مادری زبانوں کا ادبی میلہ

برستے بادلوں میں گھرا ہوا جہاز لرزنے لگا۔ ایئرہوسٹس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں

shabnumg@yahoo.com

ISLAMABAD:
برستے بادلوں میں گھرا ہوا جہاز لرزنے لگا۔ ایئرہوسٹس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، وہ گرنے سے بچنے کے لیے زمین پر بیٹھ گئی، بچوں نے یکایک رونا شروع کیا، لوگوں نے قرآنی آیات کا ورد کرنا شروع کر دیا تو ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جہاز میں سندھی ادیبوں، دانشوروں و شاعروں کا وفد تھا جو اسلام آباد میں منعقد مادری زبانوں کے ادبی میلے میں شرکت کرنے جا رہا تھا۔

بالآخر جہاز نے نیچے اترنا شروع کیا تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ جہاز سے باہر نکلے تو بارش ہو رہی تھی۔ سندھ کی بارشوں کو ترسا ہوا دل رم جھم برستے بادلوں کے سحر میں کھو گیا۔ ہوٹل پہنچ کر سامان وغیرہ رکھا تو ڈنر کا وقت ہو چکا تھا۔ ڈنر پر دیکھا تو پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ نظر آئے۔ یہ پنجابی، سندھی، ہندکو، پشتو، بلوچی، ہزارگی، کانشر، داؤدی، بروششگی، بلتی، شینا، توروالی، پہاڑی، براہوی، پوٹھوہاری، سرائیکی، گوجری اور ڈھاٹکی زبانوں کے اہل قلم ایک جگہ جمع تھے۔ ایک عجیب ہی سماں تھا۔ یکجہتی کی دھن پر روح رقصاں تھی۔

مادری زبان کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ادبی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں، کیونکہ ادب زبان کے فروغ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی زبان میں لوک ادب اور شاعری کا اہم حصہ موجود ہو تو مادری زبان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ زبانیں زرخیز اور دائمی سمجھی جاتی ہیں۔ جو اپنی وسعت میں لوک ادب کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ بچے جنھوں نے اپنے بڑوں سے کہانیاں سنیں یا لوک ادب کا مطالعہ کیا ان کی تصوراتی قوت مضبوط ہوتی ہے۔ لہٰذا مادری زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، پہلی بار اسلام آباد میں پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ لوک ورثہ میں منعقد کیا گیا۔ یہ میلہ انڈس کلچرل فورم اور SPO (ادارہ استحکام شرکتی ترقی) کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھا۔ جو US AID کے تعاون سے تشکیل دیا گیا تھا۔ادبی میلے کی افتتاحی تقریب میوزیم مال میں بیس فروری کو منعقد ہوئی۔

نصرت زہرہ خوبصورت انداز سے نظامت کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ کلمات استقبالیہ لوک ورثہ کی ڈائریکٹر، ڈاکٹر فوزیہ سعید نے ادا کیے۔ تعارف انڈس کلچر فورم کے نیاز ندیم نے کروایا جب کہ نصیر میمن نے میلے کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ کلیدی خطبے میں ڈاکٹر رحمان طارق نے مادری زبانوں کی اہمیت اور مسائل پر روشنی ڈالی۔ پہلے دن مختلف پروگرامز پیش کیے گئے۔ ایک نشست میں پاکستان کے صوفی و قدیم شعرا کے کلام پر مقالے پیش کیے گئے۔ احمد سلیم نے بلھے شاہ، ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے شاہ عبداللطیف بھٹائی، مسرت کلانچوی نے خواجہ فرید کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ میڈیا سینٹر میں مادری زبانوں کے نثری ادب سے کچھ اقتباس پیش کیے جا رہے تھے۔

انگریزی کے سیشن کے کمپیئر اجمل کمال تھے جب کہ شرکا میں حمزہ حسن شیخ (اردو، سرائیکی) اور شوکت حسین شورو (سندھی) شامل تھے۔ لنچ کے وقفے کے بعد تین مختلف نشستیں منعقد کی گئیں۔ جن میں مادری زبانوں میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، پاکستان کی خطرے سے دوچار مادری زبانیں، بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں کیوں دی جائے؟ جیسے اہم موضوعات زیر بحث تھے۔ خاص طور پر خطرے سے دوچار زبانوں میں توروالی، کھوار، ہزارگی، پہاڑی، کشمیری، شینا، ہندکو، پوٹھوہاری، بروششکی، بلتی اور وخی زبان کے اہل قلم نے حصہ لیا اور کئی مسائل کی نشاندہی کی۔


