فکرِ اقبال کی عصری معنویت

اقبال کے بقول، علم عشق سے فیض اندوز نہ ہو تواس کی حیثیت افکار کی تماشا گاہ سے زیادہ نہیں

اقبال کے نزدیک قدیم ہندوستانی فکریات کا مسئلہ یہ تھا کہ احد اپنی احدیت کو قربان کیے بغیر کس طرح کثرت میں ڈھلا. فوٹو: فائل

اپنی شہرۂ آفاق اور زندۂ جاوید نظم ''مسجد قرطبہ'' میں اقبال نے عشق کی ہمہ گیر اور لازمانی وسعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

آپ چاہیں تو ''عشق'' کی جگہ ''شعر'' یا ''فکر'' کا لفظ رکھ دیجئے، حقیقت وہی رہے گی۔ دراصل ابدی نقطے پر پہنچ کر جذبہ ،فکر اور شعر عشق کے ہم زاد اور ہم معنی ہوکر حقیقت واحدہ میں ڈھل جاتے ہیں۔ ''چوںبو بگلاب اندر'' ! اقبال کی شاعری اسی ابدی حقیقت، اسی حقیقت واحدہ کی مظہر ہے۔ چنانچہ بجا طور پریہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا اقبال جیسے آفاقی اور ابدیت سے ہم رشتہ و ہم عنان شاعر کی فکر کو اپنے عصر کی معنویت تک محدود کردینا ان کی فرشتہ صید' پیمبر شکار، لازمان اور یزداں گیر سوچ کو محدود کردینے کے مترادف نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی فکر جہاں ایک طرف ایک برتر، مابعد الطبیعیاتی، الوہی اور عمودی جہت رکھتی ہے، وہیں اپنے عہد اور اس کے تموجات کے ساتھ ایک زمینی، معروضی اور افقی رشتہ بھی رکھتی ہے۔ اس تناظر میں فکر اقبال کی عصری معنویت کا سوال اٹھانا بے جواز نہیں۔ دراصل سچی مابعد الطبعیاتی تلاش اوراپنے عصر اور اپنے معاشرے کی ٹھوس حقیقتیں اقبال کی شخصیت میں ایک نادر اتصال اور امتزاج کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ہنگامی اور ابدی کا یہی اتصال اقبال کی فکر کو لازمانی ہونے کے ساتھ زمانی اور عصری جہت بھی عطا کرتا ہے:

؎شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کی رفیق

اقبال کی فکر کا دائرہ معراج اور مراجعت کے اتصال سے مکمل ہوتا ہے ۔وہ ابدیت کی روشنی میں زمانی اور عصری منظر نامے کو پرکھتے ہیں اور اپنے نتائج فکر کو نہایت لطیف تخلیقی پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک قدیم ہندوستانی فکریات کا مسئلہ یہ تھا کہ احد اپنی احدیت کو قربان کیے بغیر کس طرح کثرت میں ڈھلا۔ آج یہ مسئلہ آسمان کی نیلگوں بلندیوں سے ہماری ٹھوس سیاسی زندگی کی سطح پر اتر کر ایک متقابل صورت میں ڈھل کر ہم سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کثرت اپنی کثرت سے دستبردار ہوئے بغیر کس طرح وحدت بن سکتی ہے۔ غور کیجئے تو یہ آج کے تہذیبی و سیاسی تناظر کا سب سے بڑا سوال ہے۔

معاصر عالمی منظر نامے پر ایک اچٹتی نظر ہی اس دردناک حقیقت کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ انسانی تہذیبی و عصری صورت حال کس قدر اندوہناک اور الم آفریں ہے۔ بس ظھرالفساد فی البر والبحر کا ایک عبرتناک نمونہ ہے جس نے پوری نوع انسانی کے وجود کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک نئی جارحانہ جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور ایک نئے نظام عالم کا صور تیزی سے پھونکا جارہا ہے۔ اس نئے نظام عالم کی پشت پر مغرب اور امریکا کا غیر معمولی احساس برتری اور مریضانہ استکبار کارفرما ہے۔ اسی مریضانہ استکبار کی مظہر امریکی دانشور فوکویاما کی کتاب "The End of History & the Last Man '' ہے جس میں لبرل جمہوریت کو نوع انسانی کی آخری منزل قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دوش بدوش ایک اور امریکہ دانشور سموئیل۔ پی۔

ہنٹنگٹن کی کتاب ''The Clash of Cilvilizations and the Remaking of world Order'' بھی قابل توجہ ٹھہرتی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نئی دنیا کی بنیادی وجہ تصادم نہ تو نظریاتی ہے نہ معاشی بلکہ تمام نوع انسانی میں جو بڑی تفریق نظر آتی ہے وہ تہذیبی و ثقافتی ہے اور یہی گہرے ثقافتی اختلاف تقسیم اور تصادم کا باعث ہیں اور باعث رہیں گے۔ ہنٹنگٹن کا خیال ہے کہ روسی آہنی پردے کے تار تار ہوجانے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔ چونکہ یورپ کی نظریاتی تقسیم اب باقی نہیں رہی اس لیے اب ایک طرف مغربی عیسائیت اور دوسری جانب قدامت پسند ٹھیٹھ عیسائیت اور اسلام کی ثقافتی تقسیم کا نیا منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔ اس ضمن میں گیارہ بارہ برس پہلے کا ڈنگ زیائو پنگ کا یہ احساس بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اب چین اور امریکا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہونے والا ہے۔

کہنا یہ ہے تصادم، تفریق، تقسیم اور تہذیبی ٹکرائو کے اس نظریے سے لاکھ اختلاف کیا جائے اور خود میرا احساس ہے کہ اس ثقافتی تقسیم اور متوقع تصادم کو مبالغے سے بیان کیا گیا ہے لیکن تصادم کے عناصر یقینی طور پر موجود ہیں خواہ ان کی نوعیت معاشی یا نظریاتی ہو، خواہ تہذیبی یا ثقافتی، تہذیبوں کے اس باہمی انتشار اور فساد کی پریشان کن صورتحال میں اقبال کی فکر ہمارے لیے کیا معنویت رکھتی ہے، یہ ایک اہم برمحل اور بروقت سوال ہے۔

اقبال نے ضرب کلیم میں امامت کے زیر عنوان نظم میں لکھا تھا
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کودکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

اقبال اپنے عصر... اپنے حاضرو موجود سے کیوں بیزار ہیں۔ اس کا سبب وہی غلط فکری، ابدیت بیزار اور روح کش تصورات ہیں جو عصر اقبال میں بھی آدمیت میں فساد کا باعث تھے اور ہمارے عہد میں بھی اس خاکداں کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں مجھے اقبال کی ''بندگی نامہ'' کا ابتدائی ڈرامائی منظر یاد آتا ہے۔ جہاں چاند اللہ سے مخاطب ہوکر شکوہ گزار ہوتا ہے۔

''دنیا کو روشن کرنے والے چاند نے اللہ سے کہا: میری دودھیا روشنی رات کو دن بنا دیتی ہے مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب دن اور رات کا قصہ ہی نہ تھا اور میں زمانے کے ضمیر میں سویا ہوا تھا۔ میرے اندرون سیاہ میں ایک بھی روشن ستارہ نہ تھا۔ میری نہاد گردش سے عاری تھی۔ نہ میرے نور سے دشت ودر آئینہ پوش تھے نہ سمندر میں میرے جمال سے جوار بھاٹا کی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ پھر ایک دن میں نے آفتاب سے روشن ہونے کا فن سیکھا اور یوں اس مردہ خاکداں کو حیات تازہ بخشی۔ مگر افسوس یہ خاکداں روشن تو ہے لیکن اسے اطمینان نصیب نہیں۔ اس کا چہرہ غلامی سے داغ داغ ہے۔ اس کا آدم مچھلی کی طرح کانٹا نگلے ہوئے ہے۔ آدم جو یزداں کش ہے اور آپ اپنا پجاری ہے۔ اے خدا تو نے جب مجھے آب و گل کی زنجیر پہنائی ہے، اس کے طواف سے مجھے خجل کیا ہے۔ یہ جہاں یہ خاکداں نور جاں سے آگاہ نہیں۔ یہ جہاں چاند اور سورج کے شایاں نہیں۔ اے خدا تو نیلگوں فضا میں اسے تنہا چھوڑ دے اور ہم نوریوں کا رشتہ اس سے منقطع کرلے۔ یا تو مجھے اس کی خدمت سے نجات دے یا اس کی خاک سے آدم ثانی کا ظہور فرما۔'' (کلیات اقبال فارسی )

