بیروزگار دیہاتی سولر بزنس مین بن سکتے ہیں

جائز و حلال روزگار کے اس قحط سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئے آئیڈیاز درکار ہیں۔

دیہاتی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے، خاص طور پر چھوٹے زرعی رقبے رکھنے والے کسانوں کے لیے کاشتکاری مہنگی تو دوسری طرف اجناس کی قیمتیں صحیح نہیں ملتیں، مڈل مین زیادہ منافع لے جاتا ہے۔ ادھر جیسے جیسے خاندان پھیل رہے ہیں ویسے ویسے نسل در نسل تقسیم در تقسیم سے رقبے ہیں کہ سکڑتے جاتے ہیں۔

10 ایکڑ سے کم رقبے والے اور بے زمین کسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے دیہات سے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے، مشرق وسطیٰ وسیع تر سیاسی و فرقہ ورانہ انتشار کے بظاہر طویل دور میں داخل ہورہاہے قانونی وغیر قانونی طور پر شمالی امریکا، مغربی یورپ اور آسٹریلیا عام پاکستانیوں کے لیے جانا اب تقریبا ناممکن ہوچکا ہے۔ دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی طاقت ور معیشتوں مثلاً چین، برازیل، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا وغیرہ کو افرادی قوت درآمد کرنے کی ضرورت نہیں دنیا کی معیشت ویسے بھی بدل رہی ہے اور اب اسپیشلائزڈ ورکرزکا دور ہے۔

خام، نیم خواندہ غیر تربیت یافتہ اور غیر معیاری تربیت یافتہ افرادی قوت کی عالمی معیشت میں جگہ تیزی سے تنگ ہورہی ہے۔ صوبہ سندھ کے دیہات میں بیرون ملک جانے کے مقابلے میں سرکاری نوکریاں نسبتاً زیادہ مقبول رہی ہیں سرکاری نوکریوں میں عموماً کام کم اور اکثر اوپر کی آمدنی وافر ہوتی ہے مگر سرکاری نوکریوں پہ سیاسی و لسانی بنیادوں پر بھرتیاں پہلے ہی کئی جگہوں پر اتنی زیادہ ہوچکی ہیں کہ اب بہتوں کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

کراچی پورے ملک کے لوگوں کو روزگار فراہم کرتا تھا تاہم جرائم، کرپشن اور کراچی سے لسانی نفرت کے راج نے کراچی کی صنعتی معیشت وسیع پیمانے پر تباہ کردی ہے اور شہر کی جائز و قانونی روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت کو شدید متاثر کیا ہے اتنا بڑا یہ دنیا کا واحد بد قسمت شہر ہے جو اپنی منتخب با اختیار شہری حکومت سے محروم ہے، کچھ تعجب نہیں کہ ملکی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بڑھتی ہوئی درآمدات اور اسمگلنگ نے ملک میں مینو فیکچرنگ صنعتی کو تسلسل سے نقصان پہنچایا ہے۔

اس تمام صورت حال میں لوگوں کے لیے لے دے کے بس Self Employment یعنی خود روزگار کا ہی راستہ رہ جاتا ہے تاہم سرمائے کی کمی اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، چنانچہ زیادہ تر لوگ چھوٹی موٹی دکان، اسٹال، ٹھیلہ یا خوانچہ لگالیتے ہیں تاہم گاؤں دیہات میں ایک تو زیادہ تر لوگوں کی قوت خرید محدود ہوتی ہے چنانچہ اشیائے صرف کے چھوٹے SKUs (Stock Keeping Units) یعنی چھوٹے پیکس زیادہ بکتے ہیں دوسرے وہاں ابھی بھی عام طور پر برانڈڈ اور نان برانڈڈ اشیا میں زیادہ تفریق نہیں برتی جاتی چنانچہ دیہات میں ایک حد سے زیادہ دکانیں نہیں چل سکتیں۔ جائز روزگارکی قلت اور آمدنی میں کمی ایسی ہے کہ کہیں لوگ کتے کا گوشت بیچ رہے ہیں تو کہیں جعلی دوائیں، کہیں چھینا جھپٹی،کہیں چوری چکاری، بھوک ایسی ہے کہ عضو عضو کو کھانے کے درپے ہے۔

جائز و حلال روزگار کے اس قحط سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئے آئیڈیاز درکار ہیں۔ خصوصاً ایسے جن سے نہ صرف لوگوں اور ملکی معیشت کو بلکہ قدرتی ماحول کو بھی فائدہ پہنچے۔ پاکستان توانائی کی شدید قلت کا شکار اور تقریباً سارا ہی حکومتی زور بجلی پیدا کرنے کے روایتی اور ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ذرایع مثلاً کوئلے اور تیل سے چلنے والی میگا پراجیکٹس پر ہے گرین انرجی مثلاً شمسی توانائی کے بھی چند ایک بڑی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے تقریباً 44 فی صد گھر ابھی بھی نیشنل الیکٹرک گرڈ سے منسلک نہیں ہیں اور ان 44 فی صد کے 80 فی صد گھر ہمارے دیہاتی علاقوں میں ہیں۔