مادری زبانوں میں نئی طبع شدہ کتب کی رونمائی میں خیام قیوم کی پنجابی شاعری، شبنم گل کا ناول (سندھی)، علی طورانی (ہزارگی)، صادق برک (پشتو)، عاشق عاربانی (اردو) اور ڈاکٹر محمد انور (اردو، ہندی)، مادری زبانوں میں شایع ہونے والے ادب کی کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں پاکستان کی مادری زبانوں میں فکشن، ناول اور افسانے، عالمی ادب کے مادری زبانوں میں تراجم جیسے اہم موضوع بھی زیر بحث رہے۔ رات میں مادری زبانوں کا مشاعرہ فکر انگیز اور روح پرور تھا۔

اس مشاعرے میں مادری زبان کی چاشنی بھی محسوس ہوئی اور اردو ترجمے کے توسط سے خیال کی خوبصورتی سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ یہ تمام سوچ کے زاویے دھرتی کی جڑوں سے پھوٹ کے نکلے تھے۔ یہ خیال فطری سادگی، محبت اور امن کے خوابوں سے مہک رہے تھے۔ یہ الگ تھے تو سیپ میں بند موتی کی طرح تھے۔ آج ایک جگہ جمع ہوئے تو خیال کی وحدت بن کر حواس پر چھا گئے۔ اس سے پہلے ان سیدھے سادے، دیہاتی لوگوں کو کبھی ایسا پلیٹ فارم میسر نہیں تھا۔ اس طرح کی ادبی کانفرنس میں اکثر ایسے لوگوں کو بار بار مدعو کیا جاتا ہے، جن کا وسیع حلقہ احباب اور اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

مشاعرے پر سرائیکی اور توروالی زبانوں کے شاعر چھائے ہوئے تھے۔اکیس فروری کو مادری زبانوں میں نئی طبع شدہ کتب کی تقریب رونمائی میں ظفر جونیجو، روبینہ ابڑو، آفتاب احمد، علی آصف سیال، لیاقت تابان، عرفان عرفی اور پروفیسر ملک نثار داؤد کی کتابیں شامل تھیں۔مادری زبانوں میں تانیثی ادب کے حوالے سے سادیہ کمال، زینت ثنا، ثمینہ قادر، امر سندھو اور نجیبہ عارف نے خواتین کے تانیثی ادب پر روشنی ڈالی اور حوالے دیے۔مادری زبانوں کے احیا کے لیے اداروں کا کردار کے موضوع سے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مذاکرے میں عبدالواحد بندیغ، علی ہمدم، ڈاکٹر قاضی عبدالرحمان عابد، زمان ساگر، محمد ضیا الدین اور ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے موضوع کے حوالے سے جامع گفتگو کی، کمپیئر فہمیدہ حسین تھیں۔

فہمیدہ صاحبہ سندھی لینگویج اتھارٹی کی چیئرمین رہ چکی ہیں۔ انھوں نے سندھی زبان میں اپنے ادارے کی طرف سے چھپنے والے انسائیکلوپیڈیاز اور مختلف کتابوں کے حوالے دیے۔ جس پر عبدالواحد بندیغ نے انھیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھی ادیب اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں اور سندھ میں زبان، تاریخ، ثقافت اور تخلیقی ادب پر بہت کام ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھی زبان میں روزانہ تیس سے زائد اخبارات شایع ہوتے ہیں اور ہر مہینے دس سے پندرہ کتابیں شایع ہو رہی ہیں۔ اخبارات و ادب پڑھنے والا ایک وسیع حلقہ سندھ میں موجود ہے۔مادری زبان میں ڈرامے کی میزبان نورالہدیٰ شاہ تھیں۔

مقررین میں آغا رفیق، رحیم بخش مہر، عرفان عرفی، ملک مہر علی ودیگر شرکا موضوع کے حوالے سے دلچسپ حقائق کو سامنے لے کر آئے۔اختتامی تقریب سے سینیٹر پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے خطاب کیا اور منتظمین کی کوششوں و کاوشوں کو سراہا۔ مادری زبانوں میں شام موسیقی نے ادبی میلے کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیا۔اس ادبی میلے کی خاص بات جذبے کی سچائی تھی۔ منتظمین سے لے کر رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے نوجوانوں کا مثبت رویہ اور نظم و ضبط قابل تعریف ہیں۔ کبھی بہت تھک جاتے تو ڈھابے میں جا کر بیٹھ جاتے۔

ایک طرف کشمیری چائے کی مسحور کن مہک فضا میں تیرتی تو دوسری طرف چپلی کباب کی خوشبو اپنی طرف کھینچتی۔ اسلام آباد کی سردی سے بچنے کا اچھا موقع فراہم ہو جاتا۔ سامنے دیکھتے تو پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے مہربان چہرے خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے۔ اپنائیت کا یہ بھرپور احساس مدتوں طراوت بخشتا رہے گا۔
Load Next Story