پی سی بی نے عمران خان اورجاوید میانداد کو بطوررول ماڈل چن لیا
غیر ملکی دوروں کے دوران اینٹی کرپشن اور سیکیوٹی حکام کی جانب سے قومی کھلاڑیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسپاٹ فکسنگ اور دیگر غیر قانونی کاموں سے بچنے کے لئے 2 سابق قومی لیجنڈری کھلاڑیوں عمران خان اور جاوید میانداد کو رول ماڈل کے طور پر چن لیا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سینیٹرز کے سوالوں پر جواب دیتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران اینٹی کرپشن اور سیکیورٹی حکام کی جانب سے قومی کھلاڑیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کو غیر قانونی کاموں سے دور رکھنے کے لئے اینٹی کرپشن ایجوکیشن پروگرام بھی شروع کیا گیا جس میں انھیں کسی کے ساتھ ڈیلنگ کرتے وقت خود کو صاف اور شفاف رکھنے کے طریقے بھی بتائے گئے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پی سی بی کی جانب سے قومی کھلاڑیوں کے لئے کتاب 'سر ویون دی ڈیفی نیٹیو آٹو گرافی' کا ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ عمران خان اور میانداد وہ محب وطن کھلاڑی ہیں جن سے میں ملا ہوں اور میں اس کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ دونوں آج ٹیم میں ہوتے تو آپ لوگوں کو میچ فکسنگ سے متعلق خبریں سننے کو نہ مل رہی ہوتیں، دونوں ملک کے لئے مرتے تھے۔
اینٹی کرپشن پروگرام کے تحت پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ اور پلیئرز پر ان کے اثرات کے کچھ حوالے بھی پیش کئے گئے جب کہ میچ فکسنگ کی تاریخ کو پی سی بی کے قوانین کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کو جسٹس عبدالقیوم کی رپورٹ پڑھنے کی بھی تلقین کی گئی جس میں میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں پر پابندی عائد کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اس کے علاوہ کھلاڑیوں کو محمد عامر، آصف اور سلمان بٹ کی 2010 کی اسپاٹ فکسنگ کی ویڈیو بھی دکھائی گئیں۔
موجودہ چیف سلیکٹر اور سابق کوچ ہارون رشید کے مطابق 1997 میں کولمبو میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا میچ فکس تھا جب کہ اسی برس کراچی میں بھارت کے ساتھ ہونے والے میچ کے ایک اوور میں ثقلین مشتاق نے 17 رنز دیئے، ثقلین مشتاق جیسے اسٹار بولرز سے اس قسم کی بولنگ کی توقع نہیں تھی۔
زمیز راجہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ سابق ٹیسٹ کپتان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے پورے کیرئیر میں صرف 1994 کے دورہ سری لنکا میں کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات لگتے دیکھے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سینیٹرز کے سوالوں پر جواب دیتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران اینٹی کرپشن اور سیکیورٹی حکام کی جانب سے قومی کھلاڑیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کو غیر قانونی کاموں سے دور رکھنے کے لئے اینٹی کرپشن ایجوکیشن پروگرام بھی شروع کیا گیا جس میں انھیں کسی کے ساتھ ڈیلنگ کرتے وقت خود کو صاف اور شفاف رکھنے کے طریقے بھی بتائے گئے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پی سی بی کی جانب سے قومی کھلاڑیوں کے لئے کتاب 'سر ویون دی ڈیفی نیٹیو آٹو گرافی' کا ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ عمران خان اور میانداد وہ محب وطن کھلاڑی ہیں جن سے میں ملا ہوں اور میں اس کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ دونوں آج ٹیم میں ہوتے تو آپ لوگوں کو میچ فکسنگ سے متعلق خبریں سننے کو نہ مل رہی ہوتیں، دونوں ملک کے لئے مرتے تھے۔
اینٹی کرپشن پروگرام کے تحت پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ اور پلیئرز پر ان کے اثرات کے کچھ حوالے بھی پیش کئے گئے جب کہ میچ فکسنگ کی تاریخ کو پی سی بی کے قوانین کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کو جسٹس عبدالقیوم کی رپورٹ پڑھنے کی بھی تلقین کی گئی جس میں میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں پر پابندی عائد کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اس کے علاوہ کھلاڑیوں کو محمد عامر، آصف اور سلمان بٹ کی 2010 کی اسپاٹ فکسنگ کی ویڈیو بھی دکھائی گئیں۔
موجودہ چیف سلیکٹر اور سابق کوچ ہارون رشید کے مطابق 1997 میں کولمبو میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا میچ فکس تھا جب کہ اسی برس کراچی میں بھارت کے ساتھ ہونے والے میچ کے ایک اوور میں ثقلین مشتاق نے 17 رنز دیئے، ثقلین مشتاق جیسے اسٹار بولرز سے اس قسم کی بولنگ کی توقع نہیں تھی۔
زمیز راجہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ سابق ٹیسٹ کپتان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے پورے کیرئیر میں صرف 1994 کے دورہ سری لنکا میں کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات لگتے دیکھے۔