گوادر کتب میلہ اور انجمن ترقی اردو
ماہنامہ قومی زبان میں مجلس ادارت میں ان کا نام نظر آتا ہے
فیس بک کی دنیا کا دوسرا نام گلوبل ولیج ہے۔ پوری دنیا کے خاص و عام حضرات اس چھوٹی سی اسکرین پر اپنے مشاغل اور علمی و ادبی سرگرمیوں یا پھر فضول مشغلوں کے ساتھ نظر آتے ہیں، کچھ لوگ فیس بک سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اکثریت ان لوگوں کی ہے جو وقت کا زیاں کرتے ہیں، خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے طرز عمل سے اذیت پہنچاتے ہیں۔ بہرحال پچھلے دنوں ہمیں بھی کئی شناسا چہرے نظر آئے جو اہم کاموں اور ادب کے فروغ کے لیے کراچی سے گوادر گئے تھے۔
انھی شخصیات میں ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی شامل تھیں۔ ماہنامہ قومی زبان میں مجلس ادارت میں ان کا نام نظر آتا ہے۔ انجمن ترقی اردو کی طرف سے گوادر میں کتابوں کا ایک اسٹال لگایا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاطمہ تقریباً ہر ہفتے انجمن میں ادبی نشستوں کا اہتمام کرتی ہیں، اس بار انھوں نے مرزا غالب اور صادقین کی برسی کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ حسب معمول بڑی تعداد میں حاضرین نے شرکت کی تھی۔ فاطمہ حسن سے دورۂ گوادر کے حوالے سے بھی گفت و شنید رہی۔ اس موقع پر انھوں نے تصاویر اور تحریر کے ذریعے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور چند صفحات پر مشتمل ایک جریدہ بھی دیا۔
یہ آر سی ڈی کونسل گوادر کے حوالے سے تھا۔ اس پرچے میں 1961 سے تاحال گوادر کے علمی اور فلاحی کاموں کی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح جہد مسلسل رنگ لاتی ہے۔ گوادر کی مختصراً تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ ستمبر 1958 سے گوادر سلطنت عمان و مسقط کا صوبہ تھا، یہ وہ دور تھا جس میں کوئی اور تعلیمی و فلاحی ادارہ موجود نہ تھا، آبادی کم تھی اور لوگوں میں تعلیم کی تقسیم کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا، تخریب کاری اور سیاسی سرگرمیوں سے بھی یہ صوبہ پاک تھا، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کے چند باشعور نوجوانوں نے انجمن اصلاح بلوچاں کے نام سے تنظیم بنائی۔
جس کا مقصد وہاں کے لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا تھا، اسی انجمن نے سماجی، ادبی اور تفریحی پروگراموں کی بدولت گوادر کلب کو جنم دیا۔ 70 کی دہائی میں گوادر کلب نے حکومت بلوچستان سے معاہدے کی وجہ سے آر سی ڈی کونسل کے نام سے این جی او کے طور پر باقاعدہ کام کرنا شروع کردیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اسی آر سی ڈی کونسل کے بارے میں بتایا کہ وہ اور ان کی جماعت 11 تا 14 فروری میں منعقد ہونے والے کتب میلے میں شرکت کے لیے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے قدم قدم پر حیرتوں نے جکڑ لیا۔ گوادر کی خوبصورتی کے بارے میں تو سنا تھا لیکن جو دیکھا وہ سنے سنائے سے کہیں زیادہ دلکش تھا، چٹانوں میں کسی ماہر سنگ تراش کے تراشے ہوئے خوبصورت مجسمے اور رنگا رنگ لہریے دار نمونے میلوں پھیلے ہوئے ہیں۔ایک نسوانی حسن اور پروقار مجسمہ بھی حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے پاس بیٹھے سحر امداد اور امداد حسینی سے کہا یہ بت تو قدرت کا تراشیدہ ہے، اس کے لیے کیا فتویٰ ہوسکتا ہے۔ میرا خیال ہے فتوے کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ رب العزت اور اس کائنات کے رب نے ''پوجنے'' کو منع فرمایا ہے، کہ بس وہی مالک و خالق، رب کائنات ہے جس کی عبادت اور اس کے سامنے سربسجود کرنا بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر ہم صحراؤں، جنگلوں، بیابانوں کا سفر کریں تو ہم دیکھتے ہیں پتھروں، مٹی اور گرد و غبار نے مختلف جانداروں کی شکلیں اختیار کرلی ہیں، پتھروں کو ہواؤں کے تھپیڑوں نے خوبصورت مجسمے بنادیا ہے، بھٹکے اور گمراہ لوگ انھیں اور کئی اور معمولی چیزوں کو پوجنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بہرحال اللہ کی قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے۔ حیراں ہوں کہ ان دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، گنگناتے ہوئے چشمے، آبشاریں، سب اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں، دیکھنے والی نگاہ اور مسحور ہونے والا دل و دماغ ہونا چاہیے۔
