پاکستان اور استبدادی قوتیں آخری حصہ

امریکا بہادرکے توسط سے عالمی اداروں کو اپنی مرضی پر چلائے جانے کا نیا تصور رائج کردیاگیا تھا۔



اس لیے ان دونوں ریاستوں کے قیام کے طریقہ کار اورانتظام ریاست کے نظریات کو جانے بغیر ہم موجودہ استبدادی آہنی پنجوں میں جکڑی عالم انسانیت کے درد کو حقیقی طور پر نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی (بشمول پاکستان ) مملکتوں کو ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کرکے ان کے فرائض کی ادائیگی کو بہ احسن انداز میں ادا کرنے کا طریقہ بیان کرسکتے ہیں ۔

اپنے اسلاف کی تعریفیں بیان کرتے رہنے سے اس استبدادی نظام اور اس کے لازمی نتائج کے طور پر ریاستوں میں انتشارکی صورت ظاہر ہونے والے بھیانک اثرات کو نہ تو زائل کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا سدباب کرنے کی کوئی عملی شکل بیان کرسکتے ہیں، جب کہ میڈیاکی طاقت سے وہ اقوام عالم کے ہر ایک کونے میں وسیع النظری اورآزادی تحریروتقریر کے نام پر ریاستوں میں مادی طور پر رائج انتظام معاشرت میںان ہی کے پیدا کردہ بگاڑکے جوازکی آڑمیں ریاستوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہنے والوں کو آگے لاکر انتظام ریاست اور نظام معاشرت کے گہرے آفاقی چشموں سے ناواقف،ان ہی کے حاشیہ بردار طبقے سے متعلق چند افرادکے دم قدم پر ریاستوں پر اپنے استبدادی پنجوں کی گرفت مضبوط کرتے ،انسانوں کو مفتوح بنانے میں کامیاب رہتے آئے ہیںاور معاشروں میں ان کے متعارف کردہ انتشارکی تمام مشترکہ تاریخی اشکال نے ریاستوں کے قیام کے بنیادی مقاصد کو بے اثرکرکے رکھ دیا ہے۔

جس کا عملی مظاہرہ بہت پہلے دوسری جنگ عظیم میں ان کے استبدادی نظام میں ہراول دستے کا کام کرنے والے امریکا بہادر نے اس گروہ سے متعلق افرادکے دباؤ میں آکر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ان کے فرعونی کردارکے سامنے اپنے سربسجود ہوجانے کے نہ صرف اقرارکی صورت میں کرلیا تھا بلکہ امریکا بہادرکے توسط سے عالمی اداروں کو اپنی مرضی پر چلائے جانے کا نیا تصور رائج کردیاگیا تھا۔

جس کے اگلے اقدام اور تسلسل کے اظہارمیں امریکا بہادرسمیت عالمی ادارے بھی انھی کی اطاعت میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے کشمیرکا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے، جب کہ عالم خوف میں مبتلا اقوام عالم ان کے زیر تسلط عالمی اداروں کو اپنا مسیحا ومددگار تصور کرنے لگے ہیں۔ چاہے وہ ریاستی اداروں کی بہتری کے نام پر ملنے والی امداد وقرضے ہوں یا ریاستوں میں رائج قوانین کی عالمی اداروں کی مرتب کردہ سفارشات کی روشنی میں جدید تشریح کے نام پرہونے والے بحث ومباحثے ہوں ۔ریاستیں ان ہی کی ''امداد'' پر انحصارکرنے لگی ہیں ۔

استبدادکی بافضیلت جاہلیت:
پاکستان نے ریاست کے بنیادی نکتے تحفظ حیات کے بیرونی جارحانہ خطرے کے پیش نظر 28مئی 1998ء کو اس وقت خودکے ناقابل تسخیر قوت ہونے کا اعلان کردیا، جب فرعون وقت اپنے مکمل ''جاہ وجلال ''کے ساتھ اس'' اعلان'' کو روکنا چاہتا تھا تاکہ ان کی جدید فرعونیت کو دعوت مبارزت دیے جانے کے امکانات کاخاتمہ کیا جانا ممکن بنتا۔جب کہ تحقیقات نظریہ پاکستان تاریخ کی تمام استبدادی قوتوں سے نبرد آزما ہونے اوراس پر فتح حاصل کرنے کے تمام اسباق ازبر رکھتی ہیں ۔

چونکہ اسبتداد اس حد تک باخبر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاتمے سے مکمل طور پرآگاہ رہ کر صدیوں کے تسلسل میں صرف اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ تہذیب فراعین کا خاتمہ استبداد کے اندھے پن اوراس کی باعلم و بافضیلت جاہلیت کا بہترین تحقیقی وعملی مثال ہے کہ جس میںاستبداد پر مبنی تہذیب فراعین کے تحفظ کاروں کو معلوم ہی نہ ہو سکاکہ ان کا خاتمہ کرنے والے کی افزائش واستحکام اور ان کے استبدادی نظام کا خاتمہ کس انداز میں ہو گا ؟ اگر فرعون منفناح کو اپنے خاتمے کے طے شدہ تفصیلات کا یقینی علم ہوتا تو وہ تعاقب بنی اسرائیل میں اپنی فوج سمیت پانی میں ہی نہ اترتا۔

لاحق خوف کا اظہار:
استبدادی علم کا ہی یہ تسلسل ہے کہ 1967 کی اسرائیل عرب جنگ کے بعد پیرس کی ساربون یونیورسٹی میں ممتاز یہودیوں کے اجلاس میں اسرائیل (فرعونی استبدادکی جدیدشکل) کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین کوکہنا پڑا تھا کہ ''پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی جواب ہے۔پاکستان کا ذہنی وفکری سرمایہ، جنگی وعسکری قوت وکیفیت آگے چل کرکسی بھی وقت ہمارے لیے باعث مصیبت بن سکتی ہے۔''دوسری جانب امریکی کونسل فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام چھپنے والے کتاب ''Middle East:Politics And Military Dimensions''میں کہا گیا ہے کہ ''پاکستان کی مسلح افواج ، نظریہ پاکستان ،اس کے اتحادوسالمیت کی ضامن بنی ہوئی ہے ۔''

میرِکارواں کی ذمے داریاںکس پر؟
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ دنیا میں انتشار و بے چینی پھیلا کر ریاستوں کے بنیادی مقاصدکا خاتمہ کرنے میں مصروف قوتوں کو یہ بتا گیا ہے کہ ''نظم وضبط ہی انسانیت کا میرکارواں ہے جس کی زندہ وتابندہ عملی شکل افواج پاکستان ہیں کہ جس کا ہر ایک جوان وارث حضرت موسیٰ ؑ وخیبر شکن ہے۔پاکستانی قیادت کے لیے ریاستی بیانیوں کے داخلی طور پر بنیادی نکات کی باعزت فراہمی کے لیے انتظام معاشرت کو اپنی نظریاتی اساس کے ساتھ درست خطوط پراستوارکرنے کا وقت ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت اقوام عالم میں بے گناہوں کے شب و روز ہونے والے قتل عام اور انتشار کی تمام اشکال کے مکمل خاتمے کی جانب گامزن ہوا جانا اور اقوام عالم میں انسانیت کے ''روح ِکارواں ''کو ظاہر وثابت کیا جاناممکن بن سکے ، لیکن کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ یہ ذمے داری کس پرعائد ہوتی ہے ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں