حکومت کا سیکیورٹی کلیئرنس ملنے تک قومی ٹیم کو بھارت نہ بھیجنے کا فیصلہ

دھرم شالا میں پاک بھارت میچ سے متعلق انڈیا سے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں، وفاقی وزیر داخلہ


ویب ڈیسک March 05, 2016
دھرم شالا میں پاک بھارت میچ سے متعلق انڈیا سے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں، وفاقی وزیر داخلہ، فوٹو؛ فائل

وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت بھارت کی سیکیورٹی سے مطمئن نہیں ہوگی تب تک قومی ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔



اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ورلڈٹی ٹوئنٹی میں شرکت سےمتعلق معاملے پر وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جس پر انہیں سیکیورٹی معاملات پر بریفنگ دی، اس معاملے پر شہریار خان سے بھی کئی بات ملاقات ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کھیل سے محبت کرنے والا ملک ہے، ہمارے یہاں کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ ہے لیکن اس محبت اور دیوانگی کو ٹیم کبھی ٹیم ہینڈل کرلیتی ہے اور کئی مرتبہ نہیں بھی کرپاتی، وزیراعظم نے قومی ٹیم کی شکست پر رپورٹ طلب کرنے کا کہا ہے جس پبلک کیا جائے گا۔



چوہدری نثار نے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے بھارت سے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں، آج بھی وہاں عسکری گروپ نے قومی ٹیم کے وہاں کھیلنے میں رکاوٹ ڈالنے کا کہا اور امن وامان خراب کرنے کی دھمکی دی جس پر پاکستانی حکومت اور خود میری ذمہ داری ہے کہ بھارت میں ہمارے کھلاڑیوں کو مکمل سیکیورٹی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی بھارت میں ہمارے بڑے بڑے ناموں کی تضحیک ہوئی جس میں خود شہریار کان بھی شامل ہیں، یہ تمام چیزیں بہت سنگین ہیں، شہریار خان سے بھی کہا ہے کہ یہ مسئلہ آئی سی سی کے سامنے پیش کریں جس پر انہوں نے بتایا کہ آئی سی سی کی سیکیورٹی ٹیم بھارت میں موجود ہے۔



وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں قومی ٹیم کی سیکیورٹی سے متعلق جائزہ لینے کے لیے سینئر افسران پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی بنا دی ہے اور کوشش کررہے ہیں کہ وہ ٹیم بھارتی حکومت کی منظوری کے بعد روانہ ہو، اگر ٹیم نے ابتدئی رپورٹ مثبت دی تو ٹیم پروگرام کے مطابق روانہ ہوگی ورنہ جب تک واضح پیغام نہیں آجاتا کہ بھارت ہمارے کھلاڑیوں کے لیے محفوظ ہے تب تک ٹیم کی روانگی کچھ روز کے لیے ملتوی کرنا پڑی تو کریں گے اور جب تک حکومت مطمئن نہیں ہوگی تب تک ٹیم کو گرین سگنل نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈکپ میں پاکستان کی شمولیت ضروری ہے کیونکہ ہم ایک اہم ملک ہیں اور اس ایونٹ کے ورلڈ چیمپئن بھی رہ چکے ہیں اس لیے آئی سی سی اور بھارت کی بھی ذمہ داری ہے کہ پاکستانی ٹیم کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے جب کہ یہ کہنا آسان ہے کیونکہ صرف ہوٹل میں قیام اور ایک سے دوسری جگہ جانا سیکیورٹی نہیں ہے، خاص طور پر کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں سیکیورٹی کی ضرورت ہے جہاں ہزاروں لوگ ہیں اور وہاں یہ ضروری ہے کہ ہمارے لڑکوں کو کرکٹ کھیلنے دیا جائے اور سیاست کا نشانہ نہ بنایا جائے۔







وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ سرفراز مرچنٹ کے بیان اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس سے بہت حیران ہوں، کئی جگہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس پر حکومت کی خاموشی کو لے کر سوال اٹھائے گئے جب کہ سینئر لوگوں نے اس پر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ ہر سیاسی بیان پر اپنا نکتہ نظر دے، مصطفیٰ کمال ایم کیوایم کے اہم رہنما اور سابق سٹی ناظم تھے وہ اپنی مرضی سے دبئی میں تھے اور اپنی مرضی سے وطن واپس آئے، انہوں نے جو باتیں کیں ان میں کوئی نئی بات نہیں جب کہ ان پر جوڈیشل کمیشن بھی نہیں بنایا جاسکتا۔



