’احسن اختر ناز بیتے دنوں کی کہانی‘
سیکڑوں میڈیا پرسنز کے معلم احسن اختر ناز اس طرح اداس کرکے چلے جائیں گے، کبھی سوچا نہیں تھا
ISLAMABAD:
سیکڑوں میڈیا پرسنز کے معلم احسن اختر ناز اس طرح اداس کرکے چلے جائیں گے، کبھی سوچا نہیں تھا ۔ لیکن جب بلاوہ آ جائے تو کوئی رک بھی کیسے سکتا ہے۔ پچھلے ہفتے پنجاب یونیورسٹی لاکالج کے سامنے قبرستان میں احسن اختر ناز کی تدفین ہو چکی ، تو میںخالد ہمایوں صاحب کو ساتھ لے کر بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ہوسٹلز کی طرف نکل آیا، جہاں کبھی احسن اختر نازکے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور ڈائریکٹر ماس کمیونی کیشن کا سابقہ، لاحقہ نہیں لگا تھا، اور وہ صرف احسن اختر ناز ہوا کرتے تھے۔
میں ہوسٹل نمبر 14 کے کمرہ نمبر 38 کے سامنے سے گزرا، تو یوں لگا کہ احسن اختر ناز کہیں آس پاس ہی ہیں، ابھی ان کا قہقہہ گونجے گا، اور وہ کہیں گے، نوجوان ،کہاں گم ہو۔ 'نوجوان' ان کا تکیہ کلام تھا۔ خالد ہمایوں صاحب کو کینٹین پر ان کے ایک پرانے دوست مل گئے، چائے آ گئی تو وہ ان کے ساتھ مشغول ہو گئے اور میں بہت سال پیچھے احسن اختر ناز کے ساتھ بیتے دنوں میں کھو گیا۔
فروری کا مہینہ شروع ہو چکا تھا،مگر پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں سردی ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ اب بھی رات کو بائیک پر نہر کے راستے اچھرہ سے نیوکیمپس ہوسٹل پہنچنے پر چہرہ اور ہاتھ سُن ہو جاتے تھے۔ رات کے نو یا دس بجے ہوں گے۔ احسن اختر ناز کچھ ہی دیر پہلے اپنی ہنڈا سی ڈی 70 پر مرکزجمعیت سے واپس پہنچے تھے اور اپنے بستر پر لحاف اوڑھے شاعری کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ رات سونے سے پہلے اس طرح پڑھنا ان کا معمول تھا ۔ گاہے پڑھتے پڑھتے ہی ان کی آنکھ لگ جاتی اور کتاب ان کے سینے پر دھری رہ جاتی۔ بی کام پارٹ فرسٹ کے امتحانات قریب آ لگے تھے۔ میں بھی کورس کی کوئی کتاب کھول کر بیٹھا تھا۔
تھوڑی دیر میں نیچے کنیٹین سے دودھ پتی بھی آ گئی کہ اس کا آرڈر عام طور پراحسن اختر ناز اوپرکمرے میں آنے سے پہلے دے کر آتے تھے۔ احسن اختر ناز چائے پیتے جاتے تھے اورکسی کسی شعر کو اونچی آواز میں دہراتے اور و اہ واہ بھی کہتے جاتے تھے ۔ اچانک نیچے ہاسٹل کے برآمدے سے چوکیدار کی کڑک آواز گونجی،کمرہ نمر38 ،کمرہ نمر38 ۔ احسن اختر ناز نے میری طرف دیکھا کہ بطور برادر ِخورد مجھے ہی نیچے جاکر فون سننا ہے۔ میں نے سر ِ تسلیم خم کیا۔ نیچے جا کر ریسورکان سے لگایا تو دوسری طرف اعجازچوہدری تھے، جو آجکل پی ٹی آئی کے سرگرم لیڈر ہیں۔ ان دنوںجمعیت کے سیکریٹری جنرل تھے اور بڑی جوشیلی تقریریں کیا کرتے تھے۔کہنے لگے، ناز صاحب سے کہیں ، فوراً مرکز جمعیت آجائیں۔
حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کر دی ہے، ہو سکتا ہے کہ صبح یا آج رات ہی کسی وقت طلبہ تنظیموں کے دفاتربھی سیل کر دیے جائیں۔ اگر ادارہ مطبوعات طلبہ میں کچھ ایسے کاغذات پڑے ہیں ، جن کی بعد میں ان کو ضرورت پڑ سکتی ہے تو ابھی سے آ کے نکال لیں۔ میں نے اوپر آکے احسن اختر ناز کو من وعن یہ پیغام دے دیا ۔ یہ سنتے ہی ان کی نیند اڑ گئی۔ یہ تو بہت برا ہوا ، ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ا ورکچھ ہی دیر میں ان کی ہندا 70 نیوکیمپس پل عبور کرکے پھر سے اچھرہ کی طرف فراٹے بھر رہی تھی۔ میں بھی بطور برادر خورد ان کے ساتھ تھا۔ عام طور پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی وہ باتیں کرتے اور قہقہے لگاتے جاتے تھے ، لیکن آج خلاف معمول وہ چپ چپ تھے۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کو آنے والے دنوں کی سختی کا احساس ہو چکا ہے ۔ مرکزجمعیت پہنچے تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ابھی کوئی پولیس والا اس کے اردگرد منڈلا نہیں رہا ۔ احسن اختر ناز کہنے لگے، نوجوان ، ادھر تو لگتا ہے،کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ اوپر کی منزل پر پہنچے تو اعجاز چوہدری کی پرجوش آواز باہر تک سنائی دے رہی تھیں کہ حکومت کو لگ پتا جائے گا ، طلبہ سے ٹکر لے کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اظہر بلال،جو ان دنوں پنجاب کے ناظم تھے، ان کی آواز بھی وفقہ وقفہ سے سنی جا سکتی تھی۔
احسن اختر ناز مجھے بیرونی کمرے میں بٹھا کر اندر گئے اور کچھ ہی دیر میں اعجاز چوہدری سے ضروری ہدایات لے کر باہر آگئے ۔ پھر مجھے ساتھ لے کر نیچے ادارہ مطبوعات طلبہ کے د فتر میں گئے، ایک دو فائلیں اٹھائیں، بائیک اسٹارٹ کی، ہم سڑک پر نکلے تو دیکھا کہ سامنے جنرل اسٹور پر اعجاز چوہدری اپنی ہنڈا 125 کھڑی کرکے کولڈ ڈرنک پی رہے ہیں۔ احسن اختر ناز نے ان کو بے فکری سے کولڈ ڈرنک پیتے دیکھا توکہنے لگے، نوجوان کو پتا نہیں کہ جمعیت کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہے۔
مسلم ٹاون موڑ سے گزر کر نہر کی سڑک پر چڑھے تو یخ بستہ ہوا نے پھر سے ہمارا استقبال کیا۔گیارہ سے کچھ اوپر کا وقت ہو گا ،جب ہم واپس ہوسٹل پہنچے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی احسن اختر ناز دھڑام سے اپنے بستر پر گرے اورسوگئے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کی یہ پہلی رات تھی۔ اگلے چند ہفتوں میں کیا ہنگامے ہوئے، اور خود احسن اختر ناز پرکیا گزری، یہ بتانے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ احسن اختر ناز اول اول مجھے ملے کہاں، اور کس طرح مجھے ان کی مشفقانہ سرپرستی حاصل ہو گئی۔
گجرات سے اپف ایس سی کرنے کے بعد ہیلے کالج میں داخلہ تو مل گیا، لیکن معلوم ہوا کہ ہوسٹل الاٹمنٹ میں کچھ دن لگ جائیں گے۔ یہ مشکل اس طرح آسان ہو ئی کہ سطوت کلیم صاحب کی معرفت ہوسٹل نمر1 میں عارضی طور پر رہنے کی جگہ مل گئی۔ یہ سرگودھا کے امجد ظہور وڑائچ صاحب کا کمرہ نمبر 129 تھا ۔ احسن اختر ناز ان دنوں دوسرے فلور پر اسرارالحق کے ساتھ کمرہ نمبر113 میں مقیم تھے۔ پہلی نظر میں وہ اس وقت بھی پروفیسر معلوم ہوتے تھے، سر پر گنج گراں مایہ کے آثار ، اور اس پر نظر کا موٹا سا چشمہ۔ صرف ایک چیز ان کے بدستور طالب علم ہونے کی چغلی کھاتی تھی اور وہ ان کی شگفتہ مزاجی تھی۔
دوران گفتگو ان کا ہر دوسرا فقرہ قہقہہ پر ختم ہوتا تھا۔ اس طرح قہقہہ لگاتے ہوئے کبھی کبھی ساتھ بیٹھے دوست کی کمر پر زور دار دھپ بھی رسید کر دیتے تھے ۔ جمعیت کا لڑیچر انھوں نے ضرور پڑھا ہو گا کہ اس کے رکن اور اشاعتی ادارہ کے انچارج تھے ، لیکن جس زمانے میں، میں نے ان کو دیکھا ، وہ مکمل طور پر مطالعہ ء شعروادب کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ نازؔ ان کا تخلص تھا ۔ شعروادب سے چونکہ مجھے بھی دلچسپی تھی ، لہٰذا ان کی خصوصی شفقت کا مستحق قرار پا گیا۔کوئی مہینے بعد میری الاٹمنٹ ہوسٹل نمبر 14 کے کمرہ نمبر 38 میں ہوگئی ۔ اتفاق سے میرے روم میٹ احسن اختر ناز کے جگری دوست تھے۔
ان دنوں ہوسٹل نمبر1 جمعیت کی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔ احسن اختر ناز ان دنوں پھر امتحان کی تیاری سے دوچار تھے ۔ انکو تخلیہ درکار تھا ۔ اس کے لیے ہوسٹل نمبر 14 سے بہتر کوئی جگہ نہیں تھی کہ یہاں ان دنوں جمعیت کا زور نہیں تھا۔ میرے روم میٹ عارضی طور پر کسی اور کمرے میں منتقل ہو گئے اور ان کی جگہ احسن اختر ناز عملا ًمیرے روم میٹ بن گئے ۔ اب ان کے شب وروز میرے سامنے تھے۔ اپنے اس براہ راست مشاہدے کی بنا پر، میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ احسن اختر ناز انتہائی شریف الطبع اور رقیق القلب انسان تھے۔
کبھی کبھی تو لگتا کہ وہ جمعیت کے بجاے کسی اور تنظیم کے رکن ہوتے تو بھی ایسے ہی ہوتے ۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے ، اس لیے ان سے بے تکلفی تو نہیں تھی، لیکن اس عرصے میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ اپنی تنظیمی مصروفیات کی بنا پر وہ گھر سے باہر رہنے پر مجبور تھے، لیکن اپنے والد مجذوبؔ چشتی سے ان کو بڑا لگاؤ تھا۔ جب کبھی اپنے بچپن کا ذکر کرتے اور بتاتے کہ ان کے باپ نے کتنی مشقت کرکے ان کو پالا پوسا ہے، پڑھایا لکھایا ہے تو شدت احساس سے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روز وہ اچھرہ سے نہر کی طرف جانے کے بجائے وحدت روڈ کی طرف ہو گئے ۔ راستے میں کہیں ایک گھر کے سامنے انھوں نے موٹر سائیکل روکی، اندر گئے،اورکچھ ہی دیر میں واپس آ گئے۔ میں نے دیکھا کہ واپسی پر ان کی آنکھوں میں نمی تیر رہی ہے ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور ابھی ہم بھیکے وال موڑ پر ہی تھے کہ میں نے پوچھ لیا ، ناز صاحب، یہ کس کا گھر تھا۔ نوجوان ، یہ میرا ہی گھر تھا ، اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی تھی۔ اس وقت میں یہ معما حل نہیں کر سکا تھا۔
کالم کی تنگی ِ داماں کے پیش نظر پھر سے ان ایام کی طرف لوٹ آتے ہیں،جب نیوکیمپس میں حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ اورہوسٹلزمیدان جنگ بن گئے تھے، جلسے، جلوس، ہڑتالیںاور گرفتاریاں ۔ میں گرفتاری اور رہائی کے عمل سے گزر چکا تھا۔ احسن اختر ناز اپنی اشاعتی ذمے داری کی وجہ سے احتجاجی جلسے جلوسوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے ، لیکن کیمپ جیل لاہور کی یاترا ان کی قسمت میں لکھی جاچکی تھی ۔ مرکز جمعیت کے پاس ہی ایک مسجد ہے ۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں ایک روز تمام کارکنوں کو ادھر اکٹھا ہونے کی ہدایت کی گئی۔
عصر کا وقت تھا۔ احسن اختر ناز کے من میں نجانے کیا سمائی کہ وہ بھی پہنچ گئے ۔ آناً فاناً پولیس نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا۔ اعجاز چوہدری اور دوسرے کارکنوں کے ساتھ احسن اختر ناز بھی دھر لیے گئے، اور پھر اگلے تین مہینے انھوں نے کیمپ جیل لاہور میں ہی گزارے ۔ کتنے ہی ان کے واقعات ہیں، جو ایک ایک کرکے یاد آ رہے ہیں ۔ شاعر نے کہا تھا،
