سکھوں کے قاتلوں کو سزا کب ملے گی

ن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اگر اقلیتیں محرومیوں کا شکار ہو جائیں تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے۔


Kuldeep Nayar November 08, 2012

بعض یادیں کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتیں، خواہ وہ کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو جائیں۔

انصاف نہ ملنے کی صورت میں جو مایوسی اور بے بسی پیدا ہوتی ہے، وہ جمع ہوتی رہتی ہے اور درد میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ مجھے اس تلخ حقیقت کا احساس اگلے دن ہوا، جب پنجاب کے شہر فریدکوٹ سے ایک سکھ دوست نے فون کیا اور رونا شروع کر دیا۔ وہ بار بار مجھ سے پوچھتا رہا کہ آخر حکومت نے 1984میں سکھوں کے قتل عام کے ذمے داروں کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا، جو اب بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کے سوالات کا جو سیدھا سادا جواب میں دے سکتا تھا، وہ یہ تھا کہ جب محافظ خود ہی قاتل اور لٹیرے بن جائیں تب سزا کسے مل سکتی ہے؟ اور نومبر 1984میں یہی ہوا تھا، جب 3000 سے زاید سکھوں کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا یا زندہ جلا ڈالا گیا۔ اس وقت کی کانگریس حکومت پر مبینہ طور پر الزام عاید کیا گیا کہ وہ خود اس منظم قتل عام میں ملوث تھی، چنانچہ اس وقت جو تھوڑی بہت انضباطی کارروائی کی گئی۔

وہ محض خانہ پری کے لیے تھی، اس کا مقصد ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہر گز نہیں تھا۔ اس حوالے سے چیف جسٹس رنگا ناتھ مِشرا کی رپورٹ شایع ہوئی تھی اور بعض دیگر جائزے بھی لیکن ان میں مسز اندرا گاندھی کی ہلاکت کا زیادہ ذکر تھا، سکھوں کے قتل عام کا تذکرہ ہی نہ تھا۔ واحد قابل ذکر تحقیقات جسٹس ناناوتی کی تھی لیکن انھوں نے بھی صورت حال کا زیادہ گہرائی سے جائزہ نہیں لیا تھا اور نہ ہی واضح طور پر کسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ حتٰی کہ ایک انٹرویو میں، میں نے ان پر زور دیا کہ وہ اس قتل عام کے پیچھے اصل مجرم کی نشاندہی کریں، تو انھوں نے صرف اتنا کہا ''تم خود جانتے ہو وہ کون تھا۔'' میرا خیال ہے کہ قصور وار کا نام لینا بہت اہم تھا۔ اگر اس وقت قانون کے مطابق یہ کارروائی مکمل کر لی جاتی تب عین ممکن ہے 2002میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نہ ہوتا۔

میں اب بھی سوچتا ہوں کہ حقائق کی تلاش کے لیے ایک باقاعدہ کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے جس طرح جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی زیر قیادت سیاہ فاموں کی حکومت بننے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کے روبرو بے شمار سفید فام پیش ہوئے جنہوں نے سیاہ فاموں کو مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے کی جانے والی اپنی غیر قانونی کارروائیوں کا اعتراف کیا اور اپنے گھنائونے کردار پر اظہار ندامت کیا۔ وہاں کسی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ کمیشن کا مقصد صرف اعتراف کرانے تک محدود تھا سزا دینا نہیں تھا۔ اس قسم کے اعترافات کانگریس کے لیڈروں اور اس وقت کے حکام کی طرف سے بھی ہونے چاہئیں، صرف اسی صورت میں اس المیے کے مداوے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

ایک نوجوان سکھ نے جنتر منتر کے مقام پر مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ: سکھوں پر یہ ظلم اس وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ ہماری تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا صرف 2 فیصد ہے۔ لیکن مسلمان جو 17 فیصد ہیں، ان کے ساتھ بھی تو چنداں مختلف سلوک نہیں ہوا''۔ مجھے اس کی مایوسی سے زیادہ بے بسی سے دھچکا لگا۔وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ اس ملک کی حالت ہے جو جمہوری اور سیکولر ہونے کے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے۔ 80 فیصد ہندو اس تنقید کو آسانی سے مسترد کر سکتے ہیں جیسے کہ وہ کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اگر اقلیتیں محرومیوں کا شکار ہو جائیں تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ میری جو بات چیت ہوتی رہی ہے، اس میں وہ کہتے ہیں کہ تقسیم برصغیر کا بھاری پتھر آزادی کے 65 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کی گردن کے ساتھ لٹک رہا ہے۔ بہر حال اب کچھ اعتماد سازی کے اقدامات کی اطلاع ملی ہے۔

جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ نے چند روز قبل ایک تقریر میں کہا تھا، مسلمانوں کی تشویش کی وجوہات کو سمجھنے اور ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس کمیونٹی کا اعتماد بحال ہو سکے اور وہ قومی دھارے میں شریک ہو سکیں۔ بھارتی حکومت اب درست سمت میں پیشرفت کر رہی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند مثبت اقدامات سے مسلمانوں کی حالت بہتر بنائی جا سکے گی۔ مسلمانوں کو خود اپنی سیاسی قوت کا احساس ہو گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی تقریباً ایک تہائی نشستوں میں مسلمانوں کا ووٹ امیدواروں کے جیتنے یا ہارنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

مسلمانوں کو حکمت عملی کے اعتبار سے بتدریج اپنے ووٹ کی افادیت کا علم ہو رہا ہے۔ آزادی کے پہلے تیس چالیس سال تک کسی حکومت نے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ مگر اب حکومت مسلمانوں کی بات کو وزن دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ دوسری طرف سکھ ہیں جو خود کو ہندو کمیونٹی کے قریب خیال کرتے ہیں لیکن اب وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ صرف قریبی تعلقات ہی کافی نہیں بالخصوص اگر ہندو 1984کی طرح پھر سے مشتعل ہو جائیں تو سکھوں کے لیے اپنا بچائو کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ممکن ہے آپریشن بلیو اسٹار کے المیے میں کوئی زیادہ برا سبق بھی پوشیدہ ہو تب ہی ہم جنرل اے ایس واڈیا کی ہلاکت اور لیفٹیننٹ جنرل کے ایس برار پر قاتلانہ حملے کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں جنہوں نے امرتسر کے گوردوارہ صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں سکھ باغیوں کے خلاف آپریشن کی قیادت کی تھی۔

وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، ایک منتخب حکومت کی طرف سے آرمی کمانڈروں کو دیے گئے احکامات کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔ اور فوج کا فرض ہے کہ ان احکامات کو وفاداری کے ساتھ نبھائے۔ وہ ایک بہت افسوسناک دن ہو گا جب فوج ان حکمرانوں کے احکامات پر سوالیہ نشان لگانے لگے جن کو پارلیمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔

بہرحال آرمی کے کردار سے مجھے ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ کا مضحکہ خیز انداز یاد آ رہا ہے، خاص طور پر جب موصوف نے پارلیمنٹ کا گھیرائو کرنے کا ذکر کیا تھا۔ مجھے اس بات پر بہت دھچکہ لگا کہ گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے اپنے پلیٹ فارم پر انھیں بھی شریک کر لیا اور یہ ادراک ہی نہ کیا کہ اس سے اس تحریک کو کتنا زبردست نقصان پہنچا ہے جو اخلاقی اقدار کی بحالی کے لیے شروع کی گئی تھی۔

اب آپ ان دو جرنیلوں کا موازنہ کریں، ان میں سے ایک سیاست میں آنے کے لیے بے چین ہے جب کہ دوسرا یعنی برار جو سکھ ہے وہ سیاسی حکام کے احکامات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اصل سوال سیاست کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔ متاثرہ خاندانوں کی اتنی مدت گزرنے کے باوجود بحالی نہ ہونے کے خلاف سکھ احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک متاثرہ خاندان کی خاتون سرجیت کور کہتی ہے کہ میں گزشتہ 28 سال سے اس دہشت ناک منظر کو بھلا نہیں پائی جب میرے شوہر اور دو بیٹوں سمیت پوری فیملی کو شرپسندوں کے ہجوم نے ہلاک کر دیا۔ میں ہر سال میڈیا کو اپنی درد بھری کہانی سناتی ہوں مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔یہ درست ہے کہ ہمیں زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے مگر یہ کہنا آسان ہے کرنا آسان نہیں۔ لیکن قصور واروں کو سزا ملنے سے متاثرین کو تسلی ہو جاتی ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے سکھ کمیونٹی کا اعتماد بحال ہو سکے اور وہ خود کو بے یارو مدد گار محسوس نہ کریں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں