’’بھارتی کرکٹ ٹیم کو سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے‘‘
بھارت پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ تو بڑھا سکتا ہے مگر آپ کے سامنے جھک نہیں سکتا، کیونکہ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں!
ISLAMABAD:
ہمیشہ سے دریا دِلی کا مظاہرہ کرنے والی بھارتی حکومت نے اپنی قومی ٹیم کو لاحق تمام تر سیکورٹی خدشات نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی اجازت دے دی تھی۔ چونکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کھیلے جانے والے کرکٹ میچز دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز کے لئے ہمیشہ سے ہی فائدے کا سودا ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز کی بھی سر توڑ کوشش تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم ہر صورت پاکستان میں شیڈول ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کرے۔
اگرچہ بظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آرہا تھا مگر پاکستان میں حال ہی میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے ایک واقعہ کے اثرات اس ایونٹ پر پڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستانی حکومت ببانگِ دہل اس دہشت گردی کا ذمّہ دار بھارت کو ٹھہرا رہی تھی مگر بھارتی حکومت نے پاکستان کے اس دعوے کو یکسر بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ ہمیشہ سے ہی بھارت کے لئے بغض رکھنے والے پاکستانی حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیدار اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارتی ٹیم کی پاکستان آمد کی شدید مخالفت کر رہے تھے اور اس معاملے پر انہیں اپوزیشن اور پاکستانی عوام کی بھرپورحمایت بھی حاصل تھی۔
ورلڈ کپ کا دوسرا میچ بھارت اور پاکستان کے مابین صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں کھیلا جانا تھا، مگر ایونٹ شروع ہونے سے چند روز قبل رہی سہی کسر سندھ کے وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو یہ خط لکھ کر پوری کردی کہ سندھ حکومت عوام میں پائے جانے والے شدید غم و غصّہ کی وجہ سے بھارتی کرکٹ ٹیم کو سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتی۔ لہذا کراچی میں کھیلا جانے والا میچ کسی اور شہر منتقل کردیا جائے، دوسرے لفظوں میں اس خط کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو اُس کی تمام تر ذمّہ داری پاکستان کی وفاقی حکومت پرعائد ہوگی نا کہ سندھ حکومت پر۔
خدا جانے کہ یہ خط سندھ حکومت نے زمینی حقائق کو مدّنظر رکھتے ہوئے لکھا تھا یا وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر لکھوایا گیا تھا، مگر اس خط کے ذریعے بھارت کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں شرکت کے لئے پاکستان نہ بھیجا جائے، یہاں اُنہیں ہرگز خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان روایتی بد نیتی کا مظاہرہ کرکے بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ باہمی سیریز کے ایک معاہدے سے مُکر چکا تھا۔
اگرچہ بھارت کا اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے کا مقصد صرف اور صرف پڑوسی ملک سے اپنے تعلقات میں بہتری لانا تھا مگر پاکستان کی جانب سے مسلسل بیان بازی، الزام تراشی اور دھمکی آمیز رویے نے صورتحال گھمبیر کردی تھی۔ پھر پُرامن بھارتی عوام جو پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے آئے روز اُن کے ملک پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات پر پہلے سے ہی بھرے بیٹھے تھے اور بھارتی حکومت کے قومی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کے فیصلے پر شدید ناراض تھے، سندھ حکومت کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے سامنے آنے پر مزید مشتعل ہوگئے اور اپنی حکومت سے ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان ایک طرف تو بھارتی کرکٹ ٹیم کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنے کا ڈھونگ رچا رہا تھا اور دوسری طرف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں اپنے ملک آنے سے روک رہا تھا، اور پھر آخر کار بھارتی حکومت کو اپنی عوام کے فیصلے کے سامنے ہتھیار پھینکنے ہی پڑے اور اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین بھارتی وزیرِاعظم کے پاکستانی حکومت کے نام اس تاریخی پیغام کے ساتھ ہوا،
بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستانی وزیرِاعظم کے نام اس دلیرانہ پیغام نے بھارتی عوام کے دل جیت لئے تھے۔ کوئی بھی کھیل کبھی بھی ملک کے تقدس سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا، بھارت نے یہ ثابت کردیا تھا۔