ہمارے دیہات کے لیے شمسی توانائی آئیڈیل ہے دوسری ٹیکنالوجیز کے برعکس شمسی توانائی کے استعمال کے لحاظ سے دنیا بھر میں دیہات شہری علاقوں سے آگے ہیں۔ IEA یعنی انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق 2050 تک سولر پاور دنیا میں توانائی کا سب سے اہم ذریعہ ہوسکتی ہے ۔ سولر انرجی کی ضمن میں ہمیں بڑے بڑے سولر پلانٹس کے بجائے گھریلو سولر پاورکا کلچر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ تکنیکی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 100 میگا واٹ کا سولر پاور پراجیکٹ عام طور پر 20 میگا واٹ کے آس پاس کی بجلی یومیہ پیدا کرتا ہے تاہم سولر پاور پلانٹس دن کے 24 گھنٹے آپریٹ نہیں کرتے، زیادہ سے زیادہ 10 سے 16 گھنٹے یہ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے جس کا انحصار سورج کی روشنی کی دستیابی پر ہے گو کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے سولر پاورکی استعداد کار تقریباً 24 گھنٹے تک بڑھائی جاسکی ہے تاہم ابھی یہ ابتدائی اور مہنگے مرحلے میں ہے۔

سورج کی روشنی کے علاوہ دوسرے ماحولیاتی عناصر مثلاً ہوا، درجۂ حرارت اور گرد آلود فضا بھی سولر پاور پلانٹس کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ادھر ہمارے ہاں انفرا اسٹرکچر مسائل بھی ہیں مثلاً سولر پاور پلانٹس سے نیشنل گرڈ تک لائنوں کا بچھانا پھر لائن لاسز ویسے ہی غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں نتیجتاً آخر میں سولر انرجی لا محالہ مہنگی پڑتی ہے گھریلو سولر پاور خصوصاً دیہات کے لیے ایک آئیڈیل آپشن ہے یہاں تک کہ اگر ہمارے ہاں 100 فی صد گھروں کو بنا کسی لوڈ شیڈنگ کے بجلی ملنے لگے تب بھی گھریلو سولر پاور کی افادیت اپنی جگہ قائم رہے گی۔ کیوں کہ گھر کی سطح پر یہ طویل المیعاد بنیاد پرستی ہے۔


قدرتی ماحول دوست ہے اور ہر مہینے بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں کے غیر یقینی پن سے بچانے کے ساتھ ساتھ بجلی چوری کے نقصانات کے بوجھ سے بھی محفوظ کرسکتی ہے ہمارے ہاں بجلی چوروں کی چوری کا بوجھ شریف اور باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے شہریوں پر لادا جاتا ہے۔

ہمیں گراس روٹس گھریلو سطح پر شمسی توانائی کے پھیلاؤ کی ضرورت ہے ہمارے دیہات سے اس سلسلے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں گھریلو سولر اپلائنسر مثلاً پنکھے، لائٹس وغیرہ اورگھریلو استعمال کے لیے سولر پاور یونٹس بنانے اور در آمد کرنے والی کمپنیوں اور بڑے ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ مل کر رورل سولر ایمپلائمنٹ پروگرام شروع کریں جو کہ مندرجہ ذیل حصوں پر مشتمل ہو۔

(1)مختلف دیہات میں ایسے بے روزگار افراد کا انتخاب جو اپنے علاقے اور علاقے کے لوگوں اور سماجی و ثقافتی ماحول سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں۔

(2) ان افراد کی سولر پاور اپلائنسز اور یونٹس کی تنصیب، دیکھ بھال (Maintenance) اور مرمت (Trouble Shooting) کی ٹریننگ جس کا خرچہ حکومتیں اور سولر بزنسز مل کر برداشت کریں گی۔

(3) وفاقی حکومت کی ''پرائم منسٹر ٹرانسپورٹ اسکیم اور پنجاب حکومت اپنا روزگار اسکیم کے ذریعے ان افراد کو آسان و نرم شرائط پر چھوٹے ٹرانسپورٹ وہیکلز کی فراہمی۔

(4) ان افراد کی بطور سولر بزنس مین اپنے اپنے علاقوں کے لیے نامزدگی جہاں وہ گھروں اور عام دکانوں کو سیلز کمیشن پہ گھریلو سولر اپلائنسز اور سولر پاور یونٹس فروخت کریں ساتھ ساتھ دیکھ بھال اور مرمت سے بھی آمدنی حاصل کریں۔

وفاقی حکومت جہاں تعلیم اور صحت کے پروگرام ملک میں لانچ کررہی ہے وہاں رورل سولر ایمپلائمنٹ پروگرام بھی شروع کرسکتی ہے جو دیہات میں روزگار پھیلانے اور بجلی کی قلت گھٹانے کے ساتھ ساتھ اس کے امیج میں اضافہ کرے گا، پنجاب حکومت سے بھی اس سلسلے میں مثبت امید رکھی جاسکتی ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت پہلے ہی صوبے کے 200 دیہات کے 5800 آف گرڈ گھروں کو فی گھر 200 واٹ کے سولر پینل فراہم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس میں صوبائی حکومت سولر پینل کی 90 فی صد لاگت برداشت کررہی ہے جب کہ باقی کا خرچہ گھروں کے ذمے ہے، خیبر پختونخواہ حکومت بھی رورل سولر ایمپلائمنٹ پروگرام کا آغاز کرسکتی ہے جب کہ بلوچستان میں جہاں قومی اداروں نے لوگوں کے لیے کئی فلاحی و شہری منصوبے کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچائے ہیں وہاں اس پروگرام پہ بھی عمل کرسکتے ہیں۔

دیہاتی بیروزگار سے سولر بزنس مین یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے بس ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو روایتی سوچ سے کچھ باہر نکلنا ہوگا۔
Load Next Story