ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوکر حادثات سے بچا جا سکتا ہے
بحیثیت قوم ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا ہماری شناخت بن چکا ہے
کسی قوم کے شعور' ذہنی سوچ کی سطح اور رویوں کا اندازہ سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک نظام سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اگر لوگ ٹریفک قوانین کا از خود احترام کرتے ہیں تو ایسی قوم منظم اور باشعور ہو گی جو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی قوانین کی پاسداری کرے گی۔ ایسی ہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا شدید فقدان ہے۔ بطور ایک قوم ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا ہماری شناخت بن چکا ہے۔ جہاں ٹریفک پولیس اہلکار کھڑا ہو وہاں بے صبرے لوگ مجبوراً ٹریفک اشارے کی پابندی کرتے ہیں مگر جہاں ٹریفک پولیس اہلکار نظر نہ آئے وہاں وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ گماں ہوتا ہے جیسے ریوڑ سے بھیڑیں نکل بھاگی ہوں۔ بااثر افراد تو ٹریفک قوانین کو پائوں تلے روندنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ بس' ویگن اور رکشہ ڈرائیورز تو ٹریفک قوانین سے قطعی بے بہرہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ڈرائیورز کی لاپروائی سے ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتی ہے۔
کراچی کی صورت حال تو وہاں ہونے والے آئے روز کے حادثوں سے اب آشکار ہے۔ لاہور کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ راولپنڈی 'فیصل آباد اور پشاور میں بھی یہی حالات ہیں۔ ٹریفک پولیس نے شہریوں میں ٹریفک شعور اجاگر کرنے کے لیے کئی بار مہمیں چلائیں مگر افسوس وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ لاہور ٹریفک پولیس نے ماہ اکتوبر کے دوران سگنل کی خلاف ورزی پر 5363 اور دوران ڈرائیونگ فون سننے پر 6030 چالان کیے۔ چالان کا مقصد شہری کو اس کی غیر ذمے داری کا احساس دلانا ہوتا ہے۔
ٹریفک پولیس حکام شہریوں سے اپیل کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نظم و ضبط اپنی اور دوسروں کی زندگی کے تحفظ کے لیے ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوں۔ملک کے بڑے شہروں میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے جدید سسٹم کو لاگو کیا جانا چاہیے ۔ ٹریفک سگنل پر سی سی کیمرے بھی نصب ہونے چاہئیں ۔جو گاڑیاں یا موٹر سائیکل سوار ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کریں اور فرار ہو جائیں 'سی سی ٹی وی کی مدد سے انھیں پکڑا جائے اور بھاری جرمانے کیے جائیں اس طریقے سے ہی ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرایا جا سکتا ہے۔
اگر لوگ ٹریفک قوانین کا از خود احترام کرتے ہیں تو ایسی قوم منظم اور باشعور ہو گی جو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی قوانین کی پاسداری کرے گی۔ ایسی ہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا شدید فقدان ہے۔ بطور ایک قوم ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا ہماری شناخت بن چکا ہے۔ جہاں ٹریفک پولیس اہلکار کھڑا ہو وہاں بے صبرے لوگ مجبوراً ٹریفک اشارے کی پابندی کرتے ہیں مگر جہاں ٹریفک پولیس اہلکار نظر نہ آئے وہاں وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ گماں ہوتا ہے جیسے ریوڑ سے بھیڑیں نکل بھاگی ہوں۔ بااثر افراد تو ٹریفک قوانین کو پائوں تلے روندنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ بس' ویگن اور رکشہ ڈرائیورز تو ٹریفک قوانین سے قطعی بے بہرہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ڈرائیورز کی لاپروائی سے ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتی ہے۔
کراچی کی صورت حال تو وہاں ہونے والے آئے روز کے حادثوں سے اب آشکار ہے۔ لاہور کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ راولپنڈی 'فیصل آباد اور پشاور میں بھی یہی حالات ہیں۔ ٹریفک پولیس نے شہریوں میں ٹریفک شعور اجاگر کرنے کے لیے کئی بار مہمیں چلائیں مگر افسوس وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ لاہور ٹریفک پولیس نے ماہ اکتوبر کے دوران سگنل کی خلاف ورزی پر 5363 اور دوران ڈرائیونگ فون سننے پر 6030 چالان کیے۔ چالان کا مقصد شہری کو اس کی غیر ذمے داری کا احساس دلانا ہوتا ہے۔
ٹریفک پولیس حکام شہریوں سے اپیل کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نظم و ضبط اپنی اور دوسروں کی زندگی کے تحفظ کے لیے ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوں۔ملک کے بڑے شہروں میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے جدید سسٹم کو لاگو کیا جانا چاہیے ۔ ٹریفک سگنل پر سی سی کیمرے بھی نصب ہونے چاہئیں ۔جو گاڑیاں یا موٹر سائیکل سوار ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کریں اور فرار ہو جائیں 'سی سی ٹی وی کی مدد سے انھیں پکڑا جائے اور بھاری جرمانے کیے جائیں اس طریقے سے ہی ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرایا جا سکتا ہے۔