کامیابی کا نیا باب نیا پاکستان

دہشت گردی اور جہالت کے انباروں میں یہ علم کے روشن دئیے صرف پاکستان لیے نہیں بلکہ دنیا کیلئے بھی امید کا پیغام ہیں۔


خرم زکی March 06, 2016
کم از کم تعلیم عام کرنے کیلئے تو سب اختلافات کو پس پشت ڈال کر حکومت، اپوزیشن اور عوام کو ایک پیج پر ہونا چاہئیے۔ فوٹو: فائل

دل آج کل دل بہت سرشاری کی کیفیت میں ہے، بہت انوکھا سا احساس ہے، نئی جوان اُمنگوں نے ایک نئی راہ دکھا دی ہے، جہاں کھلی کھلی روشن راہوں اور امیدوں نے آنکھوں کو سہانے خواب سجانے پر مجبور کردیا ہے۔ ارے ذرا صبر تو کیجئے! بات پوری کرنے دیجئے، آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں آپ کو اپنے کسی افئیر کی داستان نہیں سنا رہا، بلکہ میں آپ کو پاکستان کا وہ روشن رخ دکھانا چاہ رہا ہوں جو آنے والے تابناک پاکستان کی نوید سنا رہا ہے۔

جی ہاں میں بات کر رہا ہوں پاکستان کے ہونہار طالب علموں کی جو مسلسل تعلیمی میدانوں میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اور دنیا میں پاکستان کی مثبت شناخت قائم کر رہے ہیں۔ یہ اپنی کامیابیوں سے ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان کی پہچان بم دھماکے، قتل و غارت، کرپشن نہیں بلکہ تعلیم، کامیابی اور عزم ہے۔ ابھی پاکستانی قوم کا سر کراچی گرامر اسکول کے طلباء کے کارنامے سے بلند تھا کہ جنہوں نے بوسٹن میں منعقد ہارورڈ ماڈل یونائیٹڈ نیشنز 2016ء میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بہترین ڈیلی گیشن کا اعزاز اپنے نام کیا تھا، ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں 199 ممالک کے نمائندگی کیلئے 3 ہزار سے وفود موجود تھے، اور ایسے موقع پر اپنا لوہا منوانا اعزاز ہی تو ہے۔

آغاز جو انہوں نے کیا تو اسے مزید دوام مریم رضا نے بخشا جب امریکی تعلیمی اداروں میں داخلوں کیلئے ہونے والے ٹیسٹ میں پاکستانی نژاد طالبہ مریم رضا نے 2400 میں 2400 نمبر حاصل کرکے ریکارڈ ہی قائم کر ڈالا۔ ایک زبان زد عام مصرعہ ہے کہ ،
''ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''،

بالکل ایسا ہی ہے کیونکہ ابھی ہم کراچی گرامر اسکول اور مریم رضا کی کامیابی پر شاداں تھے کہ لاہور میں فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف نیو اینڈ ایمرجنگ کے طالب علموں نے ڈیزائننگ اور اختراع کے بین الاقوامی مقابلے میں اول اور دوم پوزیشن حاصل کرکے ایک اور اعزاز پاکستان کے نام کردیا ہے۔ فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف نیو اینڈ ایمرجنگ سائنسز کے ان ہونہاروں نے ''ڈو اٹ یورسیلف'' یعنی خود سے بنائے جانے والے 2 پروجیکٹ تیار کئے، جو عالمی مقابلے میں پیش کئے گئے جس میں 200 کے قریب پروجیکٹ، ڈیزائن اور اختراعات شامل تھیں لیکن پُرعزم پاکستانی طالب علموں نے سب کو پچھاڑتے ہوئے کامیابی اپنے نام کی اور انتھک کاوشوں اور محنت کے نتیجے میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔

ان طالب علموں کا پہلا پروجیکٹ ایکو سینس، وائرلیس سینسر اور ایکچوایٹر نیٹ ورک ہے جسے پہلا انعام دیا گیا، جب کہ دوسرا انعام ''بال بوٹ'' کو ملا جس میں ایک چھوٹا روبوٹ از خود انداز میں گیند کے اوپر توازن برقرار رکھتا ہے۔ اول قرار پانے والا پراجیکٹ ماحول اور اطراف کو نوٹ کرنے والا ایک نظام ہے جو نمی، روشنی، درجہ حرارت نوٹ کرتا ہے۔ یہ نظام مختلف نوڈز سے حقیقی وقت میں نمی اور درجہ حرارت کا ڈیٹا لے کر ان کا ڈیٹا بیس تیار کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی ایجاد ہے جسے سنجیدگی سے لیا جائے تو مستقبل میں اہم معلومات حاصل کرنے میں کار آمد ہوسکتا ہے۔

جبکہ مقابلے میں دوسرا انعام حاصل کرنے والے پروجیکٹ بال بوٹ روبوٹک فیڈ بیک سسٹم ہے، یہ روبوٹ نما آلہ ایک باسکٹ بال کے اوپر خود کو متوازن رکھتا ہے اور گرنے نہیں دیتا، جو کسی بھی سمت مڑ سکتا ہے جب کہ اسے صنعتوں اور دیگر کاموں کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ دہشت گردی اور جہالت کے انباروں میں یہ علم کےروشن دئیے پاکستان کیا دنیا کیلئے امید کا پیغام ہیں۔ نامناسب حالات اور وسائل کی کمی ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بن سکی بلکہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ تمام مسائل کا حل تعلیم کے حصول اور فروغ میں ہی پوشیدہ ہے۔

اسی لئے لیجئے ایک اور خبر سن کر اپنا جی خوش کیجئے، یہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میرے سامنے کھلی ہے جس میں علم کے ایسے متوالوں کا ذکر ہے جو پُرخلوص علم کی دولت بانٹنے میں مصروف ہیں، جی ہاں یہ کراچی کے حسن اور شیریں کا تذکرہ ہے، جو او لیول کے طالب علم ہیں اور سی ویو کے قریب واقع ایک کیفے کے باہر روزانہ ڈیڑھ گھنٹے اسٹریٹ چلڈرن کو پڑھاتے ہیں۔ یہ دونوں ابتداء میں اپنے جیب خرچ سے روزانہ 20 روپے فی بچہ اور چائے کے پیسے دیتے تھے لیکن ان کا کام دیکھ ایک این جی او نے بھی اپنا کردار ادا کرنا ضروری سمجھا۔ یہ این جی او روزانہ 50 روپے فی بچہ اور چائے بھی دیتی ہے۔

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جو کام یہ کر رہے ہیں وہ کام حکومت کو اور سیاسی پارٹیوں کو کرنا چاہئیے، کم از کم تعلیم عام کرنے کیلئے تو سب اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر حکومت، اپوزیشن اور عوام کو ایک پیج پر ہونا چاہئیے۔

[poll id="998"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں