جنگ بندی نے موقع دیدیا شام میں 4 سال بعد بشار الا سد کیخلاف مظاہرے دوبارہ شروع
اسد مخالف ہزاروں مظاہرین نماز جمعہ کے بعد سڑکوں پر نکل آئے، ’’انقلاب جاری رہے گا‘‘ کے نعرے، احتجاج پورے ملک میں ہوا
QUETTA:
شامی شہریوں نے جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔
4 سال کے دوران پہلی دفعہ گزشتہ روز پورے ملک میں بشارالاسد کے مخالف شہری سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے شامی صدر سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا نعرہ تھا کہ ''انقلاب جاری رہے گا'' ۔ حلب، دمشق، درعا اور حمص کے ساتھ ساتھ مظاہرے پورے ملک میں ہوئے۔ نماز جمعہ کے بعد مظاہرین بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے۔
اسد حکومت کے خلاف آخری دفعہ احتجاج جون 2012 میں ہوا تھا۔ شام کے ایک بڑے باغی گروپ نے کہا ہے کہ اب تک شام میں جنگ بندی پر عمل نہیں ہو رہا کیونکہ 'ملیشیا اور ریاست ان کے لوگوں کو مار رہی ہے'۔ جیش الاسلام کی طرف سے گزشتہ شب جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کی غوطہ، حمص اور حلب وغیرہ میں اسد حکومت کے فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا جنگ بندی کے باوجود ہزاروں شامی شہری ترک سرحد کے قریب اپنے گھروں میں واپسی کی خواہش لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ڈنمارک نے بھی عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔
ڈنمارک شام میں داعش کے خلاف لڑائی کیلیے ایف 16 جنگی طیارے بھیجے گا اور عراق میں 400 فوجی۔ دوسری طرف ترک عدالت نے 3 سالہ آلان کردی اور4 دیگر افراد کی ہلاکت پر 2 شامیوں کو 4 سال جیل کی سزا سنائی ہے۔
موفاوقا العبش اور عاصم الفرہاد پر انسانی اسمگلنگ کا جرم ثابت ہوا ہے لیکن ان پر یہ الزام ثابت نہیں ہوا کہ آلان اور چار دیگر افراد کی موت 'جان بوجھ کر غفلت برتنے' سے ہوئی۔ ان دونوں افراد کو 35، 35 سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم دونوں نے فروری میں درخواست دائر کی تھی کہ وہ مجرم نہیں ہیں۔
بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اشیائے ضرورت اور دیگر امدادی اشیاء شامی متاثرین تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہیں۔ گناہوں کی معافی کے عوض داعش میں نئے اراکین کی بھرتی جاری ہے۔ عراقی حکام نے سامرہ کے مغرب میں 150سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
شامی شہریوں نے جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔
4 سال کے دوران پہلی دفعہ گزشتہ روز پورے ملک میں بشارالاسد کے مخالف شہری سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے شامی صدر سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا نعرہ تھا کہ ''انقلاب جاری رہے گا'' ۔ حلب، دمشق، درعا اور حمص کے ساتھ ساتھ مظاہرے پورے ملک میں ہوئے۔ نماز جمعہ کے بعد مظاہرین بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے۔
اسد حکومت کے خلاف آخری دفعہ احتجاج جون 2012 میں ہوا تھا۔ شام کے ایک بڑے باغی گروپ نے کہا ہے کہ اب تک شام میں جنگ بندی پر عمل نہیں ہو رہا کیونکہ 'ملیشیا اور ریاست ان کے لوگوں کو مار رہی ہے'۔ جیش الاسلام کی طرف سے گزشتہ شب جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کی غوطہ، حمص اور حلب وغیرہ میں اسد حکومت کے فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا جنگ بندی کے باوجود ہزاروں شامی شہری ترک سرحد کے قریب اپنے گھروں میں واپسی کی خواہش لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ڈنمارک نے بھی عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔
ڈنمارک شام میں داعش کے خلاف لڑائی کیلیے ایف 16 جنگی طیارے بھیجے گا اور عراق میں 400 فوجی۔ دوسری طرف ترک عدالت نے 3 سالہ آلان کردی اور4 دیگر افراد کی ہلاکت پر 2 شامیوں کو 4 سال جیل کی سزا سنائی ہے۔
موفاوقا العبش اور عاصم الفرہاد پر انسانی اسمگلنگ کا جرم ثابت ہوا ہے لیکن ان پر یہ الزام ثابت نہیں ہوا کہ آلان اور چار دیگر افراد کی موت 'جان بوجھ کر غفلت برتنے' سے ہوئی۔ ان دونوں افراد کو 35، 35 سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم دونوں نے فروری میں درخواست دائر کی تھی کہ وہ مجرم نہیں ہیں۔
بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اشیائے ضرورت اور دیگر امدادی اشیاء شامی متاثرین تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہیں۔ گناہوں کی معافی کے عوض داعش میں نئے اراکین کی بھرتی جاری ہے۔ عراقی حکام نے سامرہ کے مغرب میں 150سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