آپ نے اقبال کی روحانی اور ثقافتی تشویش محسوس کی؟ اقبال کی شعری و نثری کارناموں کا خلاصہ اس کے سوا کیا ہے کہ اس کا عصر روحانیت کو اپنا اصل اصول بنائے۔ آزادی اور حریت اظہار کو اپنائے اوراگر ایسا ممکن نہیں تو اس خاکداں سے ایک نئے آدم کا ظہور ہو۔ حق یہ ہے کہ اقبال اس تخلیق کی ہوئی دنیا کا تماشائی نہیں وہ اس میں ایک بڑا فکری اور روحانی انقلاب لانا چاہتا ہے۔ صرف لفظ ''جہاں'' یا اس کے مترادفات اور اس سے بننے والی ترکیبیں اقبال کی اردو فارسی کلیات میں ساڑھے چھے سو سے متجاوز ہیں۔ صرف اسی ایک پہلو سے اقبال کی اپنے عہد سے پیوستگی اور عالم توجہی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود!
کہ سنگ وحشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

__________
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ وحشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
__________
قلندریم و کرامات ما جہاں بینی است
زما نگاہ طلب کیمیا چہ می جوئی؟
__________
نگردو زندگانی خستہ ازکار جہانگیری
جہا نے درگرہ بستم جہا نے دیگرے پیش است
__________

زندگی اور زمانے کے بارے میں اقبال کا یہ حرکی اوررجائی تصور انہیں ایک طرف ابدیت سے ہم رشتہ رکھتا ہے دوسری جانب اپنے عہد کی تہذیبی اور فکری صورت حال کا معروضی اور حکیمانہ جائزہ لینے پر اکساتا ہے۔ اقبال کی حیثیت دراصل ایک ایسے مرد آفاقی کی ہے جو رنگ نسل، زمان اور جغرافیاتی حدود و قیود سے ماورا ہے۔ اپنی وفات سے صرف تین ماہ قبل نئے سال کے پیغام میں انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ ان کی نوع انسانی سے اٹوٹ محبت اور سامراج سے ان کی شدید نفرت کا مظہر ہے۔

انہوں نے فرمایا:
''وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ نوع انسانی کی وحدت ہے جو نسل و زمان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی نعشوں کو پاش پاش نہ کردیا جائے گا۔ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبارسے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا۔ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ تعبیر نہ ہوں گے۔''

جہاں ایک طرف اقبال نے مغربی ملوکیت، وطنیت پرستی اور رنگ و نسل کی تفریق کو ہدف تنقید بنایا ہے وہیں مغرب کے تصور علم (Epistemology) کی بھی قلعی کھولی۔ یہ وہ تصور علم ہے جو اپنی بنیاد تشکیک پر رکھتا ہے۔ اس تشکیک سے جہاں ایک طرف یہ مثبت فائدہ ہوا کہ فطرت کے بہت سے بھید آشکار ہوئے ہیں اس سے بڑا ایک نقصان یہ ہوا کہ قدروں کی ابدیت اور ایمان و یقین کی قوت بھی معرض شک میں آگئی۔ نتیجۃً ایک ایسی بے یقینی نے دلوں میں جگہ بنالی جسے اقبال نے غلامی سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ تسخیر فطرت سے جہاں انسان کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھا اور بڑھتی پھیلتی کائنات کا تصور پیدا ہوا، وہیں نقصان یہ ہوا کہ مادی کائنات کی تسخیر اور پرستش ہی جدید انسان کا منتہائے نظر قرار پائی۔ مادہ پرستی کی اس دوڑ میں آج مغرب اور مشرق دونوں بری طرح شریک ہیں اور صورتحال اکبر کے اس شعر کے مصداق ہے:

شوق لیلائے سول سروس نے مجھ مجنون کو
اتنا دوڑایا لنگوٹی کردیا پتلون کو

اقبال نے ''جاوید نامہ'' کے تمہیدی اشعار میں بالصراحت لکھا تھا کہ علم جب تک عشق سے فیض اندوز نہیں ہوتا اس کی حیثیت افکار کی تماشا گاہ سے زیادہ نہیں۔ اقبال نے اپنے عہد کے تصور علم ہی کو ہدف تنقید نہیں بنایا، فنون لطیفہ کے باب میں بھی اپنی گہری بصیرت کا اظہار کیا۔ ان تمام اظہارات کے پس پشت اقبال کا وہی ایقانی، حرکی، جیتا جاگتا آتشیں تصور کارفرما ہے جس کی روشنی و گرمی ابراہیم ؑ، کلیم ؑ، محمدﷺ، حسینؓ اور رومیؒ و عطارؒ کے فیض کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اس آتشیں کلام کا عالم یہ ہے کہ یہی اس شاعر کی پہچان بن گیا ہے:

