بھارت کا پرانا راگ

بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے معاملات ایک عرصے سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔

بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے معاملات ایک عرصے سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ فوٹو؛ فائل

بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے بدھ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہی پرانی رٹ دہرائی کہ جب تک پاکستان پٹھان کوٹ واقعے پر ٹھوس کارروائی نہیں کرتا اس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے' دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پہلی ترجیح اور مذاکرات دوسرے نمبر کا ایجنڈا ہے' اس حوالے سے پاک بھارت وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیران مسلسل رابطے میں ہیں۔

بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے معاملات ایک عرصے سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں' جب بھی بھارت سے مذاکرات کی بات چلتی اور یہ امید بنتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرکے دوستانہ تعلقات آگے بڑھانے کے لیے بہتر راستہ تلاش کریں گے تب کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی معاملات اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان مختلف مواقع پر غیر رسمی ملاقات کے بعد یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اب ان کے درمیان جلد رسمی ملاقات ہوگی' گلے شکوؤں کے بجائے دوستی اور پیار و محبت کی باتیں ہوں گی اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے باعث پیدا ہونے والی دوریاں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد سمٹتی چلی جائیں گی۔ مگر وہی ہوا جس خدشے کا مسلسل اظہار کیا جا رہا تھا' پٹھانکوٹ کے واقعے نے مذاکرات کے لیے بڑھتے ہوئے بھارتی قدموں کو روک دیا اور بات وہیں رک گئی۔

اس دوران پاکستان نے ایک ذمے دار ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پٹھانکوٹ واقعے کی تحقیقات کے لیے بھارت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا یہاں تک کہ اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کر لی اور بھارت سے کہا کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے اور اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم پٹھانکوٹ میں جائے وقوعہ کا معائنہ کرے گی۔ لیکن بھارت نے صاف صاف انکار کر دیا کہ وہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئربیس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔


بھارت کا یہ انکار تحقیقات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے جب تک جائے وقوعہ کا معائنہ کر کے شواہد اکٹھے نہ کیے جائیں تب تک واقعے کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اب بھارت یہ واویلہ مچا رہا ہے کہ جب تک پاکستان پٹھانکوٹ واقعے پر ٹھوس کارروائی نہیں کرتا تب تک مذاکرات کا عمل شروع نہیں ہو سکتا۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان آنکھیں بند کرکے اس کی فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کا عمل شروع کرے۔ پاکستان تو ٹھوس کارروائی کے لیے تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر بھارتی ہٹ دھرمی اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

بھارت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ تحقیقاتی عمل چند روز میں مکمل نہیں ہو سکتا یہ ایک طویل پراسیس ہے اس لیے دہشت گردی کا ایشو بنا کر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جانا چاہیے۔ بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور آپریشن کر رہے ہیں۔

اگر بھارت میں پٹھانکوٹ ایئر بیس کا واقعہ رونما ہوا ہے تو پاکستان میں بھی سیکیورٹی تنصیبات اور اداروں پر حملے ہوئے ہیں، اس لیے اس خطے میں دہشت گردوں کا ایک طاقتور مافیا موجود ہے جو امن و امان کے مسائل پیدا کر رہا ہے اس لیے کسی بھی وقت دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت کو دہشت گردی کے کسی واقعے کی آڑ میں مذاکرات کا عمل معطل نہیں کرنا چاہیے بلکہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فی الفور مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے یہ امید افزا عندیہ دیا ہے کہ رواں ماہ امریکا میں ہونے والی جوہری سیکیورٹی سربراہی کانفرنس کے دوران بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ انھوں نے امریکا میں ڈیفنس رائٹرز گروپ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ہمارا اندرونی مسئلہ ہے یہ افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی ہے جو ملک کے لیے دوسرا بڑا خطرہ ہے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ امن برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

اگر بھارت اپنے اس دعوے میں سچا ہے تو اسے آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں مذاکراتی عمل فی الفور شروع کر دینا چاہیے۔ جہاں تک پٹھان کوٹ واقعہ کا تعلق ہے تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ وہ اپنے تعاون کا ہر ممکن یقین دلاتا چلا آ رہا ہے۔
Load Next Story