تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے
بہت طویل وقفے اور انتظار کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے کچھ ایسے اعلانات کیے گئے ہیں
بہت طویل وقفے اور انتظار کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے کچھ ایسے اعلانات کیے گئے ہیں جن کا تعلق عوام کے اصل مسائل اور ان کے حل سے ہے بلاشبہ دہشت گردی اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے لیکن تعلیم' صحت' روز گار' توانائی قانون کی عمل داری اور مہنگائی کا طوفان بھی کم اہم مسئلے نہیں ہیں اور کوئی حکومت یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی کہ اس کو یہ مسائل ورثے میں ملے ہیں کہ تاریخ عالم میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں یا معاشرتی اصلاح کے پروگرام کامیاب ہوئے ہیں سبھی سے متعلق رہنماؤں کو ورثے میں گوناگوں مسائل ملے تھے اس طویل بحث میں پڑے بغیر آئیے پہلے اس تصویر کا روشن رخ اور پہلو دیکھتے ہیں۔
پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں کیوں اور کیسے گر رہی ہیں اس سے قطع نظر یہ ایک امر واقعہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں حکومت نے مختلف اوقات میں عوام کو ریلیف دیتے ہوئے اس کی قیمت میں تھوڑی بہت کمی کی ہے لیکن حال ہی میں کی جانے والی کمی نسبتاً زیادہ بڑی اور اہم ہے کہ پہلی بار عوام اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا ہے اورواضح رہے کہ اس طرح کے اطمینان اور خوشی کا اظہار کسی دوسرے حکومتی اعلان یا پلان پر آج تک نہیں ہوا، چاہے وہ میٹرو ٹرین ہو اورنج گرین یا کسی اور رنگ کی لائن یا دانش اسکول وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ عام آدمی کے لیے چین کے ساتھ تعاون اور اقتصادی راہداری کے فوائد بھی ایک بجھارت کی طرح ہیں کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اعدادوشمار کے اس انبار میں ان کے لیے خیر کی خبر کیا اور کہاں ہے؟
ایک ماہر اقتصادیات نے اپنے بچے کو ریاضی کا عملی استعمال سمجھانے کے لیے پلیٹ میں ایک سیب رکھا اور بچے سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو اب میں ریاضی کے اصول کے ذریعے ثابت کروں گا کہ یہ ایک نہیں دو سیب ہیں۔ بچے نے یہ سن کر سیب اٹھایا اور اسے دانتوں سے کاٹتے ہوئے بولا ''ٹھیک ہے دوسرا سیب آپ لے لیجیے''
حکومت وقت اور اس کے متعلقہ نمایندے اسحاق ڈار صاحب کے بہت سے بیانات پر بھی عوام شاید ایسا ہی کرتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ''عام طور پر پہلا سیب'' بھی فرضی اور تصوراتی ہوتا ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے منڈیوں اور دکانوں پر ریٹ لسٹیں لگانے سے عوام کو کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ اس سے نہ ان کی جیب میں رکھی ہوئی محدود کرنسی کی قدر و قیمت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے خریدی ہوئی اشیا کی مقدار اور معیار میں کوئی نظر آنے والی تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر آپ نے پٹرول کی قیمت میں نمایاں کمی کی ہے تو اس کا اثر عوام کو پٹرول کی قیمت سے متعلق تمام اشیا میں بھی نظر آئے ہیں مثال کے طور پر آج ہی کے اخبارات کی یہ خبر کہ فلاں فلاں روٹ پر ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اسقدر کمی کر دی گئی ہے اور اس کی تصدیق عملی طور پر بھی کی جا سکتی ہے یقیناً عوام کے لیے ایک خوش خبری کا مقام رکھتی ہے اور اس کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو شاباش بھی ملنی چاہیے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کی آڑ میں بے شمار دیگر اشیا کی قیمتوں میں جو اضافے کیے گئے تھے وہ کب اور کیسے واپس ہوں گے؟
تیل مختلف شکلوں میں بجلی کی پیداوار میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ اس کی مہنگائی کا اثر ہر اس جگہ پر بھی پڑتا ہے جہاں بجلی کسی نہ کسی شکل میں استعمال ہوتی ہو اور یہ بات کسی حد تک سمجھ میں بھی آتی ہے حکومتی سطح پر اس کا ادراک بھی کیا گیا ہے اور بجلی کی قیمت میں معمولی ہی سہی لیکن کمی کا اعلان بھی کیا گیا ہے مگر اس اعلان کے دائرے میں ان تمام صنعتی اور دیگر اداروں کو بھی لانا چاہیے تھا جو اشیا کی لاگت اور قیمت فروخت میں استعمال ہونے والی بجلی کی قیمت بھی شامل کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس کا اطلاق عوام کے روز مرہ استعمال کی تقریباً تمام اشیا پر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو بھی اسی مد میں ڈال دیتے ہیں چاہے اس کا تعلق کھیتوں اور منڈیوں سے اجناس کی نقل و حمل سے ہو یا فیکٹریوں سے مصنوعات کو دکانوں تک پہنچانے سے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ گندم' چاول' گھی' سبزیاں' انڈے' گوشت کے ساتھ ساتھ ٹوتھ پیسٹ' ٹالکم پاؤڈر' مٹھائیاں' بیکری کا سامان' مشروبات' فاسٹ فوڈ غرضیکہ عام استعمال کی ہر چیز اس کی زد میں آ جاتی ہیں بعض اوقات تیل کی قیمت میں5% اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کے استعمال کے دائرے میں مہنگائی 10% سے بھی زیادہ کر دی جاتی ہے اور کوئی اسے چیک بھی نہیں کرتا کہ ان کے مالکان یا تو خود اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں یا مقامی اور ملکی قانون پر عمل کرانے والی انتظامیہ ان کے احکامات کی تعمیل پر مجبور ہوتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ حکومت کے مثبت اقدامات کے باوجود مہنگائی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے کیونکہ متعلقہ حکومتی ادارے اور ان کے سیاسی سربراہان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے بھی بجائی جا سکتی ہے اور یہ کہ جب تک لوگ برداشت کر رہے ہیں فکر کی کوئی بات نہیں، رہی سہی کسر ہمارے میڈیا کے کچھ احباب پوری کر دیتے ہیں کہ ان کا زیادہ تر وقت یا تو نان ایشوز کو ایشوز بنانے اور ان پر تو تو میں میں کرنے میں صرف ہوتا ہے یا وہ عوامی مسائل کو ایسے بڑے بڑے سکینڈلز کے گرد و غبار میں چھپا دیتے ہیں جن کی ہیبت اور فرسٹریشن تو دلوں پر طاری ہو جاتی ہے مگر متعلقہ مسئلے کے حل کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی۔
اندریں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لے کہ تالی کبھی اور کسی صورت میں بھی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجائی جا سکتی جس طرح سے اس نے براہ راست ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کروائی ہے اسی طرح سے روز مرہ عوامی استعمال کی ان تمام اشیا کی قیمتوں میں بھی نمایاں اور جائز کمی کروانا اس کا فرض منصبی ہے کہ اس کے بغیر تبدیلی کا مثبت اثر عوام کی زندگیوں تک نہیں پہنچے گا اور اگر یہ وہاں تک نہیں پہنچے گا تو نہ حکومت کو کسی مثبت قدم کا فائدہ ہو گا اور نہ ہی عوام بجا طور پر اس سے مستفید ہو سکیں گے۔