فاطمہ نے اس پتھریلی اور پروقار شہزادی کو دیکھ کر اس طرح دعا کی کہ اسے اس کے پورے ماحول کے ساتھ محفوظ رکھنا اور یہ شہزادیٔ امید دیر تک امید بھری نظروں سے دیکھتی رہے، کاش بلوچستان کی ہر عورت اپنے قدموں پر کھڑی سربلند نظر آئے۔میں نے امید کی شہزادی سے دل ہی دل میں کہا۔ ''اے شہزادی امید! تیرے قدموں میں پوری تہذیب بسی ہوئی ہے، شاعری، موسیقی، کتابیں، تیرے گہنے ہیں، جو قدرت نے گوادر کے باسیوں کو دان کردیے ہیں۔
گوادر کے ساحل تو سلامت رہے اور اپنی وسعت میں تہذیب کے ملاپ کی وسعت کے ساتھ اور اپنی گہرائیوں میں فنکار کی روح کو سمائے۔'' گوادر کانفرنس میں سابق وزیر زبیدہ جلال اور معروف صحافی وسعت اللہ خان بھی شریک ہوئے تھے۔ عطا شاد کے حوالے سے مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عطا شاد کو دیکھا ہے، سنا ہے، ان سے باتیں کی ہیں اور انھیں پڑھا ہے، ان کا ایک شعر سندھ میں سیلاب کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو سنایا تھا۔
سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لب دریا بنائیے
عطا شاد کی شاعری بلوچستان کے پس منظر میں پروان چڑھی ہے، یہاں کے پہاڑ، سمندر، جھیلیں ان کی شاعری میں خوبصورت استعارے بن کر قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔
مشاعرے کی صدارت گوادر کے معروف انقلابی شاعر مبارک قاضی نے کی۔ کراچی سے اردو اور سندھی کے سینئر شاعر امداد حسینی، شاعرہ سحر امداد، وش نیوز اور ماہنامہ ویٹرنری کے سی ای او احمد اقبال بلوچ اور کوئٹہ کے ترقی پسند شاعر سلیم کرد اور پورے مکران سے تقریباً 50 شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا، انھی میں کراچی کے وحید نور، آصف علی آصف بھی شامل تھے۔
ڈرامہ، موسیقی اور مصوری نے کانفرنس کی دلچسپی میں مزید اضافہ کردیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بلوچستان کے ممتاز ادیب اور ''سنگت'' کے مدیر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے نہ صرف بلوچستان کی خواتین کے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے اہم کتابیں لکھیں بلکہ ایک تنظیم بھی قائم کی ہے جس کا نام ''سموراج'' ہے۔اختتامی سیشن کی خصوصیت یہ تھی کہ بلوچی ناول اور کہانیوں کا قابل اعتبار نام منیر احمد بادینی نے فکر انگیز تقریر کی، وہ اسی گوادر کے 1988 میں ڈپٹی کمشنر رہے تھے، تقریب میں منیر احمد بادینی کی کتاب جوکہ تراجم پر مشتمل تھی، اس کی تقریب پذیرائی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ تقریب میں شرکا گفتگو، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ''آج'' کے مدیر و مترجم اجمل کمال تھے۔
فاطمہ حسن نے دیے ہوئے موضوع ''فیمینزم'' پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ''فیمینزم خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس رویے کا نام ہے جو لکھنے اور پڑھنے والے کو یہ شعور دے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اس میں عورت کے انسانی وقار اور اس کی ذات کی تضحیک و تذلیل تو نہیں ہو رہی، کیونکہ صدیوں سے ہمارے سماج میں عورتوں کو کم تر مخلوق ثابت کیا جا رہا ہے۔''
اجمل کمال نے تراجم کی باریکیوں اور ان کی اور ہماری زبانوں میں ضرورت کو بیان کیا اور بتایا کہ تراجم ہماری اس خواہش کی تکمیل کرتے ہیں کہ دوسرے اور دور دراز کے لوگ کس طرح سوچتے اور رہتے بستے ہیں۔گوادر کی تعلیمی اہمیت اور اس کی تعمیر و ترقی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس ''کتب میلے'' میں سات ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی اور مجموعی طور پر موجودہ سال میں تقریباً ساڑھے 6 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں، گزشتہ برسوں میں پانچ لاکھ اور تین لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ یقیناً علم و ادب کے فروغ کے حوالے سے یہ بڑی کامیابی ہے، اسی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے انشا اللہ آیندہ سال بھی ''کتاب میلہ'' منعقد کیا جائے گا۔
