نظام تبدیل کیجیے

بہرحال حکومت ہو یا اپوزیشن یا کوئی سیاسی جماعت ہر ایک کو وہ ادارہ فوراً نظر آ جاتا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

کرپشن، بدعنوانی ایک عالمی مسئلہ ہے، یہ اور بات ہے کہ ہر برائی کی طرح ہمارا ملک بدقسمتی سے بدعنوانی میں بھی سرفہرست رہا ہے، تاہم اب عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ بہتری یقینا ان ہی اداروں کی بدولت رونما ہوئی جن کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے لہٰذا اس کا کریڈٹ بھی ان ہی اداروں کے سر جاتا ہے۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کالی بھیڑیں سب جگہ ہوتی ہیں کوئی ادارہ ان سے خالی نہیں اور فرشتہ کوئی نہیں۔

بہرحال حکومت ہو یا اپوزیشن یا کوئی سیاسی جماعت ہر ایک کو وہ ادارہ فوراً نظر آ جاتا ہے جس میں عوام کے ساتھ ان کا درد مشترکہ ہو اور جس سے خود ان کا واسطہ نہیں ان اداروں کو کھلی چھوٹ ہے وہ مظلوم عوام کا خون چوستے رہیں کوئی پرسان حال نہیں، ہر قوت عوامی مسائل سے بے نیاز ہے اگر کوئی آواز اٹھ بھی جاتی ہے تو وہ سیاسی مقاصد یا ذاتی مفادات کے سبب اٹھتی ہے ورنہ ایک نفسانفسی کا عالم ہے، ہر شخص، پارٹی یا طبقہ اپنے مفادات پر زد پڑنے پر چیخ رہا ہے دوسرے کا درد کوئی محسوس نہیں کرتا، ہمارے وطن میں تو ایسی مثالیں عام ہیں کئی ادارے ایسے ہیں جو حکومتی غلط پالیسیوں کے سبب دانستہ یا نادانستہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام کی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں، عام آدمی ان کی ستم ظریفیوں کا شکار اور متاثر ہے۔

ایسی خبریں زبان زدعام بھی ہیں اور میڈیا پر بھی گونج رہی ہیں کہ کچھ قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں حقیقی مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے بے قصور اور معصوم افراد کو پکڑ رہے ہیں اور ان سے بھاری رشوت طلب کر رہے ہیں، جو رشوت دے دیتا ہے چھوڑ دیا جاتا ہے، ورنہ ساری زندگی کے لیے اندر، پوری حیات اس کی برباد۔ مسلسل خبروں کے باوجود انھیں لگام ڈالنے والا کوئی نہیں، روز ہی ایسی خبروں کی بازگشت اس موسم اور ماحول میں بتدریج بلند و بانگ گونج رہی ہے۔ ان مظلوموں کا مداوا کون کرے گا، کون ان کی خبرگیری اور دادرسی کرے گا، کارکردگی کے نام پر جھوٹے ثبوت اور گواہیاں بھی پیدا کر لی جاتی ہیں، اس نظام کو شفاف کون بنائے گا؟ اور اس شفافیت کا معیار کون اور کیسے متعین کرے گا؟ کہ اصل مجرم قانون کے شکنجے میں آئیں قطعی بچ نہ پائیں اور معصوم و مظلوم بااختیار اور محفوظ و طاقتور بنتے جائیں۔

بہرحال احتساب کی گردان بہت پرانی ہے۔ شور بہت مچتا ہے لیکن کام کم ہوتا اور نتائج کم سامنے آتے ہیں، بے شک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے لیکن نیب اور اینٹی کرپشن کی کارکردگی کے مجموعی اعداد و شمار نتائج کے اعتبار سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے مزید بہتری کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں قانون سازی مخالفین کو قابو میں لانے کے لیے کی جاتی ہے۔ اکثر کارروائی اور احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔


کیا یہ ضروری ہے کہ حکومتی ارکان میں سے اگر کوئی جرم کا مرتکب ہو تو اس کا اقتدار سے اترنے کا انتظار کیا جائے؟ ہمارا قانون اور نظام اتنا مضبوط کیوں نہیں کہ اقتدار اور طاقت و قوت کے باوجود بااثر افراد اور سیاست دانوں پر ہاتھ ڈال سکے؟ ۔

ہر شخص اور جماعت خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر بضد ہے اور اپنے مقاصد کی تکمیل یا حصول کے لیے بدنصیب مظلوم عوام کا کندھا استعمال کرتے اور اس کے پیچھے چھپتے ہیں۔ ستم یہ کہ ہماری حکومتیں خود اپنے مجرموں کو اپنے دور اقتدار میں تحفظ و قوت فراہم کرتی ہیں۔ دوسروں کی اصلاح کے خواہش مند سب سے پہلے خود اپنی اصلاح کے زریں اصول کو ہمیشہ فراموش کر بیٹھتے ہیں، ادارے بھی ان کے دور اقتدار میں ان پر ہاتھ ڈالنے سے اجتناب کرتے ہیں اور ان کے شہر اور صوبے دہشت گردوں کی مضبوط پناہ گاہوں کے باوجود آپریشن سے کتراتے ہیں، ملکی مفاد کے آڑے ذاتی مفاد آ جاتے ہیں۔

بہرحال ملکی و قومی مفاد سب پر مقدم ہے اس پر کسی بحث کی قطعی گنجائش نہیں۔ حکمراں اقتدار سے اترنے کے بعد بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ یہ مادر وطن ہر حال ہر صورت میں اپنے باسی کا پالن ہار بنا رہتا ہے ایک عام غریب آدمی کا مستقبل ہر حال میں اس مادر ارض سے جڑا ہے، اس کا کیریئر، جینا مرنا سب یہیں ہے یعنی اس مادر وطن کے ساتھ اور اس مظلوم کا سچا خیرخواہ سوائے فوج کے اور کوئی نظر نہیں آتا، ہمارے بہادر جوان مشکل کی ہر گھڑی میں ہمیشہ قوم کے شانہ بشانہ نظر آئے ہیں، فوج کی مدد و حمایت کے بغیر حقیقی معنوں میں قوم لاوارث اور حکومتیں ناکام ہیں۔

کرپشن کا مکمل خاتمہ نظام کی تبدیلی پر منحصر ہے اور نظام کی تبدیلی کا انحصار سیاستدانوں اور قانون ساز اداروں پر ہے اور 68 سالوں سے یہ قوم نظام تبدیل ہونے کی منتظر ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا خودکار نظام ترتیب پانا چاہیے جس میں بدعنوانی کا ذرہ برابر تک شبہ نہ رہے۔ یہ وطن ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اس کی بقا اور تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور وہ تمام اقدام اٹھانے چاہئیں جن سے ملک ترقی کرے اور قوم مضبوط ہو، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے وطن کی بقا و سلامتی کے لیے بڑی قربانیاں دیں اور قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اب جب کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن اپنے آخری اور حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے تو ان قربانیوں کو ضایع ہونے سے بچانے اور حقیقی و دائمی کامیابی کے لیے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا دائرہ ملک گیر کر دینا چاہیے، خواہ کوئی صوبہ، شہر یا شخصیت اس دائرے میں آئے۔ ملکی سلامتی سب پر مقدم ہے اور وطن عزیز کی عزت و ناموس سے بالاتر کوئی نہیں۔

رسول اللہؐ نے فرمایا ''تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کیونکہ جب ان میں کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی اور جب طاقتور جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔'' ہمیں بھی آج ایسے ہی نظام کی اشد ضرورت ہے جس میں قانون، امیر غریب، کمزور طاقتور، حکمراں و عوام سب کے لیے برابر ہو، کوئی خود کو بالاتر نہ تصور کرے اور کمزور مظلوم خود کو طاقتور اور طاقتور ظالم خود کو کمزور و لاوارث سمجھے۔ انصاف خود غریب و کمزور کی دہلیز تک پہنچے۔ اے کاش! ایسا ہو جائے۔
Load Next Story