یہ نجم سیٹھی کون ہیں
بھارت کی عام سی بولنگ کے سامنے ہمارے بیٹسمین خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ گئے
مصطفٰی کمال اور انیس قائم خانی ''اچانک'' کراچی آئے، انھوں نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی اور سیاست میں طوفان برپا کر دیا۔ یہ پریس کانفرنس کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اس کے اثرات بھلے دور رس نکلیں مگر ہمیں آج بھی کرکٹ پر بات کرنی ہے۔
ویسے تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم تسلسل کے ساتھ برا کھیل رہی ہے لیکن ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز سے چند روز قبل ایشیا کپ میں اس کی جو درگت بنی ہے اس نے کرکٹ کے شائقین کو دکھی کر دیا ہے۔
بھارت کی عام سی بولنگ کے سامنے ہمارے بیٹسمین خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ گئے، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمزور ترین ٹیم نے بھی ایک موقع پر ہمیں آگے لگا لیا اور پھر ٹورنامنٹ کے اہم ترین میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے اپنی وزیر اعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں گھر واپسی کا پروانہ تھما دیا۔ اس ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم میدان میں اتری تو ہمیں زُعم تھا کہ ہماری بولنگ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
پورے ٹورنامنٹ میں اگر کوئی میچ وننگ بولر نظر آیا تو وہ محمد عامر تھا جس کی ٹیم میں واپسی کی شدید مخالفت کی گئی۔ محمد سمیع کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شاندار پرفارمنس پر ایشیا کپ کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ انھوں نے بھارت اور یو اے ای کے خلاف مناسب بولنگ کی اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے آخری اوور سے پہلے تک ٹھیک جا رہے تھے' پھر اچانک انھیں پتہ نہیں کیا ہوا کہ میچ کے اہم ترین اوور میں دو نو بالز کر دیں۔
اتنا تجربہ کار بولر اور ایک ہی اوور میںدو نو بالز، معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو شکر کریں محمد عامر سے نو بالز نہیں ہوئیں ورنہ طوفان کھڑا ہو جاتا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ محمد سمیع کی نو بالز محمد عامر جیسی نہیں تھیں البتہ محمد آصف کی نو بالز کے قریب ضرور تھیں۔ بیٹنگ میں بھی شرجیل خان اور خرم منظور کی کارکردگی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ شاہد آفریدی تو خیر مدت سے ایسے ہی کھیل رہے ہیں۔ انھیں اب شاید آفریدی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ یعنی چل گئے تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔۔ ان سے کوئی سوال بھی تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بے ہودگی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
قومی ٹیم کی ہار کے بعد مختلف تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ ناقص کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے 5رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اپنی رپورٹ مرتب کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے حوالے کر دے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہی جو پاکستان میں کمیٹیاں بنائے جانے کے بعد ہوا کرتا ہے۔
اس لیے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق کرکٹروں سمیت متعدد شخصیات کے تبصرے نظر سے گذرے ہیں لیکن بنگلہ دیش سے شکست کے بعد پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے ردعمل نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔ سیٹھی صاحب فرماتے ہیں ٹیم کی مسلسل ناکامیوں سے مایوسی ہوئی، پی سی بی حکام کو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر بڑی بے اعتنائی سے فرما رہے تھے کہ ان کی ذمے داری تو پاکستان سپر لیگ ہے اور وہ اسی میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کا پی سی بی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار شہر یار خان ہیں۔ اگرچہ انھوں نے چیئرمین پی سی بی کا نام نہیں لیا مگر ان کا اشارہ واضح تھا۔
نجم سیٹھی نے جو کہا ممکن ہے وہی ٹھیک ہو لیکن ان کے دعوے کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ وقار یونس قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پلیئنگ الیون میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کراتے ہیں۔ جس کا چاہتے ہیں بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں باہر بٹھا دیتے ہیں۔ وقار یونس کو مئی 2014ء میں قومی کرکٹ ٹیم کا کوچ بنایا گیا تو اس وقت پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی تھے۔
