سورۂ انعام کی روشنی میں

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔


Doctor Ghazala Nisar November 08, 2012
سورۂ انعام میں اسلامی معاشرے کے جو زریں اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ بہت نمایاں ہیں۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔

ان میں عقل، فہم اور شعور اہم ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ان مسلسل تجربات کی کسوٹی سے گزر کر وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ اپنے لیے صحیح اور غلط راستے کا انتخاب کرسکے۔ انسان قرآن کے ذریعے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ روشن دلیل ہے جو لڑکھڑاتے اور ڈگمگاتے قدموں کو سیدھے راستے پر پہنچانے کا عزم سکھاتی ہے۔ جو پیچ دار اور پتھریلے راستوں سے ہٹاکر انسان کو صراط مستقیم پر چلنا سکھاتی ہے، کیوں کہ یہ ہدایت بھی ہے شفا بھی، رحمت بھی ہے اور صحت بھی، علم بھی ہے اور فہم تھی، یہ مقصد حیات کا منبع بھی ہے اور راہ جاوداں کا سرچشمہ بھی۔ اﷲ کے نیک بندے ان تمام اصولوں پر عمل کرتے ہیں جو اصول اس کتاب نے بتائے ہیں۔

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ وہ معاشرے میں رہنے والوں کے لیے اصول متعین کرتا ہے اور اپنی اصولوں کی پاس داری دراصل قرآن کے مطابق عبادت اور بندگی ہے۔ قرآن مجید سرتاپا ہدایت ہے۔ سورۂ انعام میں اسلامی معاشرے کے جو زریں اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ بہت نمایاں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے نبیﷺ آپؐ کہہ دیجیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تمہارے لیے حرام کردیا ہے، وہ درج ذیل ہیں۔
٭اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کی کسی صورت میں معافی نہیں۔ مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے اور یہ حکم دینے والی وہ ذات ہے جو تمہیں پیدا کرنے والی اور تمہاری پالن ہار ہے اور ہر چیز کا علم رکھنے والی اور ہر چیز پر قادر ہے۔

٭اﷲ تعالیٰ کی توحید اور اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ وضاحت ہوجاتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہم ہیت ہے۔ اگر کسی نے والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کے تقاضے پورے نہیں کیے تو وہ اﷲ کی اطاعت کے تقاضے پورے کرنے میں بھی ناکام رہے گا۔

٭اولاد کو افلاس کے خوف سے قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آج بھی پوری دنیا میں زور و شور سے جاری ہے۔ مگر اﷲ تعالیٰ اس قبیح فعل سے منع فرماتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ غربت اور افلاس کے ڈر سے ان کو قتل مت کرو، کیوں کہ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں رازق تو ہم ہیں۔

٭ بے حیائی اور فواحش کے ہر طریقے سے منع فرمایا گیا۔ فواحش کا اطلاق ان تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر زنا، عمل قوم لوط، برہنگی ، جھوٹی تہمت ، باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری، شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے ۔ اسی طرح دوسرے تمام شرم ناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشاد الٰہی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ اعلانیہ کیے جائیں اور نہ چھپ کر۔ بے حیائی کے جتنے بھی طریقے ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔

٭قتل و غارت گری حرام ہے جس کا خون اﷲ نے حرام کر دیا ہے، اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر قصاص کے طور پر ضرور حق کے ساتھ قتل کرو۔

٭یتیم کا مال ہڑپ کر جانا انتہائی غیر مستحسن عمل ہے، اس لیے سورۂ انعام میں حکم دیا گیا کہ یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ۔ جس یتیم کی کفالت تمہارے ذمے ہو تو اس کی ہر طرح سے خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے یعنی وراثت سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو زمین اور جائیداد کی صورت میں، اگر وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر تک نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کا مال اور جائیداد ہڑپ کر لی جائے۔

٭ ناپ تول پوری کرنا اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہونی چاہیے، اس لیے سورۂ انعام میں حکم دیا گیا کہ ناپ تول پورا پورا کرو۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں کمی کی وجہ سے تباہ ہوئی۔
٭اﷲ تعالیٰ کسی بھی شخص پر اس کی طاقت اور بساط سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا، یعنی یہ تمام احکامات ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو اﷲ رب العزت ان تمام باتوں کا حکم ہی نہ دیتا، اس لیے اگر نجات اخروی اور دنیاوی عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکامات الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز نہ کرو۔

٭جب بات کرو تو انصاف کرو، چاہے وہ شخص (جس کے خلاف تم بات کہنے جا رہے ہو) تمہارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی سچ کہنے میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ خواہ تمہیں اپنے کسی عزیز و رشتہ دار کے خلاف ہی گواہی کیوں نہ دینی پڑے۔

یہ وہ سنہرے اصول ہیں جن پر ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کا حکم اﷲ اور اس کے رسول نے قرآن اور سنت کے ذریعے دیا ہے۔ یہی ملت اسلامیہ کی وحدت و اجتماعیت کی بنیاد ہے مسلمانوں کا طریقہ زندگی بھی عین قرآن کے مطابق ہے، یعنی:

''کہو میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت ( یعنی قربانی ، اﷲ کی بندگی و پرستش) میرا مرنا جینا سب کچھ اﷲ ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔''
آج ان احکامات سے روگردانی کرنے والی امت مسلمہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ قرآن میں بار بار تاکید کی گئی ہے:''دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اﷲ کی راہ سے جدا کردیں گی۔''
قرآن کی اس ہدایت کو نبی کریمﷺ نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور ارشاد فرمایا:''یہ اﷲ کا راستہ ہے۔''

پھر چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور ارشاد فرمایا:''یہ وہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف بلاتا ہے۔''
مسلمانوں کو آج شیطان کے راستے سے بچنے کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ امت مسلمہ اس کی مختلف ترغیبات کے ذریعہ صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ رب العزت دنیا بھر کے فرزندان توحید کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں