پنشنرزکا ’’آن لائن‘‘ اکاؤنٹ کا عذاب
یوں کہنے کو زبانی کلامی بہت کچھ، لیکن عمل ندارد۔ یورپین اقوام کو تو چھوڑیے
KARACHI:
ہم کس قدر بدنصیب قوم ہیں کہ عام جوان اور تندرست آدمی کو تو چھوڑیے یہاں تمام سرکاری محکموں میں جو درگت سینئر سٹیزن کی بنتی ہے وہ عبرت کے قابل ہے۔ کوئی تو محکمہ ایسا ہو جہاں سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ، یعنی بالکل الگ کاؤنٹر ہوں، استقبالیہ کلرک خوش اخلاق ہوں، ضعیف اور بیمار افراد کے لیے بیٹھنے کا انتظام ہو، واش روم ہوں، واٹر کولر ہوں۔ نہ نہ، یہ سب مہذب ممالک کا شیوہ ہے، ہم تو ابھی غاروں ہی سے باہر نہیں نکلے۔
یوں کہنے کو زبانی کلامی بہت کچھ، لیکن عمل ندارد۔ یورپین اقوام کو تو چھوڑیے۔ امریکا کو بھی بھول جائیے کہ وہ مکمل فلاحی ریاستیں ہیں۔ ذرا اپنے قریبی پڑوسی بھارت کی مثال لے لیں۔ جہاں ہوائی جہاز، ریلوے، بس، تفریح گاہوں، غرضیکہ ہر جگہ سینئر سٹیزن کے لیے ٹکٹ میں بہت زیادہ رعایت ہے، خواتین کے لیے مردوں سے زیادہ رعایت دی جاتی ہے، ہر جگہ سینئر سٹیزن کی قطاریں علیحدہ ہوتی ہیں، ان میں بھی عورتوں کی الگ اور مردوں کی الگ۔
اور اپنے ہاں صرف سرکاری محکموں اور بینکوں کے نظام کو دیکھ لیجیے، بوڑھے بوڑھے لوگ، ضعیف بیمار جب بینکوں میں پنشن لینے آتے ہیں تو بعض بینکوں کا رویہ تو بہت اچھا ہوتا ہے، لیکن زیادہ تر خواری ہی ہوتی ہے۔ کیش کاؤنٹر اور ٹوکن کاؤنٹر پہ نہ کوئی قطار علیحدہ خواتین کے لیے ہوتی ہے نہ سینئر سٹیزن کے لیے۔ ہر جگہ تنومند اور زبردست افراد قبضہ جمائے نظر آتے ہیں۔
اصولاً کیش کاؤنٹر پہ صرف اسی کو ہونا چاہیے جس کا نمبر پکارا گیا ہو، لیکن آپ کسی بھی بینک میں جا کر دیکھ لیجیے، ابتدائی دس دن تک بطور خاص ان کاؤنٹرز پہ دائیں بائیں غیر متعلقہ لوگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ بینک انتظامیہ کسی گارڈ کو ہدایت نہیں کرتی کہ کیش کاؤنٹر سے غیر ضروری افراد کو ہٹائے۔ ان میں کون مخبر ہے، کون اچکا اور کون ڈکیت؟ لوگ کیش لے کر نکلتے ہیں اور راستے ہی میں لٹ جاتے ہیں کہ بینک کے باہر ہی سے اچکے اور اندر کے مخبروں کے کارندے تیار کھڑے رہتے ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی سینئر سٹیزن کی، سرکاری محکموں کی کارکردگی اور نااہلی کے بارے میں۔ ایک تازہ افتاد تمام سرکاری ملازمین (ریٹائرڈ) پر یہ پڑی ہے کہ ان کی پنشن حکومت کی ہدایت پر ''آن لائن'' کی جا رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں گریڈ 17 تا 22 کے ملازمین ہیں اور وہی جگہ جگہ دھکے کھا رہے ہیں۔
کراچی کا احوال شاید سب سے زیادہ خراب ہے کہ یہاں ہر جگہ ہی سفارشی اور نااہل لوگ زیادہ ہیں۔ بقول حکومت کے ''آن لائن'' طریقہ پنشنرز کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ بعض محکمے ملی بھگت سے وفات پا جانے والے لوگوں کی پنشن خود وصول کر رہے تھے۔ ٹھیک ہے ''آن لائن'' ہونے سے کرپشن بھی کم (ختم نہیں) ہو جائے گی اور سہولت بھی۔ لیکن اس سارے عمل میں وہی پرانا طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے جو ریٹائرمنٹ کے وقت ہوتا ہے، یعنی ہر جگہ خوار ہو۔ کلرکوں اور صاحبوں کے ٹیڑھے منہ دیکھو۔ ہزار طرح کے فارم بھرو اور پھر بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ''آپ کے کاغذات مکمل نہیں ہیں۔'' پہلے بینک سے فارم لو، لیکن بعض بینک والے بالکل تعاون نہیں کر رہے۔
ایک بنیادی فارم کے ساتھ اور کئی فارمز اور تصدیق نامے۔ پھر ان کا Attest کروانا۔ لوگوں سے شناختی کارڈ کی کاپیاں مانگنا۔ پھر جب یہ بیمار اور عمر رسیدہ پنشنرز اے جی سندھ پہنچتے ہیں تو وہاں کام ٹھیک ہو رہا ہے، لیکن عملہ کم اور مسائل زیادہ۔ ایک دھکم پیل اور رش کا عالم اس وقت سے دیکھنے میں آ رہا ہے، جب سے اخبارات میں ''اطلاع عام'' کا نوٹس شایع ہوا ہے کہ 31 مارچ تک پنشن آن لائن کروا لی جائے ورنہ ادائیگی بند ہو جائے گی۔ اب اور سنیے! اے جی سندھ والے فوراً ایک فارم حوالے کر دیتے ہیں جسے بینک کے فارم کے ساتھ ٹریژری میں جمع کروانا ہوتا ہے۔
کراچی کا ٹریژری آفس سٹی کورٹ کے پیچھے کہیں گندی گلیوں میں KMC کے عقب میں ہے۔ گاڑی گیٹ پر ہی روک لی جاتی ہے چاہے کوئی معذور ہو، کمزوری کے سبب چل نہ سکتا ہو۔ ہمارے ساتھ تین اور خواتین بھی تھیں، جن میں سے ایک کی دونوں ٹانگوں میں فریکچر ہو چکا تھا۔ لیکن باوجود منت سماجت کرنے پر پولیس والوں نے گاڑی کو اندر صرف ہمیں اتار کر فوراً واپس آنے کی اجازت بھی نہ دی۔ مجبوراً ہماری ساتھی بمشکل سنبھل سنبھل کر تقریباً آدھے گھنٹے میں ٹریژری پہنچیں، جو دوسری جانب اور دوسری عمارت میں ہے، لیکن من چاہے لوگوں کو اور ''شاہ کے وفاداروں'' کی گاڑیاں اندر آ رہی تھیں اور لوگوں کو اتار کر واپس بھی جا رہی تھیں۔
اب اصل دفتر ٹریژری کا حال سنیے! وہاں بھی عملہ کم اور لوگ زیادہ۔ کئی کئی گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد متعلقہ کاغذ پر مہر لگا کر واپس کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ بیس دن بعد آپ لوگ اے جی سندھ جائیں۔ آپ کی فائل بھیجنے میں پندرہ دن سے زیادہ لگیں گے۔ لیکن حیرت ناک بات یہ کہ برابر کے کمرے سے جو لوگ نکل رہے تھے اور جو مرد و خواتین بینچوں پہ بیٹھے انتظار کر رہے تھے، ان کی فائلیں صرف دو تین دن میں ہی اے جی آفس چلی جاتی ہیں۔ شکر ہے کہ اے جی سندھ میں لوگ بہت تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بھی مجبور ہیں کہ جب تک ٹریژری والے فائل نہیں بھیجیں گے پنشن کے پیپر کمپیوٹر میں آن لائن کے لیے کیسے محفوظ کیے جائیں گے۔
یہ سارا عمل انتہائی تکلیف دہ اور تھکا دینے والا ہے۔ اکاؤنٹ جنرل سندھ کو چاہیے کہ وہ عملہ بڑھائیں۔ غیر ضروری رکاوٹیں دور کریں، بلاجواز ٹریژری میں تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بعض پنشنرز کی پنشن جنوری سے بند ہے، بعض کی فروری سے اور کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جا رہی کہ کب پنشن آن لائن ہو گی اور بقایاجات ملیں گے۔
ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کی گزر اوقات صرف ایک فرد کی پنشن پر ہے۔ حکومت آئے دن نت نئے شگوفے چھوڑتی ہے اور کوئی موقع عوام کو پریشان کرنے کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اگر کچھ لوگ پنشن اکاؤنٹ کے کرپشن میں ملوث تھے تو سیدھا سادہ طریقہ یہ تھا کہ زندہ افراد کو ان کے متعلقہ محکموں، کالجوں اور دیگر اداروں سے لائف سرٹیفکیٹ نئی تازہ تصویر کے ساتھ منگوا لیے جاتے۔ چاہے انھیں وہیل چیئر ہی پہ بیٹھ کر کیوں نہ آنا پڑتا۔ لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔
سینئر سٹیزن کا آن لائن پنشن کا طریقہ کار بالکل ایسا ہی ہے جس کے لیے یہ محاورہ ہی صادق آتا ہے کہ ''مرے پہ سو درّے اور'' لیکن یہ بھی ایک تعجب خیز امر ہے کہ ٹریژری میں کام کرنے والے کلرک تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ فائلیں اور فارم نکال کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں، اور آدھے گھنٹے سے پہلے واپس نہیں آتے۔ یہ کن لوگوں کی فائلیں ہیں اور کاؤنٹر کلرک بار بار لوگوں کے کام چھوڑ کر کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ خواتین کے حصے میں مرد آزادانہ پرچیاں پکڑے آ جاتے ہیں اور کلرک ان کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
جس ملک میں سینئر سٹیزن وہ بھی 17 سے 22 گریڈ کے پنشنرز افسران کا یہ حال کیا جا رہا ہو، وہاں کسی خیر کی امید رکھنا محض دیوانے کا خواب ہے اور کچھ نہیں۔ کاش اکاؤنٹ جنرل سندھ اور ٹریژری کے افسران اس صورتحال کا نوٹس لیں اگر خوف خدا اور آخرت میں اعمال کی جزا و سزا پہ کامل یقین ہو تو کوئی بھی صاحب ضمیر فرض شناس افسر یہ کام کر سکتا ہے۔
ایک اور ستم یہ کہ اکاؤنٹ جنرل سندھ اور ٹریژری آفس تمام سرکاری ملازمین کی تقرری، تبادلوں، ترقی اور ریٹائرمنٹ اور پنشن جیسے تمام معاملات کے ذمے دار ہوتے ہیں، ان دونوں محکموں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک دوسرے کے لیے دونوں دفاتر لازم و ملزوم ہیں، لیکن کراچی جیسے انتہائی بڑے اور گنجان آبادی والے شہر میں ہر کام نرالا ہے۔ ٹریژری آفس سٹی کورٹ کے عقب میں جہاں دن رات مجرموں، قیدیوں، فریادیوں، وکیلوں اور گواہوں کا رش، جن سے گزرنا مقام عبرت ہے۔ پھر ٹریژری جنوب میں اور اکاؤنٹ جنرل سندھ کا دفتر شمال میں، ایک دفتر مغرب میں دوسرا اسی سے منسلک محکمہ مشرق میں۔ لوگوں کی زندگیاں ان دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے ختم ہو جاتی ہیں۔
کاش صوبائی حکومت کے کسی ذمے دار وزیر کے دل میں خدا یہ نیکی ڈال دے کہ ٹریژری آفس کے مرغی خانے کو یونیورسٹی روڈ پر کسی دوسری معقول عمارت میں منتقل کر دے تا کہ سینئر سٹیزن، خواتین اور دیگر لوگوں کو اتنی آسانی تو صوبائی حکومت مہیا کر دے کہ دونوں دفاتر ایک ہی علاقے میں قریب قریب ہوں۔ باقی کام تو محکمے کے اہل کار ''فی سبیل اللہ'' اور ''ھٰذا مِن فَضلِ ربِّی'' کے اصولوں کے تحت کر ہی دیتے ہیں۔