[poll id="995"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہمیشہ سے دریا دِلی کا مظاہرہ کرنے والی بھارتی حکومت نے اپنی قومی ٹیم کو لاحق تمام تر سیکورٹی خدشات نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی اجازت دے دی تھی۔ چونکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کھیلے جانے والے کرکٹ میچز دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز کے لئے ہمیشہ سے ہی فائدے کا سودا ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز کی بھی سر توڑ کوشش تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم ہر صورت پاکستان میں شیڈول ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کرے۔
اگرچہ بظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آرہا تھا مگر پاکستان میں حال ہی میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے ایک واقعہ کے اثرات اس ایونٹ پر پڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستانی حکومت ببانگِ دہل اس دہشت گردی کا ذمّہ دار بھارت کو ٹھہرا رہی تھی مگر بھارتی حکومت نے پاکستان کے اس دعوے کو یکسر بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ ہمیشہ سے ہی بھارت کے لئے بغض رکھنے والے پاکستانی حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیدار اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارتی ٹیم کی پاکستان آمد کی شدید مخالفت کر رہے تھے اور اس معاملے پر انہیں اپوزیشن اور پاکستانی عوام کی بھرپورحمایت بھی حاصل تھی۔
ورلڈ کپ کا دوسرا میچ بھارت اور پاکستان کے مابین صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں کھیلا جانا تھا، مگر ایونٹ شروع ہونے سے چند روز قبل رہی سہی کسر سندھ کے وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو یہ خط لکھ کر پوری کردی کہ سندھ حکومت عوام میں پائے جانے والے شدید غم و غصّہ کی وجہ سے بھارتی کرکٹ ٹیم کو سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتی۔ لہذا کراچی میں کھیلا جانے والا میچ کسی اور شہر منتقل کردیا جائے، دوسرے لفظوں میں اس خط کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو اُس کی تمام تر ذمّہ داری پاکستان کی وفاقی حکومت پرعائد ہوگی نا کہ سندھ حکومت پر۔
خدا جانے کہ یہ خط سندھ حکومت نے زمینی حقائق کو مدّنظر رکھتے ہوئے لکھا تھا یا وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر لکھوایا گیا تھا، مگر اس خط کے ذریعے بھارت کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں شرکت کے لئے پاکستان نہ بھیجا جائے، یہاں اُنہیں ہرگز خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان روایتی بد نیتی کا مظاہرہ کرکے بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ باہمی سیریز کے ایک معاہدے سے مُکر چکا تھا۔
اگرچہ بھارت کا اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے کا مقصد صرف اور صرف پڑوسی ملک سے اپنے تعلقات میں بہتری لانا تھا مگر پاکستان کی جانب سے مسلسل بیان بازی، الزام تراشی اور دھمکی آمیز رویے نے صورتحال گھمبیر کردی تھی۔ پھر پُرامن بھارتی عوام جو پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے آئے روز اُن کے ملک پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات پر پہلے سے ہی بھرے بیٹھے تھے اور بھارتی حکومت کے قومی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کے فیصلے پر شدید ناراض تھے، سندھ حکومت کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے سامنے آنے پر مزید مشتعل ہوگئے اور اپنی حکومت سے ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان ایک طرف تو بھارتی کرکٹ ٹیم کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنے کا ڈھونگ رچا رہا تھا اور دوسری طرف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں اپنے ملک آنے سے روک رہا تھا، اور پھر آخر کار بھارتی حکومت کو اپنی عوام کے فیصلے کے سامنے ہتھیار پھینکنے ہی پڑے اور اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین بھارتی وزیرِاعظم کے پاکستانی حکومت کے نام اس تاریخی پیغام کے ساتھ ہوا،
''ہم نے تو ہمیشہ آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر آپ نے ہر مرتبہ ہماری دوستی کی پیشکش کو ہماری کمزوری سمجھ لیا۔ اگر آپ ہماری میزبانی کو تیار نہیں تو ہمیں بھی آپ کا مہمان بننے کا کوئی شوق نہیں ہے، ہم آپ کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لئے اپنے ملک کے تقدس سے نہیں کھیل سکتے، بھارت آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ تو بڑھا سکتا ہے مگر آپ کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں اور بیشک غیرت مند قومیں ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔''
بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستانی وزیرِاعظم کے نام اس دلیرانہ پیغام نے بھارتی عوام کے دل جیت لئے تھے۔ کوئی بھی کھیل کبھی بھی ملک کے تقدس سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا، بھارت نے یہ ثابت کردیا تھا۔
[poll id="995"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