انھی شخصیات میں ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی شامل تھیں۔ ماہنامہ قومی زبان میں مجلس ادارت میں ان کا نام نظر آتا ہے۔ انجمن ترقی اردو کی طرف سے گوادر میں کتابوں کا ایک اسٹال لگایا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاطمہ تقریباً ہر ہفتے انجمن میں ادبی نشستوں کا اہتمام کرتی ہیں، اس بار انھوں نے مرزا غالب اور صادقین کی برسی کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ حسب معمول بڑی تعداد میں حاضرین نے شرکت کی تھی۔ فاطمہ حسن سے دورۂ گوادر کے حوالے سے بھی گفت و شنید رہی۔ اس موقع پر انھوں نے تصاویر اور تحریر کے ذریعے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور چند صفحات پر مشتمل ایک جریدہ بھی دیا۔
یہ آر سی ڈی کونسل گوادر کے حوالے سے تھا۔ اس پرچے میں 1961 سے تاحال گوادر کے علمی اور فلاحی کاموں کی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح جہد مسلسل رنگ لاتی ہے۔ گوادر کی مختصراً تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ ستمبر 1958 سے گوادر سلطنت عمان و مسقط کا صوبہ تھا، یہ وہ دور تھا جس میں کوئی اور تعلیمی و فلاحی ادارہ موجود نہ تھا، آبادی کم تھی اور لوگوں میں تعلیم کی تقسیم کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا، تخریب کاری اور سیاسی سرگرمیوں سے بھی یہ صوبہ پاک تھا، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کے چند باشعور نوجوانوں نے انجمن اصلاح بلوچاں کے نام سے تنظیم بنائی۔
جس کا مقصد وہاں کے لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا تھا، اسی انجمن نے سماجی، ادبی اور تفریحی پروگراموں کی بدولت گوادر کلب کو جنم دیا۔ 70 کی دہائی میں گوادر کلب نے حکومت بلوچستان سے معاہدے کی وجہ سے آر سی ڈی کونسل کے نام سے این جی او کے طور پر باقاعدہ کام کرنا شروع کردیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اسی آر سی ڈی کونسل کے بارے میں بتایا کہ وہ اور ان کی جماعت 11 تا 14 فروری میں منعقد ہونے والے کتب میلے میں شرکت کے لیے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے قدم قدم پر حیرتوں نے جکڑ لیا۔ گوادر کی خوبصورتی کے بارے میں تو سنا تھا لیکن جو دیکھا وہ سنے سنائے سے کہیں زیادہ دلکش تھا، چٹانوں میں کسی ماہر سنگ تراش کے تراشے ہوئے خوبصورت مجسمے اور رنگا رنگ لہریے دار نمونے میلوں پھیلے ہوئے ہیں۔ایک نسوانی حسن اور پروقار مجسمہ بھی حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے پاس بیٹھے سحر امداد اور امداد حسینی سے کہا یہ بت تو قدرت کا تراشیدہ ہے، اس کے لیے کیا فتویٰ ہوسکتا ہے۔ میرا خیال ہے فتوے کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ رب العزت اور اس کائنات کے رب نے ''پوجنے'' کو منع فرمایا ہے، کہ بس وہی مالک و خالق، رب کائنات ہے جس کی عبادت اور اس کے سامنے سربسجود کرنا بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر ہم صحراؤں، جنگلوں، بیابانوں کا سفر کریں تو ہم دیکھتے ہیں پتھروں، مٹی اور گرد و غبار نے مختلف جانداروں کی شکلیں اختیار کرلی ہیں، پتھروں کو ہواؤں کے تھپیڑوں نے خوبصورت مجسمے بنادیا ہے، بھٹکے اور گمراہ لوگ انھیں اور کئی اور معمولی چیزوں کو پوجنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بہرحال اللہ کی قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے۔ حیراں ہوں کہ ان دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، گنگناتے ہوئے چشمے، آبشاریں، سب اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں، دیکھنے والی نگاہ اور مسحور ہونے والا دل و دماغ ہونا چاہیے۔
فاطمہ نے اس پتھریلی اور پروقار شہزادی کو دیکھ کر اس طرح دعا کی کہ اسے اس کے پورے ماحول کے ساتھ محفوظ رکھنا اور یہ شہزادیٔ امید دیر تک امید بھری نظروں سے دیکھتی رہے، کاش بلوچستان کی ہر عورت اپنے قدموں پر کھڑی سربلند نظر آئے۔میں نے امید کی شہزادی سے دل ہی دل میں کہا۔ ''اے شہزادی امید! تیرے قدموں میں پوری تہذیب بسی ہوئی ہے، شاعری، موسیقی، کتابیں، تیرے گہنے ہیں، جو قدرت نے گوادر کے باسیوں کو دان کردیے ہیں۔
گوادر کے ساحل تو سلامت رہے اور اپنی وسعت میں تہذیب کے ملاپ کی وسعت کے ساتھ اور اپنی گہرائیوں میں فنکار کی روح کو سمائے۔'' گوادر کانفرنس میں سابق وزیر زبیدہ جلال اور معروف صحافی وسعت اللہ خان بھی شریک ہوئے تھے۔ عطا شاد کے حوالے سے مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عطا شاد کو دیکھا ہے، سنا ہے، ان سے باتیں کی ہیں اور انھیں پڑھا ہے، ان کا ایک شعر سندھ میں سیلاب کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو سنایا تھا۔
سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لب دریا بنائیے
عطا شاد کی شاعری بلوچستان کے پس منظر میں پروان چڑھی ہے، یہاں کے پہاڑ، سمندر، جھیلیں ان کی شاعری میں خوبصورت استعارے بن کر قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔
مشاعرے کی صدارت گوادر کے معروف انقلابی شاعر مبارک قاضی نے کی۔ کراچی سے اردو اور سندھی کے سینئر شاعر امداد حسینی، شاعرہ سحر امداد، وش نیوز اور ماہنامہ ویٹرنری کے سی ای او احمد اقبال بلوچ اور کوئٹہ کے ترقی پسند شاعر سلیم کرد اور پورے مکران سے تقریباً 50 شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا، انھی میں کراچی کے وحید نور، آصف علی آصف بھی شامل تھے۔
ڈرامہ، موسیقی اور مصوری نے کانفرنس کی دلچسپی میں مزید اضافہ کردیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بلوچستان کے ممتاز ادیب اور ''سنگت'' کے مدیر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے نہ صرف بلوچستان کی خواتین کے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے اہم کتابیں لکھیں بلکہ ایک تنظیم بھی قائم کی ہے جس کا نام ''سموراج'' ہے۔اختتامی سیشن کی خصوصیت یہ تھی کہ بلوچی ناول اور کہانیوں کا قابل اعتبار نام منیر احمد بادینی نے فکر انگیز تقریر کی، وہ اسی گوادر کے 1988 میں ڈپٹی کمشنر رہے تھے، تقریب میں منیر احمد بادینی کی کتاب جوکہ تراجم پر مشتمل تھی، اس کی تقریب پذیرائی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ تقریب میں شرکا گفتگو، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ''آج'' کے مدیر و مترجم اجمل کمال تھے۔
فاطمہ حسن نے دیے ہوئے موضوع ''فیمینزم'' پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ''فیمینزم خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس رویے کا نام ہے جو لکھنے اور پڑھنے والے کو یہ شعور دے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اس میں عورت کے انسانی وقار اور اس کی ذات کی تضحیک و تذلیل تو نہیں ہو رہی، کیونکہ صدیوں سے ہمارے سماج میں عورتوں کو کم تر مخلوق ثابت کیا جا رہا ہے۔''
اجمل کمال نے تراجم کی باریکیوں اور ان کی اور ہماری زبانوں میں ضرورت کو بیان کیا اور بتایا کہ تراجم ہماری اس خواہش کی تکمیل کرتے ہیں کہ دوسرے اور دور دراز کے لوگ کس طرح سوچتے اور رہتے بستے ہیں۔گوادر کی تعلیمی اہمیت اور اس کی تعمیر و ترقی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس ''کتب میلے'' میں سات ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی اور مجموعی طور پر موجودہ سال میں تقریباً ساڑھے 6 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں، گزشتہ برسوں میں پانچ لاکھ اور تین لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ یقیناً علم و ادب کے فروغ کے حوالے سے یہ بڑی کامیابی ہے، اسی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے انشا اللہ آیندہ سال بھی ''کتاب میلہ'' منعقد کیا جائے گا۔