اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کب کم ہونگی

پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے باوجود اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کب اور کون کرے گا؟


محمد عاصم March 03, 2016
حکمرانوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ قیمتوں میں کمی کو عام عوام کی راحت کا سبب بنانا چاہیئے۔

معاشی ماہرین بھی پریشان ہیں، آدم اسمتھ بھی آج زندہ ہوتا تو اپنا منہ چھپاتا پھرتا، کننز کی بھی ہنسی روکے نا روکتی۔ نجات اللہ صدیقی سےعمر چھاپرا تک کوئی بھی اس منطق کا جواب نہیں دے سکتا۔ کجا یہ کہ اس کا حل ایسی کمزور حکومت نکالے جس کی اپنی بقا پیمرا کے نوٹیفیکیشن پر کھڑی نظر آتی ہے۔

چند دنوں سے حکومت پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرکے عوام دوست حکومت کا تاثر دینے کی ناکام کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے ہی کسی اعلان کے بعد مجھے چند سال پہلے کے وہ اشتہارات یاد آجاتے ہیں جن میں میاں برادران کی حکومت دال چاول کی قیمتوں کا موازنہ چھاپ کر اپنے عوامی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا کرتی تھی۔

عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی فی بیرل قیمت 26 ڈالر تک گری، لیکن پاکستان میں اس حساب سے پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سیاسی انداز سے حکومت قیمتوں میں کمی کر رہی ہے، جس سے بہت سے گمنام کاروباری اور سرکاری کھاتہ داروں کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے، لیکن اس کمی کا خاطر خواہ فائدہ غریب عوام کو نہیں پہنچ سکا۔

جب تیل کی قیمتوں میں کمی آتی ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سفری سہولیات سے لیکر ایسی تمام اشیاء کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی جن کی پیداوار یا منتقلی کے عمل میں پٹرولیم مصنوعات کے استعمال کا عمل دخل ہے۔ اگر ہم ایسی ہی چند ضروری اور روز مرہ خدمات و اشیاء کی فہرست مرتب کریں تو گندم سے لیکر بجلی، آمد و رفت کے ذرائع اور دال چاول کی قیمتیں سرِ فہرست آتی ہیں۔ آج اگر ہم ان اشیاء کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیں تو صاف معلوم ہوگا کہ قیمتوں میں آنے والی حالیہ کمی کا فائدہ چند موٹے موٹے کاروباری حضرات کو ہی ہو رہا ہے۔

جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جاتا ہے لیکن کمی آنے کی صورت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر قیمتیں ایسے ہی آسمان سے باتیں کرتی رہیں، اور ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوا تو غریب عوام صرف دکانوں میں سجی اشیاء دیکھ پائیں گے، خرید نہیں سکے گے۔

ارب پتی حکمران جن کے محلات بیرونی ممالک میں ہیں، پاکستان میں بھی جن کے گھر قلعہ نما ہیں، جن کے بچے ایچی سن میں پڑھتے ہیں، دبئی سے خریداری کرتے ہیں، پیرس کی خوشبو لگاتے ہیں اور دنیا کی سیر کو ہر ماہ اور ہر سال جاتے ہیں۔ جن کو پاکستانی خوبصورتی، یہاں کی بنی اشیاء اور یہاں کی تازہ ہوائیں پسند ہی نہیں آتی۔ جو ملک کے حکمران ہونے کے باوجود ملک سے باہر رہتے ہیں۔ بیسیوں دورے کرتے ہیں، جس سے ملک کی آمدنی میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن ان کے اپنے کاروبار بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے میں انہیں کیوں یہ بات سمجھ آئے گی کہ قیمتوں میں کمی کو عام عوام کی راحت کا سبب بنانا چاہیئے۔ لاکھوں کی گاڑی خریدنے والے کو اگر کچھ سستا پٹرول اور ڈیزل مل رہا ہے تو اس مسافر کا بھی تو سوچیں جو روزانہ بسوں، ویگنوں میں سفر کرتا ہے، جو آج بھی 62 روپے فی لیٹر پر لگ بھگ وہی کرایہ دیتا ہے جو اُس وقت دیتا تھا جب پیٹرول 113 روپے فی لیٹر ملا کرتا تھا۔ مثلاََ 2014 میں جب پٹرول کی قیمت 117 روپے تھی تو اسلام آباد سے جوہرآباد، خوشاب کا کرایہ 450 روپے تھا اور آج جب قیمت 62 روپے تک آچکی ہے تو اُس وقت بھی کرایہ اُتنا ہی ہے۔ آخر کیوں؟ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے بعد کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، آخر اتنا منافع کس کی جیب میں منتقل ہو رہا ہے؟

اگر حکومتی ٹیکسوں کا بھی جائزہ لیا جائے تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ زیادہ آمدنی والا کم اور اوسط آمدنی والا زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں جاں بحق ہونے والے 50 ہزار سے زائد عام پاکستانی ہیں لیکن سکیورٹی اور پروٹوکول صرف 342 افراد کا بڑھایا گیا ہے اور ان چند سو افراد کی آمدن اور ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا موازنہ کیا جائے تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

حکومت نے ایک مزدور کی تنخواہ کو کم از کم 13000 تک کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کاروباری حضرات نے تیل کی قیمتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اضافہ سے صاف انکار کردیا۔ جبکہ انہیں مِل اور انڈسٹری مالکان کی تیار کردہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوش ربا ہے۔ کسی صورت ان قیمتوں میں کمی کا امکان نظر نہیں آتا، آخر اس بڑھتی ہوئی مہنگاہی کا کون ذمہ دار ہے؟ کون مظلوم عوام کے دکھ درد کو محسوس کرے گا؟

آسمان والا زمین والوں کے مظالم دیکھ رہا ہے۔ آج اگر ان ظالم حکمرانوں کی رسی کو ڈھیل دی جا رہی ہے تو کل یہی رسی تنگ بھی ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ ظلم تا دیر قائم نہیں رکھا جا سکتا، اور ظالم تا دیرعیش کے دن نہیں دیکھ سکتا۔

[poll id="993"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں