پاکستان اور استبدادی قوتیں پہلاحصہ

جن میں معروضی طور پراکثرممالک قبائل کے اتحاد پر منحصرہیں ۔



مادی جدوجہد اور ریاستوں کے بیانیے:حضرت انسان،آسائشِ حیات کے لیے مادی بنیادوں پر تحیرانگیزوخون آشام مراحل طے کرکے موجودہ تمدنی تہذیب، ترقی اورجدیدیت کی'' معراج'' کو چھو نے لگا ہے۔

ننگ دھڑنگ حیوانی سطح کی زندگی گذارنے اورجنگلی درندوں سے لڑجھگڑکرضروریاتِ زندگی حاصل کرنے والابنی نوع انسان کرہ ارض کی خشکی وتری پر تصرف حاصل کرکے اب فلکی اجسام پر اجارہ داری قائم کرنے کی جنگ میں مصروف ہے۔اگر مادی لحاظ سے انسان کی ہزاروں صدیوں کی معلوم اورلاکھوں صدیوں کی قیاسات ومفروضات کی روشنی میں مرتب شدہ تاریخ پر اعتدال اور وسیع النظری کے تمام معلوم و مروج پیمانوں کی پاسدار ی میں بغیرکسی تعصب کے صرف ایک نظر ڈال لیں، تو عالم انسانیت کی موجودہ گروہی اشکال میں تقسیم کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ ''حضرت انسان اپنی مرتب شدہ تمدنی وتہذیبی تاریخ میں اپنے ابتدائی ارتقائی مراحل میں انفرادی وقبائلی سطح سے اٹھ کرکرہ ارض پر دو سو سے زائد ممالک کی شکل میں قومی تشخص کا نیا وجود لینے کے علاوہ کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے ۔

جن میں معروضی طور پراکثرممالک قبائل کے اتحاد پر منحصرہیں ۔ جب کہ نظری طور پر بعض ممالک قبائلیت پر مشتمل قومی اکائیوں کے اتحاد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ان کی اجزائے ترکیبی جو بھی ہوں، لیکن ان کے جدید قومی تشخص کے اتحاد کی بنیاد اساسی طور پر صدیوں پرانے 1۔لوازماتِ تمدن کی فراہمی اور2۔ تحفظ حیات انسانی کے دونکاتی ایجنڈے پر ہی ٹکی ہوئی ہے۔اس لحاظ سے اگر ان دونکات کو ریاستوں کا ابتدائی وبنیادی بیانیہ تصورکیا جائے توشاید یہ کچھ اتنا غلط بھی نہ ہوگا۔''

بیانیے اوراستبدادکی شکل:کرہ ارض کے معروضی حالات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ ارتقائی شکل میں ریاستوں کے انھی دونکا ت پر مشتمل بیانیوں سے نہ صرف قریب قریب محروم ومفلوج ہوچکا ہے ، بلکہ جبرواستبداد کے اس تاریخی ارتقائی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ جہاں سے انسان تاریخی جبرکے زیر اثر شعوری ولاشعوری طور پر تخریب یا تعمیر کے اگلے تاریخی ارتقائی مرحلے میں داخل ہونے کی راہ ہموار کرتا آیا ہے ۔چونکہ نظام تمدن اور انتظام کرہ ارض کے لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں استبداد کی علاقائی وداخلی شکل اب عالمی اور بیرونی حیثیت بھی لے چکی ہے ۔

اس لیے کرہ ارض کے ہر ایک حصے پر اس استبدادی آہنی پنجوں کی مضبوط گرفت کی وجہ سے ترقی یافتگی و ترقی پذیری کے تخصیصی وامتیازی فرق کے باوجود ''کرہ ارض پر موعود ریاستیں '' لوازمات تمدن کی فراہمی اور تحفظ حیات انسانی کے فرائض کو اس کے حقیقی حسن کے ساتھ ادا کرنے سے مکمل طور پر قاصر رہتی آرہی ہیں ۔ جب کہ کچھ ترقی یافتہ ریاستیں اگر ان دونکات کی ادائیگی کے معیار پرکھرا اترتی بھی ہیں تو ان ریاستوں کے معاشی نظام ان عالمی استعماری واستبدادی طبقے کے مفادات کے تحفظ کار کی شکل لیے ہوئی ہیں اور ان ریاستوں میں یہ عالمی استعماری قوتیںجب چاہیں اپنی ممکنہ نافرمانی کے خوف سے ''کچھ ''بھی کرواسکتی ہیں۔

جس کے لازمی نتیجے کے طور پر ہر ملک میں بسا انسان اپنی اپنی طرزکے مادی طور پر مرتب شدہ انداز معاشرت کے باوجود لوازمات تمدن کے فقدان میں مبتلا عدم تحفظ کا شکار نظرآتا ہے۔نائن الیون ، سانحہ پیرس اور ترکی میں فوجی قافلے پر حملے اس کی سب سے بڑی مثال اور ترقی یافتہ ریاستوں کی صف میں ہونیوالے سانحات کے تسلسل میں ترقی پذیر ریاستوں میں بسے انسانوں میں عدم تحفظ کے پھیلے خو ف کا مکمل ، مدلل ومفصل بیان ہے۔جب کہ عدم تحفظ کی مو جودہ کیفیت نے اس سے قبل تاریخ کے کسی بھی دور میں یکساں اور اجتماعی طور پرعالم انسانیت کو اس طرح اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا۔

پاکستان اوراسرائیل :اقوام عالم میں بٹی انسانیت کے تمام گروہوں کی جانب سے انتظام معاشرت کے مختلف مادی تصورات کے دم پر ریاستوں کی بنیادیں رکھنے کے اس مرحلے میں کرہ ارض پر دو ریاستیں1۔ پاکستان2۔ اسرائیل کے قیام کے اجزائے ترکیبی دیگر ریاستوں کے اجزائے ترکیبی اور ابتدائی بیانیوں کے مقابلے میں اپنا ایک الگ ہی انداز اتحاد اور انتظام معاشرت کے تصورات لیے ہوئے ہیں۔ جس میں پاکستان کا مقصود ومنشاء لاینال عہدالظالمین اور فلیعبدو رب ھٰذاالبیت کے بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔

اور ان تحقیقی نکات پر مبنی دو تہذیبوں کی وارثی کا عَلّم لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام رائج کرنے کے لیے ارض پاک کے وجود کو مہذب دنیا کے تمام مروج پیمانوں اور اداروں کے قوانین کی مکمل پاسداری میں اپنے الگ وطن کے وجود کو تسلیم کرانے کی صورت میں حاصل کیا ہے، جب کہ لاینال عہدالظامین کے نکتے پر مبنی تہذیب( بیت المقدس) سے بے دخل کیے گئے اورلستم علیٰ شئی حتیٰ تقویم التوراۃ کے حکم نامے سے منسو خ کیے گئے۔

تحریف شدہ آئین (آفاقی کتاب ) سے وابستہ اسرائیل نامی ریاست کے انسانی گروہ کا مقصود ومنتہاء پاکستان کے'' بنیادی بیانیے'' کے بالکل الٹ ہے ۔جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان (مسلمانوں) اور اسرائیل (یہودیوں) سے متعلق انسانی گروہوں کے صاحب عمل محققین یعنی انبیائے کرام علیہ السلام سے روا رکھے جانے والے ان (یہودیوں)کے تاریخی کردار ہیں ۔جن کی ابتداء ویسے تو کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی شکل میںبیان کی جاتی ہے لیکن دراصل جو سوچ موجودہ اسرائیل نے اپنائی ہوئی ہے، اس کی ابتداء حضرت آدم ؑ کے قاتل بیٹے سے ہوتی ہے۔

چونکہ موجودہ دنیا میں انسانی گروہوں کی اکثریت کا روحانی ومذہبی طور پرتعلق مسلمانیت،عیسائیت اور یہودیت سے ہے، اس بناء پر اس بات سے انکار ممکن ہی نہیںکہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت یعقوب ؑ تک کے زمانے کے مفسد انسانی گروہوں کی انتشاری سوچ کی وارثی اسرائیل سے متعلق انسانی گروہ کے پاس ہی ہے۔اس لحاظ سے موجودہ انسانی گروہوں میں اگراسرائیل سے متعلق انسانی گروہ کو استبداد واستعمارکا سرخیل کہا جائے تو شاید کوئی بھڑکے گا بھی نہیں۔

استبداد اور ریاستیں:اس میں کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسرائیل اپنے مادی وسائل کے دم پر اقوام عالم میں پاکستان اور اس کی مذہبی تہذیب سے متعلق انسانی گروہ (مسلمانوں ) کو دیگر انسانی گروہوں کے سامنے تہذیبو ں کا دشمن اورریاستوں کے بنیادی نکات یعنی پر امن طریقے سے فراہمی لوازمات تمدن اور تحفظ حیات انسانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے میں مصروف کار اور سرگرداں رہتا آیا ہے۔(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