میں ان ہواؤں کو چوم لوں
دیر تک کھڑے ہو کر ہم دیکھتے رہتے ہیں، جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتی
KARACHI:
دیر تک کھڑے ہو کر ہم دیکھتے رہتے ہیں، جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتی، آنکھوں میں نمی سی اتر آتی ہے، ہاتھوں کو ان کا لمس اور سانسوں کو دیر تک ان کے وجود کی خوشبو محسوس ہوتی رہتی ہے۔ ہم سب جب اپنے پیاروں کو ، اپنے بچوں کوبالخصوص رخصت کرتے ہیں تو اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔ دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں کہ ان کا سفر بخیر گزرے اور وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنی منزل مقصود تک پہنچیں، پہنچ کر ان کا پیغام آتا ہے یا فون تو دل کو تسلی ہوتی ہے اورہم اس وقت کی آس میں جینے لگتے ہیں جب ان سے دوبارہ ملاقات ہو گی۔
نماز فجر کے بعد، اپنے ملک کے لیے دعائیں کرتے وقت دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ باری تعالی ہمارے ملک کی فوج کے ایک ایک جوان کی حفاظت فرمائے اور ان جوانوں کے والدین کو صبر دے جو جام شہادت نوش کر چکے ہیں، کاش ہماری دعاؤں میں اتنی طاقت ہوتی، کاش یہ ہونا اتنا ہی آسان ہوتا جتنا کہ کہنا، سننا اور دیکھنا ہوتا ہے۔
ہر روز فیس بک پر درجنوں ایسے خوبصورت اور جوان ، ماؤں کے لال نظر آتے ہیں، جن کی ماؤں کا انتظار کا عرصہ ان کی اپنی حیات تک طویل ہو گیا ہے، ایسی حیات جس میں جینے کی خواہش شامل نہیں۔ کیسے بڑے کلیجے ہوتے ہیں ان والدین کے کہ جو اپنے پلے پلائے سپوت مادر وطن کی حفاظت کی خاطر اپنے ہاتھوں سے اسے سونپ دیتے ہیں اور ان میں کتنے ہی ایسے ہیں جو اس کے بعد کبھی اپنے قدموں پر لوٹ کر نہیں آتے، ان کا لمس اور ان کی خوشبو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھن جاتی ہے۔
وہ اس فکر سے بے نیاز ہو جاتے ہیں کہ ان کے والدین، ان کے بہن بھائی، بیوی بچے اور اہل خاندان ان کے بغیر کس طرح زندگی گزاریں گے۔ وہ اس راہ کے مسافر ہو جاتے ہیں کہ جن کی منزل ستاروں سے آگے اور کہکشاؤں سے وسیع ہے، جن کا سفر کٹھنائیوں سے پاک ہو جاتا ہے اور وہ اس دنیا سے پردہ کر کے بھی مردہ نہیں کہلاتے، ابدی حیات پا جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہنے کا حکم ہے اور ان کی شہادت کو ابدی زندگی کا نام دیا جاتا ہے۔
میں ان پیاری پیاری صورتوں کو دیکھتی ہوں جواپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، اس مادر وطن پر قربان ہو کر انھوں نے خود کو اس دنیا سے چھپا لیا مگر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک کو آخرت کی ٹھنڈک بنا دیا، ایک جان کی قربانی ہم جیسے کتنے نا شکروں کی سکون کی نیند کا باعث ہوتی ہے، ملک دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر وہ کٹھن حالات میں مقابلہ کرتے ہیں اور ہم اپنے آرام دہ بستروں میں دبکے ہوئے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ فوج ملک کا سارا بجٹ کھا گئی ہے۔ صرف سوچ ہی نہیں رہے ہوتے بلکہ کئی جگہوں پر بیٹھ کر پورا پورا حساب کیا جاتا ہے، کس کو کیا کیا سہولیات ملیں!!!
