تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مغرب میں اب انسان کی زندگی مشینی ہوتی جارہی ہے، وہاں روزانہ آپس میں ملاقاتوں کا رواج ختم ہوتا جارہاہے
مغرب میں اب انسان کی زندگی مشینی ہوتی جارہی ہے، وہاں روزانہ آپس میں ملاقاتوں کا رواج ختم ہوتا جارہاہے، نہ وہاں برادری سسٹم ہے اور نہ ہی خاندان کے افراد کے ساتھ آئے دن کی ملاقاتیں ہیں جب کہ مشرق میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان کے معاشرے میں آج بھی وہی لوگوں کی ریل پیل، ملنا جلنا ہے اور اب بھی ہمارے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اکثر وبیشتر ملنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہر چھٹی کے دن، ہر شادی بیاہ کے موقعے پر اور ہرتہوارکو افرادِ خاندان یا برادری کے ہجوم ہی میں منانے کے عادی ہیں۔ آپس میں ہر دکھ سکھ کے موقعے پر ملنا ملانا آج بھی ہماری قوم کا طرۂ امتیاز ہے اور ہر تقریب آج بھی ہماری سماجی ضرورتوں کی عکاس ہوتی ہے اور تہذیبی روایتوں کے فروغ میں اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں نیوجرسی امریکا سے کراچی اپنے چھوٹے بھائی صابرعلی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے گیا تھا، ہمارے معاشرے اور تہذیب میں بڑا بھائی باپ ہی جیسا درجہ رکھتا ہے جن دنوں میری فلائٹ تھی، اسی ہفتے امریکا کی مختلف ریاستیں برف باری کے شدید طوفان سے دوچار تھیں اور بیشتر ریاستوں کا نظام اس طوفان سے درہم برہم ہوگیا تھا۔ تقریبا آٹھ ہزار ہوائی جہازوں کی پروازیں کینسل ہوچکی تھیں اور جس دن میری فلائٹ تھی اس سے دو تین دن پہلے ایئرپورٹ جانے والے راستے برف باری کے طوفان سے شدید متاثر تھے۔ ایئرپورٹ جانے کے لیے لنکن ٹنل اور جارج واشنگٹن برج بند کردیاگیا تھا مگر وہ جوکہتے ہیں نا کہ کہیں کا بھی سفر اورکسی جگہ کا بھی رزق انسان کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔
بس اسی امید اور آس کے ساتھ میں کراچی جانے کے سفر کے لیے تیاری کرکے بیٹھا ہوا تھا اور پھر ہوا بھی کچھ اسی طرح کہ تین دن کے خراب موسم کے بعد چوتھے دن سورج اپنی آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوگیا اور برف کا طوفان کمزور پڑگیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایئرپورٹ کے عملے نے جنات کی طرح کام کرکے چند گھنٹوں کے اندر ہی اندر نیو یارک کے جے ایف کے ایئرپورٹ کو پروازوں کے لیے بحال کردیا تھا اور میری دوپہر کی فلائٹ رات آٹھ بجے اڑان بھرکر دوسرے دن براستہ دبئی کراچی پہنچ گئی تھی اور اس طرح میرا سفر وسیلہ ظفر بن گیا تھا اور میں نے اپنی بھتیجی کی شادی میں شرکت کرکے سارے خاندان کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے ایک خوشی دی تھی۔
شادی کی مذکورہ تقریب میں خاندان کے افراد کے علاوہ، دوستوں، احباب کی ایک کثیر تعداد تھی جنھیں شہر کراچی کی چیدہ چیدہ سیاسی، سماجی اور ادبی شخصیتوں کے علاوہ صحافی برادری کی بھی کثیر تعداد موجود تھی کیوں کہ میرا اور میرے چھوٹے بھائی صابرعلی کا صحافت سے آج بھی گہرا تعلق قائم ہے۔ تقریب میں ایک طرف کراچی کے نامزد میئر اور ڈپٹی میئر وسیم اختر اور ارشد وہرا سیاسی پس منظر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے تو دوسری طرف سابقہ سینیٹر خوش بخت شجاعت اپنے شوہر شجاعت علی بیگ، دوست محمد فیضی اپنی بیگم خالدہ کے ساتھ موجود تھے۔
مشہور دانشور ماہر تعلیم پروفیسر انواراحمد زئی، سینئر صحافی محمود شام، اردو ڈکشنری بورڈ کے چیئرمین مالک غوری، مظہرخان، مشہور ٹی وی اینکر اورکالم نگار آغا مسعود حسن، مرزا اختیار بیگ، رضوان صدیقی اور بزرگ سیاست دان بوستان علی سے بھی ملاقات ہوئی، انھیں میں اندر ہال میں لے کر آیا۔ بوستان علی ہوتی ہمارے والد صاحب کے پرانے دوستوں میں شامل رہے ہیں۔
اس دوران میٹروپولیٹن کمشنر کراچی سمیع صدیقی بھی آگئے اور پھر کراچی کی بہت سی سیاسی شخصیتیں گاہے گاہے تقریب کے ہال میں آتی رہیں ،کراچی کے دیرینہ صحافی دوستوں سے بھی کافی دنوں کے بعد ملاقات رہی ان کے ساتھ علی حسن ساجد، فرید پبلشر کے حسن امام صدیقی اور اطہر اقبال بھی بڑی گرم جوشی سے ملے اور پھر اس تقریب شادی میں سیاسی، ثقافتی، صحافتی اور ادبی لوگوں نے مل کر اس تقریب کے حسن کو اور دوبالا کردیا تھا کچھ ہی دیر کے بعد گورنر کراچی ڈاکٹر عشرت العباد کے آنے کے بعد تقریب میں مزید گرمی آگئی کچھ دیر گورنر سندھ لوگوں کے درمیان آنے کے بعد دلہا اور دلہن کو دعائیں دے کر رخصت ہوگئے تو میں کچھ دیر کے لیے ماضی میں چلا گیا۔
جب میری پہلی کتاب ''کسک'' کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل کراچی کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی تھی اور ڈاکٹر عشرت العباد خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی اور اس تقریب کی صدارت نامور نقاد اور ادیب ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کی تھی۔ ڈاکٹر عشرت العباد دس بارہ سال پہلے بھی سندھ کے گورنر تھے اور اب جب تیرہ سال بعد میری یہ ان سے دوسری ملاقات ہوئی تھی، اس وقت بھی وہ گورنر سندھ کی حیثیت سے موجود تھے اور یہ ایک ریکارڈ مدت ہے جو پہلے کسی بھی صوبے کے گورنر کو میسر نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد آج بھی ایک مقبول گورنر کی حیثیت سے وفاقی حکومت کی گڈ بک میں ہیں۔
حکیم سعید مرحوم کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد دوسرے گورنر ہیں جو کراچی شہرکی رونقوں کے فروغ میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں یہ شعروادب کی محفلوں کی بھی جان ہوتے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی کو فعال رکھنے اور اس کے فنڈز کو بحال رکھنے میں بھی گورنر سندھ کی کاوشوں کو بھی بڑا دخل رہا ہے، شعروادب کے ساتھ یہ موسیقی کے بھی دیوانے ہیں اور اکثر اس کا مظاہرہ وہ پہلی بار دبئی کے ایک موسیقی کے فنکشن میں الیکٹرک گٹار بجا کرکرچکے ہیں اور پھر دوسری بارگورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے کراچی فیسٹیول میں گزشتہ دنوں نہ صرف اسٹیج پر آکرگٹار بجایا اورگٹار پر ہندوستانی فلم عاشقی ٹو کا ایک رومانی گیت بھی سامعین کی نذر کرتے ہوئے ایک قومی گیت بھی اپنی آواز میں سنایا جس کے بول تھے۔
یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں پاسباں اس کے
اپنی سریلی آواز میں یہ گیت سناکر گورنر سندھ نے سارے سامعین کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا کراچی فیسٹیول دراصل کراچی کو پھر سے امن کا گہوارہ بنانے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ گورنر سندھ کی شخصیت کا یہ ایک نیا پہلو اجاگر ہوا تھا بات اگر نکلی ہے تو یہ پھر دور تلک جائے گی۔
امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر رونالڈ ریگن بھی گورنر بننے سے پہلے ایک کامیاب فلم ایکٹر تھے اور رونالڈ ریگن نے 50 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا اور بیشتر فلمیں وارنر برادز کے بینر تلے بنائی گئی تھیں اور ان فلموں سے شہرت پاکر رونالڈ ریگن کو عوام کی محبت کے ساتھ ساتھ کیلی فورنیا کی گورنری بھی مل گئی تھی پھر یہ سپراسٹار 1981 میں امریکا کا چالیسواں صدر بھی منتخب ہوا تھا۔ امریکا کے چالیسویں صدر کے تذکرے کے بعد پاکستان کے ایک جنرل پرویز مشرف جو صدر زرداری سے پہلے صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تھے، ایک کمانڈو کے ساتھ موسیقی کے بھی بڑے دلدادہ رہے ہیں۔
سابق صدر جنرل مشرف باقاعدہ کلاسیکی موسیقی بھی سیکھتے رہے ہیں اور اکثر اپنی نجی محفلوں میں نہ صرف نامور فنکاروں کی محفلیں سجاتے رہے ہیں بلکہ خود بھی ان کے ساتھ غزلیں گاکر اپنی آواز کا بھی جادو جگاتے رہے ہیں۔پرویز مشرف کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنی نجی محفلوں میں طبلہ نوازی کا شوق بھی پورا کرتے رہے ہیں میری جنرل اور سابق صدر پرویز مشرف سے نیو یارک میں پہلی بار ایک ملاقات ان کی سیاسی جماعت کے ایک فنکشن میں ہوئی تھی۔
پرویز مشرف جہاں یہ ایک اچھے مقرر ہیں وہاں یہ ایک نفیس انسان ہونے کے ساتھ ایک فنکار بھی ہیں در اصل بات نکلی تھی گورنری سے لے کر گٹار تک اور پھر درمیان میں امریکا کے سپر اسٹار رونالڈ ریگن کے ساتھ پرویز مشرف کی فنکارانہ شخصیت بھی درمیان میں آگئی اور پھر جیسے ہی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان شادی کی تقریب سے رخصت ہوئے تو میں بھی اسی شادی ہال میں واپس آگیا جہاں میں اپنے دیرینہ دوستوں میں گھرا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شادی کی تقریبات صرف شادی کی تقریبات ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان تقریبات میں ہماری سماجی اور تہذیبی قدریں بھی اجاگر ہوتی ہیں جو ہمیں آپس میں جوڑے رکھتی ہیں اور یہی مشرق ہے جو ان روایتوں کا آج بھی امین ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں نیوجرسی امریکا سے کراچی اپنے چھوٹے بھائی صابرعلی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے گیا تھا، ہمارے معاشرے اور تہذیب میں بڑا بھائی باپ ہی جیسا درجہ رکھتا ہے جن دنوں میری فلائٹ تھی، اسی ہفتے امریکا کی مختلف ریاستیں برف باری کے شدید طوفان سے دوچار تھیں اور بیشتر ریاستوں کا نظام اس طوفان سے درہم برہم ہوگیا تھا۔ تقریبا آٹھ ہزار ہوائی جہازوں کی پروازیں کینسل ہوچکی تھیں اور جس دن میری فلائٹ تھی اس سے دو تین دن پہلے ایئرپورٹ جانے والے راستے برف باری کے طوفان سے شدید متاثر تھے۔ ایئرپورٹ جانے کے لیے لنکن ٹنل اور جارج واشنگٹن برج بند کردیاگیا تھا مگر وہ جوکہتے ہیں نا کہ کہیں کا بھی سفر اورکسی جگہ کا بھی رزق انسان کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔
بس اسی امید اور آس کے ساتھ میں کراچی جانے کے سفر کے لیے تیاری کرکے بیٹھا ہوا تھا اور پھر ہوا بھی کچھ اسی طرح کہ تین دن کے خراب موسم کے بعد چوتھے دن سورج اپنی آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوگیا اور برف کا طوفان کمزور پڑگیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایئرپورٹ کے عملے نے جنات کی طرح کام کرکے چند گھنٹوں کے اندر ہی اندر نیو یارک کے جے ایف کے ایئرپورٹ کو پروازوں کے لیے بحال کردیا تھا اور میری دوپہر کی فلائٹ رات آٹھ بجے اڑان بھرکر دوسرے دن براستہ دبئی کراچی پہنچ گئی تھی اور اس طرح میرا سفر وسیلہ ظفر بن گیا تھا اور میں نے اپنی بھتیجی کی شادی میں شرکت کرکے سارے خاندان کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے ایک خوشی دی تھی۔
شادی کی مذکورہ تقریب میں خاندان کے افراد کے علاوہ، دوستوں، احباب کی ایک کثیر تعداد تھی جنھیں شہر کراچی کی چیدہ چیدہ سیاسی، سماجی اور ادبی شخصیتوں کے علاوہ صحافی برادری کی بھی کثیر تعداد موجود تھی کیوں کہ میرا اور میرے چھوٹے بھائی صابرعلی کا صحافت سے آج بھی گہرا تعلق قائم ہے۔ تقریب میں ایک طرف کراچی کے نامزد میئر اور ڈپٹی میئر وسیم اختر اور ارشد وہرا سیاسی پس منظر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے تو دوسری طرف سابقہ سینیٹر خوش بخت شجاعت اپنے شوہر شجاعت علی بیگ، دوست محمد فیضی اپنی بیگم خالدہ کے ساتھ موجود تھے۔
مشہور دانشور ماہر تعلیم پروفیسر انواراحمد زئی، سینئر صحافی محمود شام، اردو ڈکشنری بورڈ کے چیئرمین مالک غوری، مظہرخان، مشہور ٹی وی اینکر اورکالم نگار آغا مسعود حسن، مرزا اختیار بیگ، رضوان صدیقی اور بزرگ سیاست دان بوستان علی سے بھی ملاقات ہوئی، انھیں میں اندر ہال میں لے کر آیا۔ بوستان علی ہوتی ہمارے والد صاحب کے پرانے دوستوں میں شامل رہے ہیں۔
اس دوران میٹروپولیٹن کمشنر کراچی سمیع صدیقی بھی آگئے اور پھر کراچی کی بہت سی سیاسی شخصیتیں گاہے گاہے تقریب کے ہال میں آتی رہیں ،کراچی کے دیرینہ صحافی دوستوں سے بھی کافی دنوں کے بعد ملاقات رہی ان کے ساتھ علی حسن ساجد، فرید پبلشر کے حسن امام صدیقی اور اطہر اقبال بھی بڑی گرم جوشی سے ملے اور پھر اس تقریب شادی میں سیاسی، ثقافتی، صحافتی اور ادبی لوگوں نے مل کر اس تقریب کے حسن کو اور دوبالا کردیا تھا کچھ ہی دیر کے بعد گورنر کراچی ڈاکٹر عشرت العباد کے آنے کے بعد تقریب میں مزید گرمی آگئی کچھ دیر گورنر سندھ لوگوں کے درمیان آنے کے بعد دلہا اور دلہن کو دعائیں دے کر رخصت ہوگئے تو میں کچھ دیر کے لیے ماضی میں چلا گیا۔
جب میری پہلی کتاب ''کسک'' کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل کراچی کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی تھی اور ڈاکٹر عشرت العباد خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی اور اس تقریب کی صدارت نامور نقاد اور ادیب ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کی تھی۔ ڈاکٹر عشرت العباد دس بارہ سال پہلے بھی سندھ کے گورنر تھے اور اب جب تیرہ سال بعد میری یہ ان سے دوسری ملاقات ہوئی تھی، اس وقت بھی وہ گورنر سندھ کی حیثیت سے موجود تھے اور یہ ایک ریکارڈ مدت ہے جو پہلے کسی بھی صوبے کے گورنر کو میسر نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد آج بھی ایک مقبول گورنر کی حیثیت سے وفاقی حکومت کی گڈ بک میں ہیں۔
حکیم سعید مرحوم کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد دوسرے گورنر ہیں جو کراچی شہرکی رونقوں کے فروغ میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں یہ شعروادب کی محفلوں کی بھی جان ہوتے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی کو فعال رکھنے اور اس کے فنڈز کو بحال رکھنے میں بھی گورنر سندھ کی کاوشوں کو بھی بڑا دخل رہا ہے، شعروادب کے ساتھ یہ موسیقی کے بھی دیوانے ہیں اور اکثر اس کا مظاہرہ وہ پہلی بار دبئی کے ایک موسیقی کے فنکشن میں الیکٹرک گٹار بجا کرکرچکے ہیں اور پھر دوسری بارگورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے کراچی فیسٹیول میں گزشتہ دنوں نہ صرف اسٹیج پر آکرگٹار بجایا اورگٹار پر ہندوستانی فلم عاشقی ٹو کا ایک رومانی گیت بھی سامعین کی نذر کرتے ہوئے ایک قومی گیت بھی اپنی آواز میں سنایا جس کے بول تھے۔
یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں پاسباں اس کے
اپنی سریلی آواز میں یہ گیت سناکر گورنر سندھ نے سارے سامعین کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا کراچی فیسٹیول دراصل کراچی کو پھر سے امن کا گہوارہ بنانے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ گورنر سندھ کی شخصیت کا یہ ایک نیا پہلو اجاگر ہوا تھا بات اگر نکلی ہے تو یہ پھر دور تلک جائے گی۔
امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر رونالڈ ریگن بھی گورنر بننے سے پہلے ایک کامیاب فلم ایکٹر تھے اور رونالڈ ریگن نے 50 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا اور بیشتر فلمیں وارنر برادز کے بینر تلے بنائی گئی تھیں اور ان فلموں سے شہرت پاکر رونالڈ ریگن کو عوام کی محبت کے ساتھ ساتھ کیلی فورنیا کی گورنری بھی مل گئی تھی پھر یہ سپراسٹار 1981 میں امریکا کا چالیسواں صدر بھی منتخب ہوا تھا۔ امریکا کے چالیسویں صدر کے تذکرے کے بعد پاکستان کے ایک جنرل پرویز مشرف جو صدر زرداری سے پہلے صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تھے، ایک کمانڈو کے ساتھ موسیقی کے بھی بڑے دلدادہ رہے ہیں۔
سابق صدر جنرل مشرف باقاعدہ کلاسیکی موسیقی بھی سیکھتے رہے ہیں اور اکثر اپنی نجی محفلوں میں نہ صرف نامور فنکاروں کی محفلیں سجاتے رہے ہیں بلکہ خود بھی ان کے ساتھ غزلیں گاکر اپنی آواز کا بھی جادو جگاتے رہے ہیں۔پرویز مشرف کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنی نجی محفلوں میں طبلہ نوازی کا شوق بھی پورا کرتے رہے ہیں میری جنرل اور سابق صدر پرویز مشرف سے نیو یارک میں پہلی بار ایک ملاقات ان کی سیاسی جماعت کے ایک فنکشن میں ہوئی تھی۔
پرویز مشرف جہاں یہ ایک اچھے مقرر ہیں وہاں یہ ایک نفیس انسان ہونے کے ساتھ ایک فنکار بھی ہیں در اصل بات نکلی تھی گورنری سے لے کر گٹار تک اور پھر درمیان میں امریکا کے سپر اسٹار رونالڈ ریگن کے ساتھ پرویز مشرف کی فنکارانہ شخصیت بھی درمیان میں آگئی اور پھر جیسے ہی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان شادی کی تقریب سے رخصت ہوئے تو میں بھی اسی شادی ہال میں واپس آگیا جہاں میں اپنے دیرینہ دوستوں میں گھرا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شادی کی تقریبات صرف شادی کی تقریبات ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان تقریبات میں ہماری سماجی اور تہذیبی قدریں بھی اجاگر ہوتی ہیں جو ہمیں آپس میں جوڑے رکھتی ہیں اور یہی مشرق ہے جو ان روایتوں کا آج بھی امین ہے۔