سیٹھی صاحب نے کوچ کا انتخاب کرنے کے لیے جو تین رکنی کمیٹی بنائی تھی وہ انتخاب عالم، ہارون رشید اور معین خان پر مشتمل تھی۔ ہارون رشید اس وقت چیف سلیکٹر ہیں، انتخاب عالم ٹیم کے مینجراور معین خان آیندہ کوچ کے امیدوار۔ نجم سیٹھی صاحب کے ہاتھوں قومی ٹیم کے کوچ بننے والے وقار یونس کو جب ٹیم سونپی گئی تو اس وقت عالمی رینکنگ میں ہماری ٹیم کی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ ٹیسٹ میں ہم تیسرے، ون ڈے میں چھٹے اور ٹی ٹوئنٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔
آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو ٹیسٹ ٹیموں میں ہماری رینکنگ چوتھی، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں آٹھویں ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب سے وقار یونس کوچ بنے ہیں عالمی درجہ بندی میں ہماری تنزلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ون ڈے میں دو درجے اور ٹی ٹوئنٹی میں 5درجے تنزلی ہوئی ہے۔ ٹیسٹ رینکنگ میں زیادہ فرق نہیں پڑا تو اس میں وقار یونس کی ''خوبی'' سے زیادہ مصباح الحق کا ''قصور'' ہے۔
ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی بد سے بدترین ہو رہی ہے تو اس میں یقیناً کپتان شاہد خان آفریدی کا بھی ہاتھ ہے۔ سلیکشن کمیٹی کی کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چیف سلیکٹر ہارون رشید چونکہ خود ''نوجوان'' ہیں اس لیے وہ موجودہ دورکی کرکٹ کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔ شہریار خان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین ہیں۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں انھیں چیئرمین بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ کسی ''اور'' کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ تمام کامیابیوں کا سہرا نجم سیٹھی صاحب کے سر پر اور ساری ناکامیاں شہر یار خان کے کھاتے میں۔ پی سی بی کا موجودہ سیٹ اپ بنانے کا شاید مقصد ہی یہی تھا۔ وزیر اعظم کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف ہیں اس لیے وہ نہیں کہہ سکتے کہ کرکٹ کی موجودہ صورتحال کے وہ ذمے دار نہیں ہیں۔
اداروں میں اپنے بندے فٹ کرنے کا رویہ ہر ادارے کو تباہ کر رہا ہے۔ میرٹ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ قومی کھیل ہاکی کا بیٹرہ غرق ہمارے سامنے ہوا ہے اس ملک میں کرکٹ بھی تباہ ہو جائے گی تو کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ کیا ہم سب کے لیے یہ کافی نہیں کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم امور مملکت سنبھالے ہوئے ہے۔
سیٹھی صاحب کے رد عمل پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پی سی بی میں یہ نجم سیٹھی کون ہیں اور وہاں کیا کر رہے ہیں؟۔
ویسے تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم تسلسل کے ساتھ برا کھیل رہی ہے لیکن ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز سے چند روز قبل ایشیا کپ میں اس کی جو درگت بنی ہے اس نے کرکٹ کے شائقین کو دکھی کر دیا ہے۔
بھارت کی عام سی بولنگ کے سامنے ہمارے بیٹسمین خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ گئے، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمزور ترین ٹیم نے بھی ایک موقع پر ہمیں آگے لگا لیا اور پھر ٹورنامنٹ کے اہم ترین میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے اپنی وزیر اعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں گھر واپسی کا پروانہ تھما دیا۔ اس ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم میدان میں اتری تو ہمیں زُعم تھا کہ ہماری بولنگ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
پورے ٹورنامنٹ میں اگر کوئی میچ وننگ بولر نظر آیا تو وہ محمد عامر تھا جس کی ٹیم میں واپسی کی شدید مخالفت کی گئی۔ محمد سمیع کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شاندار پرفارمنس پر ایشیا کپ کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ انھوں نے بھارت اور یو اے ای کے خلاف مناسب بولنگ کی اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے آخری اوور سے پہلے تک ٹھیک جا رہے تھے' پھر اچانک انھیں پتہ نہیں کیا ہوا کہ میچ کے اہم ترین اوور میں دو نو بالز کر دیں۔
اتنا تجربہ کار بولر اور ایک ہی اوور میںدو نو بالز، معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو شکر کریں محمد عامر سے نو بالز نہیں ہوئیں ورنہ طوفان کھڑا ہو جاتا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ محمد سمیع کی نو بالز محمد عامر جیسی نہیں تھیں البتہ محمد آصف کی نو بالز کے قریب ضرور تھیں۔ بیٹنگ میں بھی شرجیل خان اور خرم منظور کی کارکردگی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ شاہد آفریدی تو خیر مدت سے ایسے ہی کھیل رہے ہیں۔ انھیں اب شاید آفریدی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ یعنی چل گئے تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔۔ ان سے کوئی سوال بھی تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بے ہودگی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
قومی ٹیم کی ہار کے بعد مختلف تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ ناقص کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے 5رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اپنی رپورٹ مرتب کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے حوالے کر دے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہی جو پاکستان میں کمیٹیاں بنائے جانے کے بعد ہوا کرتا ہے۔
اس لیے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق کرکٹروں سمیت متعدد شخصیات کے تبصرے نظر سے گذرے ہیں لیکن بنگلہ دیش سے شکست کے بعد پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے ردعمل نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔ سیٹھی صاحب فرماتے ہیں ٹیم کی مسلسل ناکامیوں سے مایوسی ہوئی، پی سی بی حکام کو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر بڑی بے اعتنائی سے فرما رہے تھے کہ ان کی ذمے داری تو پاکستان سپر لیگ ہے اور وہ اسی میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کا پی سی بی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار شہر یار خان ہیں۔ اگرچہ انھوں نے چیئرمین پی سی بی کا نام نہیں لیا مگر ان کا اشارہ واضح تھا۔
نجم سیٹھی نے جو کہا ممکن ہے وہی ٹھیک ہو لیکن ان کے دعوے کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ وقار یونس قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پلیئنگ الیون میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کراتے ہیں۔ جس کا چاہتے ہیں بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں باہر بٹھا دیتے ہیں۔ وقار یونس کو مئی 2014ء میں قومی کرکٹ ٹیم کا کوچ بنایا گیا تو اس وقت پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی تھے۔
سیٹھی صاحب نے کوچ کا انتخاب کرنے کے لیے جو تین رکنی کمیٹی بنائی تھی وہ انتخاب عالم، ہارون رشید اور معین خان پر مشتمل تھی۔ ہارون رشید اس وقت چیف سلیکٹر ہیں، انتخاب عالم ٹیم کے مینجراور معین خان آیندہ کوچ کے امیدوار۔ نجم سیٹھی صاحب کے ہاتھوں قومی ٹیم کے کوچ بننے والے وقار یونس کو جب ٹیم سونپی گئی تو اس وقت عالمی رینکنگ میں ہماری ٹیم کی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ ٹیسٹ میں ہم تیسرے، ون ڈے میں چھٹے اور ٹی ٹوئنٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔
آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو ٹیسٹ ٹیموں میں ہماری رینکنگ چوتھی، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں آٹھویں ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب سے وقار یونس کوچ بنے ہیں عالمی درجہ بندی میں ہماری تنزلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ون ڈے میں دو درجے اور ٹی ٹوئنٹی میں 5درجے تنزلی ہوئی ہے۔ ٹیسٹ رینکنگ میں زیادہ فرق نہیں پڑا تو اس میں وقار یونس کی ''خوبی'' سے زیادہ مصباح الحق کا ''قصور'' ہے۔
ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی بد سے بدترین ہو رہی ہے تو اس میں یقیناً کپتان شاہد خان آفریدی کا بھی ہاتھ ہے۔ سلیکشن کمیٹی کی کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چیف سلیکٹر ہارون رشید چونکہ خود ''نوجوان'' ہیں اس لیے وہ موجودہ دورکی کرکٹ کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔ شہریار خان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین ہیں۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں انھیں چیئرمین بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ کسی ''اور'' کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ تمام کامیابیوں کا سہرا نجم سیٹھی صاحب کے سر پر اور ساری ناکامیاں شہر یار خان کے کھاتے میں۔ پی سی بی کا موجودہ سیٹ اپ بنانے کا شاید مقصد ہی یہی تھا۔ وزیر اعظم کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف ہیں اس لیے وہ نہیں کہہ سکتے کہ کرکٹ کی موجودہ صورتحال کے وہ ذمے دار نہیں ہیں۔
اداروں میں اپنے بندے فٹ کرنے کا رویہ ہر ادارے کو تباہ کر رہا ہے۔ میرٹ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ قومی کھیل ہاکی کا بیٹرہ غرق ہمارے سامنے ہوا ہے اس ملک میں کرکٹ بھی تباہ ہو جائے گی تو کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ کیا ہم سب کے لیے یہ کافی نہیں کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم امور مملکت سنبھالے ہوئے ہے۔
سیٹھی صاحب کے رد عمل پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پی سی بی میں یہ نجم سیٹھی کون ہیں اور وہاں کیا کر رہے ہیں؟۔