چوہدری نثار نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس میں بطور وزیرداخلہ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی دستاویز کا ذکر کیا جو اس میں نہیں تھا، ان کی تمام تر پریس کانفرنس لفاظی پر مبنی تھی، کیا ہر روز اگر کوئی پریس کانفرنس کرکے الزام لگائے تو اس پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، اس طرح سے جوڈیشل کمیشن نہیں بنائے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ جن مسائل پر پچھلی حکومتیں سوتی رہیں اس حکومت نے ایکشن لیا، ہماری سوچ میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی توڑ سکتا ہے۔





عمران فاروق قتل کیس سے متعلق وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کیس میں بہت ساری چیزیں حکومت پاکستان کے پاس تھیں کیا کسی نے انہیں حکومت برطانیہ کی بار بار درخواست کے باوجود ان سے شیئر کیا لیکن یہ فیصلہ بھی ہماری ہی حکومت نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے 15 سالوں سے منی لانڈرنگ کا سن رہے ہیں کیا کسی نے اس پر کوئی پیش رفت کی، سب بیانات کی حد تک تھا جب کہ منی لانڈرنگ سے متعلق کیس موجودہ حکومت نے رجسٹرڈ کیا، اس لیے بیان دینے والوں سے پوچھتا ہوں کہ پچھلی حکومتوں نے یہ کیس کیوں رجسٹرڈ نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ہمارے سامنے شواہد آئے ہم نے پیش رفت کی اور اطلاعات کو شیئر کرنے کے لیے برطانوی حکومت اور اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی درخواست کی، ہم نے کوئی دُہرا معیار نہیں اپنایا، ملک اور قانون کے مفاد میں ہی کام کیا۔





چوہدری نثار نے کہا کہ سرفراز مرچنٹ کے بیان میں دستاویزات کا ذکر تھا جس پر فوری طور پر کمیٹی بنائی جس پر جلد پیش رفت ہوگی، کمیٹی نے سرفراز مرچنٹ کے انٹرویو کا مطالبہ کیا ہے، ہم سرفراز مرچنٹ کو انٹرویو کے لیے خط لکھیں گے اور پاکستان آکر ان سے انٹرویو کی درخواست کی جائے گی اور اگر وہ لندن میں انٹرویو دینے کےلیے بضد رہے تو اس میں وقت درکار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سنگین مسائل پر کوئی عام آدمی بیان دے تو کوئی بات نہیں لیکن جو لوگ حکومتوں میں رہے اور قانون سے آگاہ ہیں جب وہ چوکے چھکے لگائیں تو ہنسی آتی ہے کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتے اس سلسلے میں جو کچھ قانونی امور ہیں ان پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے، ہم قانونی طور پر ان چیزوں کا پیچھا کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم سمیت تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک میں اس عہدے پر ہوں کسی کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہوگی، یہ قانونی مسئلے ہیں جو میڈیا پر آکر چوکے چھکے لگانے سے حل نہیں ہوتے اس سلسلے میں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو متعلقہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔



وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی پیش رفت سے مایوس ہوں لیکن ان کی اپنی قانونی مجبوریاں ہوں گی، ہم ان سے یہ مسئلہ پھر اٹھارہے ہیں کیونکہ ہم نے قانون کی پاسداری کے طورپر کام کیا، ہم نے ایسے سنجیدہ معاملات کو حکومت کی تشہیر کے طور پر استعمال نہیں کیا، ان معاملات کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے اور قانون اپنا راستہ خود نکالے گا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ منی لانڈرنگ کی لائن پہلے دبئی پھر لندن جاتی ہے، دبئی اور لندن کے تعاون کے بغیر معاملات آگے نہیں جاسکتے جب کہ اس معاملے پر اسکاٹ لینڈ نے بھی ایف آئی اے کی تفتیش کی تعریف کی اور یہ سب ہمارے دور میں ہوا، جو کچھ ہمارے پاس تھا اسکاٹ لینڈ یارڈ سے شیئر کیا، یہ کیس لندن میں چل رہا ہے جب وہاں سے پیشرفت نہیں ہوئی تو دوسرا آپشن یہاں کیس چلانے کا تھا۔



چوہدری نثار نے کہا کہ ایسی باتیں کی گئیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قتل وہاں ہوا اور کیس یہاں چلے، سیکڑوں کیس ایسے ہیں جہاں کسی اور ملک میں واقعہ ہوا ہو اور مقدمہ کہیں اور چلا ہو لہٰذا یہ کوئی انہونی چیز نہیں جو لوگ یہاں ہیں ان کے خلاف مقدمہ اور پیشرفت ہورہی ہے۔



 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں