیرستان سے شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں90 سے 95 فیصد علاقے کو شرپسندوں سے پاک کردیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گرد حملے بھی بہت حد تک کم ہوگئے ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس نے نہ صرف پوری قوم کو ایک کردیا بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردی کے خلاف ایک ہو گئیں جب کہ اے پی ایس سانحے کے بعد 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان شروع کیا گیا جس کا اگلا مرحلہ مدارس اصلاحات کا ہے اوراس کے تحت غیر رجسٹرڈ مدارس بند کیےجارہے ہیں یا ان کی رجسٹریشن کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں بھی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جس سےسرمایہ کار واپس آرہے ہیں جب کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر پاکستان کے تمام شہروں میں کارروائیاں کی جاری ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان سے تعلقات میں بہتری مشکل مرحلہ تھا لہٰذا حکومت نے اس تاثر کو ختم کیا کہ پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اقوام متحدہ افغان امن مذاکرات کے لیے کام کررہے ہیں اور اگلے 10 سے 15دن میں افغان طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات بھی متوقع ہیں۔