تواں زگرمئی آوازِ من شناخت مرا

اقبال کے پیغام میں ان کی روح کی گرمی اور ایقان کی روشنی شامل تھی۔ دنیا میں جہاں کہیں ایسی روشنی ہوگی، وہ اقبال کے نور بصیرت سے آملے گی کیونکہ روشنی روشنی کی حریف نہیں ہوتی۔ اقبال کی شعری نثری اور عملی کاوشوں کا منتہائے کلی ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جو روحانیت کے فیض اندوز ہو اور جو اسلام کے آفاقی تصور پر استوار ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جو رنگ نسل، رتبہ و درجہ اور ذات پات کے امتیازات سے پاک ہو جس میں باہمی انسانی احترام کارفرما ہو اور جس میں ایثار اور بے غرضی کا چلن ہو۔ اقبال کے نزدیک ان کی مثنویاتِ فارسی یعنی اسرار و رموز کا مقصود بھی یہی تھا۔ نکلسن کے نام اپنے خط میں انہوں نے اپنے مقصد شعر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ صرف ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے ہے۔

اسرار خودی میں ''میر نجات نقش بند'' کے بھیس میں اقبال کے نصائح کے اولیں مخاطب گو مسلمانان برعظیم ہیں لیکن ان نصائح کی حیثیت آفاقی اور ابدی ہے۔ دیکھئے میر نجات نقش بند ہمارے لیے کن کن پیرایوں میں سامان نجات ڈھونڈ رہے ہیں

اے مخاطب تیرا المیہ یہ ہے کہ تو سرمے کی جستجو میں بے تاب بھاگا پھر رہا ہے۔ تجھے اپنی آنکھوں کی سیاہی کا علم ہی نہیں۔ سن، خنجر کی چمکتی دھار سے آب حیات مانگ، اژدھا کے منہ سے کوثر طلب کر، دانش حاضر میں سوز عشق نہ ڈھونڈ۔ اس کافر کے جام سے کیف حق کی امید نہ لگا دانش حاضر حجاب اکبر ہے۔ یہ بت پرست، بت گراور بت فروش ہے یہ دانش مظاہر کے قید خانے کی اسیر ہے اور حدود حس سے آگے نہیں نکل پارہی۔ زندگی کی راہ سے بھٹک چکی ہے اور اپنے گلے پر خود خنجر چلا رہی ہے۔ اس دانش میں آگ تو ہے مگر یہ لالے کی سرد آگ ہے۔ اس میں شعلے تو ہیں مگر ژالے کی طرح سرد ہیں۔ اس کی فطرت نعمت عشق سے آزاد ہے۔ عشق کی پرانی شراب سے اس کے جام ومینا خالی ہیں۔ اس کی راتوں کی قسمت میں یارب، یارب کی پکار نہیں ہے۔''

اقبال نے دانش حاضر کی اس کوتاہ نظری کا ماتم کہاں کہاں نہیں کیا۔ بال جبریل میں فرمایا

تازہ پھردانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

جب تک دانش حاضر اور اس کے اوضاع، مادہ پرستی، جاہ طلبی، جوع الارض، معاشی استحصال اور معاشرتی ناہمواریوں اور دیگر سماجی، فکری اور روحانی مفاسد کا المناک منظر نامہ نوع انسانی کی نگاہوں سے کاملاً ہٹ کر ملیامیٹ نہیں ہوجاتا اور جب تک عشق اور اس کی اضطراب انگیزیاں لوح کائنات سے محو نہیں ہو جاتیں اقبال کے فکرو جذبہ کی عصری معنویت برقرار رہے گی۔ اردو، فارسی کا یہ بے مثل شاعر، قہستان خیال کا یہ محراب گل ہماری کشت جاں میں عشق و مستی کے پھول کھلاتا رہے گا اور فکرو فلسفہ کا یہ میر نجات نقشبند ہمارے لیے نئے نظام عالم اور نئے آدم کے ظہور کے نقشے اور خاکے مرتب کرتا رہے گا کہ اس میر نجات کے سینے کو صاحب نظروں نے ایک ایسا تجلی زار بنا دیا تھا جس کی مثال ہماری کئی صدیوں کی شاعری میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔
Load Next Story