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصرؔ
خار وخس کی طرح بہائے گئے
سیکڑوں میڈیا پرسنز کے معلم احسن اختر ناز اس طرح اداس کرکے چلے جائیں گے، کبھی سوچا نہیں تھا ۔ لیکن جب بلاوہ آ جائے تو کوئی رک بھی کیسے سکتا ہے۔ پچھلے ہفتے پنجاب یونیورسٹی لاکالج کے سامنے قبرستان میں احسن اختر ناز کی تدفین ہو چکی ، تو میںخالد ہمایوں صاحب کو ساتھ لے کر بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ہوسٹلز کی طرف نکل آیا، جہاں کبھی احسن اختر نازکے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور ڈائریکٹر ماس کمیونی کیشن کا سابقہ، لاحقہ نہیں لگا تھا، اور وہ صرف احسن اختر ناز ہوا کرتے تھے۔
میں ہوسٹل نمبر 14 کے کمرہ نمبر 38 کے سامنے سے گزرا، تو یوں لگا کہ احسن اختر ناز کہیں آس پاس ہی ہیں، ابھی ان کا قہقہہ گونجے گا، اور وہ کہیں گے، نوجوان ،کہاں گم ہو۔ 'نوجوان' ان کا تکیہ کلام تھا۔ خالد ہمایوں صاحب کو کینٹین پر ان کے ایک پرانے دوست مل گئے، چائے آ گئی تو وہ ان کے ساتھ مشغول ہو گئے اور میں بہت سال پیچھے احسن اختر ناز کے ساتھ بیتے دنوں میں کھو گیا۔
فروری کا مہینہ شروع ہو چکا تھا،مگر پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں سردی ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ اب بھی رات کو بائیک پر نہر کے راستے اچھرہ سے نیوکیمپس ہوسٹل پہنچنے پر چہرہ اور ہاتھ سُن ہو جاتے تھے۔ رات کے نو یا دس بجے ہوں گے۔ احسن اختر ناز کچھ ہی دیر پہلے اپنی ہنڈا سی ڈی 70 پر مرکزجمعیت سے واپس پہنچے تھے اور اپنے بستر پر لحاف اوڑھے شاعری کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ رات سونے سے پہلے اس طرح پڑھنا ان کا معمول تھا ۔ گاہے پڑھتے پڑھتے ہی ان کی آنکھ لگ جاتی اور کتاب ان کے سینے پر دھری رہ جاتی۔ بی کام پارٹ فرسٹ کے امتحانات قریب آ لگے تھے۔ میں بھی کورس کی کوئی کتاب کھول کر بیٹھا تھا۔
تھوڑی دیر میں نیچے کنیٹین سے دودھ پتی بھی آ گئی کہ اس کا آرڈر عام طور پراحسن اختر ناز اوپرکمرے میں آنے سے پہلے دے کر آتے تھے۔ احسن اختر ناز چائے پیتے جاتے تھے اورکسی کسی شعر کو اونچی آواز میں دہراتے اور و اہ واہ بھی کہتے جاتے تھے ۔ اچانک نیچے ہاسٹل کے برآمدے سے چوکیدار کی کڑک آواز گونجی،کمرہ نمر38 ،کمرہ نمر38 ۔ احسن اختر ناز نے میری طرف دیکھا کہ بطور برادر ِخورد مجھے ہی نیچے جاکر فون سننا ہے۔ میں نے سر ِ تسلیم خم کیا۔ نیچے جا کر ریسورکان سے لگایا تو دوسری طرف اعجازچوہدری تھے، جو آجکل پی ٹی آئی کے سرگرم لیڈر ہیں۔ ان دنوںجمعیت کے سیکریٹری جنرل تھے اور بڑی جوشیلی تقریریں کیا کرتے تھے۔کہنے لگے، ناز صاحب سے کہیں ، فوراً مرکز جمعیت آجائیں۔
حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کر دی ہے، ہو سکتا ہے کہ صبح یا آج رات ہی کسی وقت طلبہ تنظیموں کے دفاتربھی سیل کر دیے جائیں۔ اگر ادارہ مطبوعات طلبہ میں کچھ ایسے کاغذات پڑے ہیں ، جن کی بعد میں ان کو ضرورت پڑ سکتی ہے تو ابھی سے آ کے نکال لیں۔ میں نے اوپر آکے احسن اختر ناز کو من وعن یہ پیغام دے دیا ۔ یہ سنتے ہی ان کی نیند اڑ گئی۔ یہ تو بہت برا ہوا ، ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ا ورکچھ ہی دیر میں ان کی ہندا 70 نیوکیمپس پل عبور کرکے پھر سے اچھرہ کی طرف فراٹے بھر رہی تھی۔ میں بھی بطور برادر خورد ان کے ساتھ تھا۔ عام طور پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی وہ باتیں کرتے اور قہقہے لگاتے جاتے تھے ، لیکن آج خلاف معمول وہ چپ چپ تھے۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کو آنے والے دنوں کی سختی کا احساس ہو چکا ہے ۔ مرکزجمعیت پہنچے تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ابھی کوئی پولیس والا اس کے اردگرد منڈلا نہیں رہا ۔ احسن اختر ناز کہنے لگے، نوجوان ، ادھر تو لگتا ہے،کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ اوپر کی منزل پر پہنچے تو اعجاز چوہدری کی پرجوش آواز باہر تک سنائی دے رہی تھیں کہ حکومت کو لگ پتا جائے گا ، طلبہ سے ٹکر لے کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اظہر بلال،جو ان دنوں پنجاب کے ناظم تھے، ان کی آواز بھی وفقہ وقفہ سے سنی جا سکتی تھی۔
احسن اختر ناز مجھے بیرونی کمرے میں بٹھا کر اندر گئے اور کچھ ہی دیر میں اعجاز چوہدری سے ضروری ہدایات لے کر باہر آگئے ۔ پھر مجھے ساتھ لے کر نیچے ادارہ مطبوعات طلبہ کے د فتر میں گئے، ایک دو فائلیں اٹھائیں، بائیک اسٹارٹ کی، ہم سڑک پر نکلے تو دیکھا کہ سامنے جنرل اسٹور پر اعجاز چوہدری اپنی ہنڈا 125 کھڑی کرکے کولڈ ڈرنک پی رہے ہیں۔ احسن اختر ناز نے ان کو بے فکری سے کولڈ ڈرنک پیتے دیکھا توکہنے لگے، نوجوان کو پتا نہیں کہ جمعیت کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہے۔
مسلم ٹاون موڑ سے گزر کر نہر کی سڑک پر چڑھے تو یخ بستہ ہوا نے پھر سے ہمارا استقبال کیا۔گیارہ سے کچھ اوپر کا وقت ہو گا ،جب ہم واپس ہوسٹل پہنچے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی احسن اختر ناز دھڑام سے اپنے بستر پر گرے اورسوگئے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کی یہ پہلی رات تھی۔ اگلے چند ہفتوں میں کیا ہنگامے ہوئے، اور خود احسن اختر ناز پرکیا گزری، یہ بتانے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ احسن اختر ناز اول اول مجھے ملے کہاں، اور کس طرح مجھے ان کی مشفقانہ سرپرستی حاصل ہو گئی۔
گجرات سے اپف ایس سی کرنے کے بعد ہیلے کالج میں داخلہ تو مل گیا، لیکن معلوم ہوا کہ ہوسٹل الاٹمنٹ میں کچھ دن لگ جائیں گے۔ یہ مشکل اس طرح آسان ہو ئی کہ سطوت کلیم صاحب کی معرفت ہوسٹل نمر1 میں عارضی طور پر رہنے کی جگہ مل گئی۔ یہ سرگودھا کے امجد ظہور وڑائچ صاحب کا کمرہ نمبر 129 تھا ۔ احسن اختر ناز ان دنوں دوسرے فلور پر اسرارالحق کے ساتھ کمرہ نمبر113 میں مقیم تھے۔ پہلی نظر میں وہ اس وقت بھی پروفیسر معلوم ہوتے تھے، سر پر گنج گراں مایہ کے آثار ، اور اس پر نظر کا موٹا سا چشمہ۔ صرف ایک چیز ان کے بدستور طالب علم ہونے کی چغلی کھاتی تھی اور وہ ان کی شگفتہ مزاجی تھی۔
دوران گفتگو ان کا ہر دوسرا فقرہ قہقہہ پر ختم ہوتا تھا۔ اس طرح قہقہہ لگاتے ہوئے کبھی کبھی ساتھ بیٹھے دوست کی کمر پر زور دار دھپ بھی رسید کر دیتے تھے ۔ جمعیت کا لڑیچر انھوں نے ضرور پڑھا ہو گا کہ اس کے رکن اور اشاعتی ادارہ کے انچارج تھے ، لیکن جس زمانے میں، میں نے ان کو دیکھا ، وہ مکمل طور پر مطالعہ ء شعروادب کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ نازؔ ان کا تخلص تھا ۔ شعروادب سے چونکہ مجھے بھی دلچسپی تھی ، لہٰذا ان کی خصوصی شفقت کا مستحق قرار پا گیا۔کوئی مہینے بعد میری الاٹمنٹ ہوسٹل نمبر 14 کے کمرہ نمبر 38 میں ہوگئی ۔ اتفاق سے میرے روم میٹ احسن اختر ناز کے جگری دوست تھے۔
