دِھیان کی سیڑھیاں یا دِھیان سے سیڑھیاں
اسی طرح کے کچھ منصوبے KPK اور بلوچستان میں بھی شروع کیے گئے،
قارئین کرام! کچھ عرصہ قبل میں اپنے Articlesمیں اس بات پر معترض رہا کہ موجودہ حکومت کو ترقی کے ضمن میں صرف پنجاب نظر آتا ہے۔ انھیں باقی 3 صوبوں کی جانب بھی دیکھنا چاہیے۔ پچھلے دنوں میاں صاحب کراچی تشریف لائے اور ''گرین بس'' سروس کے ایک ضروری منصوبے کا افتتاح کرکے چلے گئے، مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ میری آواز نے ان کی سماعت کو چھولیا، لیکن ان کا یہ قدم قابل ستائش، لائق تحسین ہے۔
اسی طرح کے کچھ منصوبے KPK اور بلوچستان میں بھی شروع کیے گئے، میرے نقطۂ نظر سے اس سلسلے کو مزید دراز کرنا چاہیے، کیوں کہ موجودہ وقت ملک صوبائیت کی طرف بڑھ رہا ہے اس کی وجوہات مختلف ہیں لیکن قابل ذکر وہ سیاست دان جنھیں مستقبل قریب میں اپنی سیاسی بساط لپٹتی دکھائی دے رہی ہے وہ عوام کو ایسا مخصوص اور ڈھکا چھپا پیغام دیتے ہیں جس میں صوبائیت کا پرچار بھی ہوتا ہے۔
مثلاً اس جملے پر غور فرمایے ''مرکز نے سندھ پر حملہ کردیا'' احتساب صرف ہمارا ہو رہا ہے، کیا مرکز کو KPK نظر نہیں آتا، ایسا ہے تو سن لو پٹھان غیرت مند ہوتا ہے، ہم سے انصاف نہیں ہوگا تو کسی اور سے بھی مدد لیںگے، بلوچ انصاف لینا جانتا ہے یہ اور اس طرح کے بہت سے بیانات آپ نے پڑھے ہوںگے۔ ایسی صورت حال میں مرکز میں جس کی بھی حکومت ہو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کے ذریعے رویے (Behavior) سے باقی ملکی عوام پر اپنا اعتبار قائم کرے، انھیں مرکز کی اہمیت سے آگاہ کرے، وہ مرکز کا دست و بازو ہیں انھیں احساس دلایا جائے، خود کو بڑا کہنا یا بڑا بھائی کہنا آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنے میں بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔
قارئین کرام ! انڈیا، پاکستان، افغانستان سپورٹ میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، گویا ہتھیاروں کی، اسلحہ سازی کی، ایک دوسرے پر برتری کی، ایک دوسرے کو ختم کردینے کی ایسی دوڑ لگی ہے جس میں Supporters کا اسلحہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔ جنگ تو شاید نہ ہو لیکن اسلحے کے خریدار ممالک بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوجائیںگے اور آخر میں بڑا کون ثابت ہوگا اﷲ جانے۔ ادھر ایران، شام، عراق، سعودی عرب، ترکی کے مابین بھی ایسا ہی معاملہ بین الاقوامی افق پر ان دنوں پتنگیں ہی پتنگیں ہیں۔ لال، ہری، زرد، نیلی، ساری پتنگوں پر ستارے جڑے ہیں۔
10،12،14،40 ستارے کون کس کو کٹوا رہا ہے، ڈور کی فراہمی کہاں سے، ہوا کس کے حق میں، مقام کس کا بہتر، کس کی ڈور تیز دھار، کس کی پتنگ بلندی پر، کس کا پیچا لمبا، کس کا مختصر، کون گھاگ کھلاڑی، کون نو آموز، لیکن آکاش بھرا ہے۔ آگے کیا ہوگا۔ معلوم نہیں۔ یہ کہنا پڑے گا ''آثار اچھے نہیں'' کیوں کہ انسان نے جب بھی یہ طے کرنے کی کوشش کی کہ ''بڑا کون ہے'' یا افضل کون؟ تب بد ترین جنگیں لڑی گئیں، کروڑوں انسان مارے گئے اور طے پھر بھی نہ ہوسکا بظاہر آج امریکا سمیت 6 ممالک بڑائی کی صف میں ترتیب وار ہیں، لیکن سب سے بڑا کون؟ شاید کوئی نہیں۔
اور اس بات کو طے کرنے میں نقصانات کس قدر ہوئے؟ بے اندازہ، بے شمار ایٹم بم بنائے گئے۔ مہلک ترین میزائل تیار ہوئے جن کے لیے کیے گئے تجربات نے خطۂ انسانی کی فضا کی بنیاد تک کو بدل دیا۔ کائنات کا معتدل درجۂ حرارت تبدیل ہوا، سمندر، دریا، آبشاریں، موسم، پہاڑ اپنی فطری ماہیت کو کھوکر آج سیلاب ہیں۔ آتش فشاں ہیں جھلسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امن سے رہا جاسکتا تھا۔ رہا جاسکتا ہے۔ اگر اس سوال کو تج دیا جائے کہ ''بڑا کون ہے؟'' جو ترقی یافتہ ہیں وہ باقیوں کو تعلیم فراہم کرسکتے ہیں، ضرورتوں میں ایک دوسرے کی مدد کی جاسکتی ہے اگر برادری ''انسان'' کو قرار دیا جائے، بھائی جانوروں سے مثال لے لیں، شیروں کی دنیا بھر میں ایک ہی برادری ہے۔
اسی طرح گدھوں کی، گھوڑوں، خچروں کی، ہاتھیوں، ہرنوں کی، پرندوں کی، حشرات الارض کی اور انسانوں کی، شعور تو رہنما ہوتا ہے عاجز و منکسر ہوتا ہے۔ یہ قاتل اور شیطان کب سے بن گیا؟ یہ چور اور راہ زن کا روپ کب سے دھار گیا؟ کوئی مذہب انسانی تفریق کا باعث نہ بنا، سبھی کی تعلیمات قدروں پر مشتمل، سبھی کا پیغام ''محبت'' امن، بھائی چارہ، لیکن علم کو تو آگہی دینی تھی، اور سب سے زیادہ تعلیم یورپ و امریکا میں ہے لہٰذا زیادہ ذمے داری بھی آپ کی بنتی ہے۔ میں آخر میں اپنے سارے لبرل، سیکولر بھائیوں سے درخواست کروںگا کہ وہ اپنے عقائد کا پرچار نہ کریں پاکستان مسلم اسٹیٹ ہے ہم مسلمانوں نے اپنی ریاست کے تمام معاملات حکومت کے حوالے کردیے۔
حتیٰ کہ ہم تو اپنے جائز حقوق کے لیے بھی نہیں اٹھتے کوئی گلہ نہیں کرتے لیکن توہین رسالت ناقابل برداشت ہے۔ اگرچہ معاملہ 100% ریاست کا ہے ہمیں صرف Complain کرنی ہے، ایسے کسی بھی فرد کی خواہ اس کا عہدہ یا رتبہ کوئی بھی ہو میں پھر بھی ملتمس ہوں۔
اسی طرح کے کچھ منصوبے KPK اور بلوچستان میں بھی شروع کیے گئے، میرے نقطۂ نظر سے اس سلسلے کو مزید دراز کرنا چاہیے، کیوں کہ موجودہ وقت ملک صوبائیت کی طرف بڑھ رہا ہے اس کی وجوہات مختلف ہیں لیکن قابل ذکر وہ سیاست دان جنھیں مستقبل قریب میں اپنی سیاسی بساط لپٹتی دکھائی دے رہی ہے وہ عوام کو ایسا مخصوص اور ڈھکا چھپا پیغام دیتے ہیں جس میں صوبائیت کا پرچار بھی ہوتا ہے۔
مثلاً اس جملے پر غور فرمایے ''مرکز نے سندھ پر حملہ کردیا'' احتساب صرف ہمارا ہو رہا ہے، کیا مرکز کو KPK نظر نہیں آتا، ایسا ہے تو سن لو پٹھان غیرت مند ہوتا ہے، ہم سے انصاف نہیں ہوگا تو کسی اور سے بھی مدد لیںگے، بلوچ انصاف لینا جانتا ہے یہ اور اس طرح کے بہت سے بیانات آپ نے پڑھے ہوںگے۔ ایسی صورت حال میں مرکز میں جس کی بھی حکومت ہو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کے ذریعے رویے (Behavior) سے باقی ملکی عوام پر اپنا اعتبار قائم کرے، انھیں مرکز کی اہمیت سے آگاہ کرے، وہ مرکز کا دست و بازو ہیں انھیں احساس دلایا جائے، خود کو بڑا کہنا یا بڑا بھائی کہنا آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنے میں بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔
قارئین کرام ! انڈیا، پاکستان، افغانستان سپورٹ میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، گویا ہتھیاروں کی، اسلحہ سازی کی، ایک دوسرے پر برتری کی، ایک دوسرے کو ختم کردینے کی ایسی دوڑ لگی ہے جس میں Supporters کا اسلحہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔ جنگ تو شاید نہ ہو لیکن اسلحے کے خریدار ممالک بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوجائیںگے اور آخر میں بڑا کون ثابت ہوگا اﷲ جانے۔ ادھر ایران، شام، عراق، سعودی عرب، ترکی کے مابین بھی ایسا ہی معاملہ بین الاقوامی افق پر ان دنوں پتنگیں ہی پتنگیں ہیں۔ لال، ہری، زرد، نیلی، ساری پتنگوں پر ستارے جڑے ہیں۔
10،12،14،40 ستارے کون کس کو کٹوا رہا ہے، ڈور کی فراہمی کہاں سے، ہوا کس کے حق میں، مقام کس کا بہتر، کس کی ڈور تیز دھار، کس کی پتنگ بلندی پر، کس کا پیچا لمبا، کس کا مختصر، کون گھاگ کھلاڑی، کون نو آموز، لیکن آکاش بھرا ہے۔ آگے کیا ہوگا۔ معلوم نہیں۔ یہ کہنا پڑے گا ''آثار اچھے نہیں'' کیوں کہ انسان نے جب بھی یہ طے کرنے کی کوشش کی کہ ''بڑا کون ہے'' یا افضل کون؟ تب بد ترین جنگیں لڑی گئیں، کروڑوں انسان مارے گئے اور طے پھر بھی نہ ہوسکا بظاہر آج امریکا سمیت 6 ممالک بڑائی کی صف میں ترتیب وار ہیں، لیکن سب سے بڑا کون؟ شاید کوئی نہیں۔
اور اس بات کو طے کرنے میں نقصانات کس قدر ہوئے؟ بے اندازہ، بے شمار ایٹم بم بنائے گئے۔ مہلک ترین میزائل تیار ہوئے جن کے لیے کیے گئے تجربات نے خطۂ انسانی کی فضا کی بنیاد تک کو بدل دیا۔ کائنات کا معتدل درجۂ حرارت تبدیل ہوا، سمندر، دریا، آبشاریں، موسم، پہاڑ اپنی فطری ماہیت کو کھوکر آج سیلاب ہیں۔ آتش فشاں ہیں جھلسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امن سے رہا جاسکتا تھا۔ رہا جاسکتا ہے۔ اگر اس سوال کو تج دیا جائے کہ ''بڑا کون ہے؟'' جو ترقی یافتہ ہیں وہ باقیوں کو تعلیم فراہم کرسکتے ہیں، ضرورتوں میں ایک دوسرے کی مدد کی جاسکتی ہے اگر برادری ''انسان'' کو قرار دیا جائے، بھائی جانوروں سے مثال لے لیں، شیروں کی دنیا بھر میں ایک ہی برادری ہے۔
اسی طرح گدھوں کی، گھوڑوں، خچروں کی، ہاتھیوں، ہرنوں کی، پرندوں کی، حشرات الارض کی اور انسانوں کی، شعور تو رہنما ہوتا ہے عاجز و منکسر ہوتا ہے۔ یہ قاتل اور شیطان کب سے بن گیا؟ یہ چور اور راہ زن کا روپ کب سے دھار گیا؟ کوئی مذہب انسانی تفریق کا باعث نہ بنا، سبھی کی تعلیمات قدروں پر مشتمل، سبھی کا پیغام ''محبت'' امن، بھائی چارہ، لیکن علم کو تو آگہی دینی تھی، اور سب سے زیادہ تعلیم یورپ و امریکا میں ہے لہٰذا زیادہ ذمے داری بھی آپ کی بنتی ہے۔ میں آخر میں اپنے سارے لبرل، سیکولر بھائیوں سے درخواست کروںگا کہ وہ اپنے عقائد کا پرچار نہ کریں پاکستان مسلم اسٹیٹ ہے ہم مسلمانوں نے اپنی ریاست کے تمام معاملات حکومت کے حوالے کردیے۔
حتیٰ کہ ہم تو اپنے جائز حقوق کے لیے بھی نہیں اٹھتے کوئی گلہ نہیں کرتے لیکن توہین رسالت ناقابل برداشت ہے۔ اگرچہ معاملہ 100% ریاست کا ہے ہمیں صرف Complain کرنی ہے، ایسے کسی بھی فرد کی خواہ اس کا عہدہ یا رتبہ کوئی بھی ہو میں پھر بھی ملتمس ہوں۔