سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف مرزااسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے جب کہ غلام اسحاق خان نے صدرکی حیثیت سے آئین کی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے نیوز کانفرنس میں 151 صفحات پر مشتمل فیصلے کے خاص نکات پڑھ کر سنائے۔ فیصلے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور آرمی چیف اسلم بیگ کے علاوہ سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کا بیان حلفی بھی شامل ہے ۔ جس میں رقوم وصول کرنے والوں کے نام درج ہیں۔ اس کے علاوہ 2009 میں آئی بی کے فنڈ سے پنجاب حکومت گرانے کے مقدمے کا فیصلہ بھی اصغر خان کیس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں۔ ایس آئی ایس اور ایم آئی کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غلام اسحاق خان نے صدر مملکت کی حیثیت سے آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی۔ صدر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی سیاسی گروپ کی حمایت کرے۔ یونس حبیب نے چودہ کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا۔ پیسے لینے والوں سے رقم سود کے ساتھ واپس لی جائے۔
واضح رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے میڈیا بریفنگ کے ذریعے کسی کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ صحافیوں کو فیصلے کی انگریزی اور اردو کی کاپیاں بھی فراہم کی گئیں۔