جب اقبالؒ نے خواب میں آکر سرزنش کی

جسٹس (ر) جاوید اقبال زندگی کا انوکھا واقعہ بیان کرتے ہیں

اقبال کی ایک ایسی بیاگرافی تحریر کرنی چاہیے جس میں خیالات و افکار کے تدریجی ارتقا اور ان کے ماحول کا زیادہ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے. فوٹو: فائل

سوانح عمری کی ہیئت میں اقبال پر جو کتب ان کی وفات کے بعد اور ولادت اقبال کی صد سالہ تقریبات سے قبل شائع ہوئیں، میں نے انہیں بغور پڑھا اور حیات اقبال کے موضوع پر جو دیگر کتب یا مضامین دستیاب ہوسکے انہیں بھی دیکھا۔

گر اقبالیاتی ادب میں بالخصوص اس موضوع پر جن معلومات کی مجھے ضرورت تھی، ان کے حصول میں تشنگی ہی رہی۔ پس میں نے قصد کیا کہ اقبال کی ایک ایسی بیاگرافی تحریر کرنی چاہیے جس میں خیالات و افکار کے تدریجی ارتقا اور ان کے ماحول کا زیادہ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے مگر زندگی کے نجی پہلو کو اقبال ہی کی منشا کے مطابق ثانوی حیثیت دی جائے۔ میں مطالعہ کی خاطر مواد اکٹھا کرنے لگا اور باب اول یعنی اقبال کے سلسلۂ اجداد کی تدوین کے لیے تحقیق شروع کردی۔ اسی تحقیق کے دوران ایک دن میں نے اپنی بیوی سے ازراہِ مذاق کہا کہ دیکھو کشمیری پنڈتوں نے ہندوستان کو سیاسی آزادی دلوائی اور آزاد مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام کا تصور بھی کشمیری پنڈت ہی نے دیا۔ سو یہ تو پنڈتوں کا آپس میں جھگڑا معلوم ہوتا ہے۔

میں خوابوں یا ان کی تعبیر کا زیادہ قائل نہیں البتہ میری بیوی ایسی باتوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ میں نے اقبال کو بھی شاذہی خواب میں دیکھا ہے۔ مگر اس رات انہیں خواب میں دیکھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ 'جاوید منزل' کی چھت پر بیٹھا ہوں۔ ساتھ ہی منڈیر پر سفید کاغذوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے۔ اقبال بنیان اور تہبند میں ملبوس ایک طرف سے ظاہر ہوتے ہیں اور حسب عادت خراماں خراماں چلتے ہوئے میرے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر خفگی کے آثارہیں۔ مجھ سے انگریزی میں کہتے ہیں کہ تم کیا لکھتے رہتے ہو؟ میں جواب دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے تو ہمیشہ میری یہی کوشش رہی ہے کہ آپ کے افکار صحیح طور پر لوگوں تک پہنچائے جائیں۔

فرماتے ہیں، خیر اس بارے میں میرے تاثرات تمہیں کل معلوم ہوجائیں گے۔ اس کے بعد یکلخت خواب کا منظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ میں اب کسی گھنے درخت پر چڑھا اس کی شاخوں میں اٹکے ہوئے بہت سے کاغذ کے پرزے اکٹھے کررہا ہوں۔ میری مدد کے لیے کوئی اور شخص بھی وہاں موجود ہے لیکن میں اسے شناخت نہیں کرسکا۔ البتہ اسے شکایتاً کہہ رہا ہوں کہ عجیب بات ہے، میں ان کے افکار کی تشہیر کے لیے اتنی محنت کرتا ہوں مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔

اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی دیکھی۔ رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ خواب میرے ذہن میں تازہ تھا۔ اس خیال سے کہ مبادا صبح تک بھول جائوں، میں اسے قلمبند کرنے کے لیے اٹھ کر کاغذ پنسل تلاش کرنے لگا۔ میری بیوی بھی بیدار ہوگئیں۔ میں نے انہیں خواب سنایا۔ وہ کہنے لگیں کہ درخت پر چڑھ کر شاخوں میں اٹکے کاغذ کے پرزے سمیٹنے کی تعبیر تو یہی ہے کہ آپ آج کل ان کے شجرہ نسبت کے متعلق تحقیق میں مصروف ہیں۔ البتہ اس ضمن میں وہ آپ کی کسی بات پر ناخوش ہیں۔ بہرحال آپ منتظر رہیں، کل تک ان کی طرف سے ضرور آپ کو کوئی اشارہ ملے گا۔


اگلا سارا دن میں نے ان کی طرف سے کسی اشارے کے انتظار میں گزارا۔ مجھے رہ رہ کر یہی خیال آتا کہ آخر وہ کس بات پر ناراض ہیں۔ رات ہوگئی لیکن ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہ ہوا۔ میری بیوی یہ کہہ کر سونے کے لیے چلی گئیں کہ ابھی بارہ نہیں بجے، آپ انتظار کرتے رہئیے۔ میں نے تنگ آکر سوچا کہ میں بھی کس قدر توہم پرست ہوں، بیوی کے کہنے پر سارا دن اسی ادھیڑ بن میں ضائع کردیا۔ ابھی بارہ بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔ لیکن میری نیند اچاٹ ہوچکی تھی۔ میں نے پڑھنے کے لیے الماری میں سے کوئی کتاب اٹھانی چاہی۔ میرے ہاتھ روزگار فقیر جلد دوم لگی اور میں نے غیر ارادی طور پر اسے کھولا۔ اچانک میری نگاہیں کتاب کے صفحہ 121 پر جم گئیں۔ میرے سامنے اقبال کا ایک قطعہ تھا جس میں ارشاد کرتے ہیں

بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے
یادِ ایام گزشتہ مجھے شرماتی ہے
ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال
کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے

انہوں نے اپنے تاثرات مجھ تک پہنچا دیئے تھے۔ میں نے بیوی کو جگا کر یہ قطعہ سنایا۔ وہ کہنے لگیں کہ آپ نے کہا تھا کہ یہ تو پنڈتوں کا آپس میں جھگڑا معلوم ہوتا ہے جو ان کی ناراضگی کا سبب بنا۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے تو ازراہ مذاق بات کی تھی۔ وہ بولیں کہ آپ کے منہ سے انہیں یہ بات ازراہ مذاق بھی ناگوار گزری ہے اور کیوں نہ ہو، جو بات ان کے لیے شرم و ندامت کا باعث ہے، آپ کو زیب نہیں دیتا کہ اس کا تذکرہ ازراہ مذاق بھی کریں۔ آپ ان کے سوانح حیات کے سلسلہ میں تحقیق کا کام جاری رکھیے۔

میرا خیال ہے کہ جب بھی آپ سے انہیں کسی غلطی کے سرزد ہونے کا احتمال ہوا، وہ خواب میں آکر آپ کی رہنمائی کریں گے۔ کتاب کی تدوین وتالیف کے دوران میں نے پھر اقبال کو خواب میں نہیں دیکھا۔ اِس سے میں یہ مراد لیتا ہوں کہ انہیں دوبارہ میری رہنمائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کتاب حرفِ آخر ہے۔ حیاتِ اقبال کے باقی حصوں کی تکمیل کا انحصار آپ کی حوصلہ افزائی پر ہے۔ اگرچہ میں اپنی طرف سے ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر اس کام کو سرانجام دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
Load Next Story