بڑے بڑے دانشور کہلانے والے، بڑے بڑے بکاؤ لوگ، ٹیلی وژن چینلوں پر بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے، وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمارے چینل دنیا بھر میں دیکھے اور سنے جا رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو نام کے پاکستانی ہیں کہ ان کے آباو اجداد پاکستان سے گئے تھے اور ان کی اگلی نسلیں وہیں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں ، اپنے والدین کے آبائی ملک کے بارے میںان کی معلومات کا سارا انحصار انھیں چینلوں پر ہے جو انھیں میسر ہیں۔
ان ہی سے ان کے اذہان میں پاکستان کے بارے میں وہ منفی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس ملک میں آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔بڑی طاقتیں بڑے بڑے انعامات اور ایوارڈ بھی ان لوگوں کو دیتی ہیں جو اس ملک کی منفی projection کرتے ہیں ، میرا کسی سے ذاتی بغض نہیں مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم وہ ہیں جو اسی تھالی میں چھید کرتے ہیں جس میں کھاتے ہیں اور اسی ڈالی کو کاٹتے ہیں جس پر ہم بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ ہم سب کا المیہ ہے اور ہم سب کا منفی انداز۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی، کبھی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کسی پروگرا م کے ذریعے ان کے اپنے ملک، مذہب، زبان ، ثقافت یا لوگوں کی برائیاں سنی ہیں؟ کون سی جگہ ہے جہاں جرائم نہیں ہیں، عورتو ں کے حقوق کا استحصال نہیں ہوتا ، خواہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک ہوں ؟ کہاں پر عورتوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، زنا نہیں ہوتا، جبر نہیں ہوتا، گھروں میں اورگھروں سے باہر ان کے حقوق کا استحصال نہیں ہوتا؟
کون سا گوشہ ہے دنیا کا ایسا جس میں انھیں مردوں کے مقابلے میںکمتر مخلوق نہیں سمجھا جاتا؟؟ مگر جب آسکر ایوارڈ یا نوبل انعام دینے کا وقت آتا ہے تو ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو '' رج '' کر اس ملک کی مٹی پلید کر سکیں!!! ہر روز کتنی ہی ملالائیں اس ملک میں بھی اور دیگر ملکوں میں بھی مجروح ہوتی ہیں مگر انھیں اتنا وی آئی پی پروٹوکول اپنے گھروں میں بھی نہیں ملتا جتنا ہمارے ملک کی ملالہ کو سپر طاقتوں نے دے دیا ہے... اس پر ہم ان کا جتنا بھی احسان مانیں کم ہے، چلو یہ تو ہے کہ فلاں انعام پاکستانی عورت کو ملا یا پاکستانی لڑکی کو۔
اس ملک میں بہت کچھ مثبت بھی ہو رہا ہے... دنیا بھر میں ہماری پاک فوج، بہترین افواج میں سے ایک، جو بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں مانند خار کھٹکتی ہے- اندرون ملک اور بیرون ملک، اسلامی دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں حالات خراب ہونے پر پاک فوج کو پکارا گیا تو انھوں نے لبیک نہیں کہا، اس پر بھی لوگوں کا کہنا کہ اپنے فائدے کے لیے جاتے ہیں، انھیں اس کی فالتو تنخواہ ملتی ہے۔ سرحدوں پر دشمن کی گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے سینہ سپر ہونا ہو یا اپنوں سے دور کسی پسماندہ ملک میں نا گفتہ بہ حالات میں ان دیکھے دشمنوں سے لڑنا!!! اس کے لیے کوئی بھی عوضانہ دیا جائے ، کم ہے۔
کون سی قیمت ہے جو کسی کے پلے پلائے لال کی مقرر کی جا سکتی ہے؟ کون سے مفادات ہیں جن کی خاطر کوئی ماں باپ اپنے جوان اور سجیلے بیٹوں کو قربان کر سکتے ہیں؟ ملک میں کوئی بھی مسئلہ ہو، خواہ وہ فوج کی ذمے داریوں میں شامل ہو نہ ہو مگر جہاں پاک فوج کو پکارا جاتا ہے، وہ لبیک کہتے ہیں۔ تاجروں سے ٹیکس کی وصولی، الیکشن، مردم شماری، بھوت اسکول، سیلاب، زلزلے ، حادثات، آگ لگنے کے واقعات، مظاہرے، دھرنے اور ہڑتالیں... غرض جہاں بات حکومت کے دائرہ ء اختیار سے باہر نکلتی نظر آتی ہے، سب کی نگاہیں فوج کی طرف اٹھتی ہیں۔ اس ملک کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میںہوتا ہے اور اس فوج کا ہر ہر جوان جذبہء حب الوطنی سے سرشار اور مادر وطن پر ہر آن کٹ مرنے کو تیار ہے۔
ان مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کو کیوں دستاویزی فلمیں نہیں بنائی جاتیں اور ان راہ حق کے شہیدوں کے بارے میں معلوماتی پروگرام سال میں صرف ایک ہی دن کیوں دکھائے جاتے ہیں اور ان کی زندگیوں اور شہادتوں ، قربانیوں ، کارناموں اور فتوحات پر فلمیںکیوں نہیں بنتیں؟؟ اس سے کسی کو دلچسپی نہیں یا اس موضوع کو مثبت انداز میں پیش کرنے سے ہمارے دنیاوی آقاؤں کی خوش نودی حاصل نہیں ہوسکتی؟؟
کاش کوئی فلم بنائے... River of Blood ، وہ خون جس کا ایک ایک قطرہ ہماری سانسوں سے قیمتی ہے، اس ملک کی فضاؤں میں اس لہو کی باس رچی ہے، جو اس قدر بہہ چکا ہے کہ ایک متبرک دریا بن چکا ہے، اس دریا سے چھو کر آنے والی ہوائیں... ہم سب کو معطر کرتی ہیں، ہمیں سکون اور زندگی بخشتی ہیں ، یہ ہوائیں کہتی ہیں کہ انھوں نے ان جسموں کو چھوا ہے، جن کی قربانی ہمیں تحفظ دیتی ہے اور اس دریا کے لہو کا ایک ایک قطرہ اس مادر وطن کو ابدی حیات بخشتا ہے۔ میں اس لہو کو چھو کر آنے والی ان ہواؤں کو چوم لوں !!!