ان دنوں ہوسٹل نمبر1 جمعیت کی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔ احسن اختر ناز ان دنوں پھر امتحان کی تیاری سے دوچار تھے ۔ انکو تخلیہ درکار تھا ۔ اس کے لیے ہوسٹل نمبر 14 سے بہتر کوئی جگہ نہیں تھی کہ یہاں ان دنوں جمعیت کا زور نہیں تھا۔ میرے روم میٹ عارضی طور پر کسی اور کمرے میں منتقل ہو گئے اور ان کی جگہ احسن اختر ناز عملا ًمیرے روم میٹ بن گئے ۔ اب ان کے شب وروز میرے سامنے تھے۔ اپنے اس براہ راست مشاہدے کی بنا پر، میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ احسن اختر ناز انتہائی شریف الطبع اور رقیق القلب انسان تھے۔
کبھی کبھی تو لگتا کہ وہ جمعیت کے بجاے کسی اور تنظیم کے رکن ہوتے تو بھی ایسے ہی ہوتے ۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے ، اس لیے ان سے بے تکلفی تو نہیں تھی، لیکن اس عرصے میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ اپنی تنظیمی مصروفیات کی بنا پر وہ گھر سے باہر رہنے پر مجبور تھے، لیکن اپنے والد مجذوبؔ چشتی سے ان کو بڑا لگاؤ تھا۔ جب کبھی اپنے بچپن کا ذکر کرتے اور بتاتے کہ ان کے باپ نے کتنی مشقت کرکے ان کو پالا پوسا ہے، پڑھایا لکھایا ہے تو شدت احساس سے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روز وہ اچھرہ سے نہر کی طرف جانے کے بجائے وحدت روڈ کی طرف ہو گئے ۔ راستے میں کہیں ایک گھر کے سامنے انھوں نے موٹر سائیکل روکی، اندر گئے،اورکچھ ہی دیر میں واپس آ گئے۔ میں نے دیکھا کہ واپسی پر ان کی آنکھوں میں نمی تیر رہی ہے ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور ابھی ہم بھیکے وال موڑ پر ہی تھے کہ میں نے پوچھ لیا ، ناز صاحب، یہ کس کا گھر تھا۔ نوجوان ، یہ میرا ہی گھر تھا ، اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی تھی۔ اس وقت میں یہ معما حل نہیں کر سکا تھا۔
کالم کی تنگی ِ داماں کے پیش نظر پھر سے ان ایام کی طرف لوٹ آتے ہیں،جب نیوکیمپس میں حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ اورہوسٹلزمیدان جنگ بن گئے تھے، جلسے، جلوس، ہڑتالیںاور گرفتاریاں ۔ میں گرفتاری اور رہائی کے عمل سے گزر چکا تھا۔ احسن اختر ناز اپنی اشاعتی ذمے داری کی وجہ سے احتجاجی جلسے جلوسوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے ، لیکن کیمپ جیل لاہور کی یاترا ان کی قسمت میں لکھی جاچکی تھی ۔ مرکز جمعیت کے پاس ہی ایک مسجد ہے ۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں ایک روز تمام کارکنوں کو ادھر اکٹھا ہونے کی ہدایت کی گئی۔
عصر کا وقت تھا۔ احسن اختر ناز کے من میں نجانے کیا سمائی کہ وہ بھی پہنچ گئے ۔ آناً فاناً پولیس نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا۔ اعجاز چوہدری اور دوسرے کارکنوں کے ساتھ احسن اختر ناز بھی دھر لیے گئے، اور پھر اگلے تین مہینے انھوں نے کیمپ جیل لاہور میں ہی گزارے ۔ کتنے ہی ان کے واقعات ہیں، جو ایک ایک کرکے یاد آ رہے ہیں ۔ شاعر نے کہا تھا،
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصرؔ
خار وخس کی طرح بہائے گئے